علامہ اقبالؒ کا نظریۂ تعلیم

تحریر: محمد حبیب الدین احمد ۔۔۔ترتیب: عبدالعزیز
علامہ اقبالؒ اسلامی نظریۂ تعلیم کے حامی ہیں۔ ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کا مستقبل اسلام اور صرف اسلام سے وابستہ ہے اور اس کے معمار آج کے طلباء ہیں۔ اس لئے ان کی ذہنی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کی نشوو نما اور ان کے نصب العین کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ انھیں جدید نظام تعلیم کے مضر اثرات سے بچایا جائے جس کی بنیادیں مادہ پرستی اور ملحدانہ نظریات پر قائم ہیں۔ اس کے برعکس ایک ایسے نظام تعلیم و تربیت کی تشکیل کی جائے جو ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت سے عبارت ہو۔
اگر کوئی قوم ایسا نظام تعلیم نہیں رکھتی جو اس کے نوجوانوں میں احساس خودی بیدار کرسکے تو اس کا شیرازہ بکھر کر رہے گا اور وہ مقصد کے عشق سے محروم ہوجائے گی۔ اس کے افراد کو باہم جوڑے رکھنے کیلئے کوئی چیز کارگر ثابت نہ ہوگی۔ ایسی قوم خود ہی اپنی ہی نظروں میں گرجاتی ہے اور اس کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ قانون فطرت یہ ہے کہ کسی قوم کے افراد اگر بامقصد زندگی گزار رہے ہوں تو وہ قوم اجتماعی حیثیت میں بھی فلاح یاب ہوگی اور اس کے افراد میں اتنی قوت ہوگی کہ وہ زمانے کی ہر گردش اور حالات کی ہر کروٹ کو اپنے مقصد کے مطابق بدل سکیں، لیکن اگر ان میں یہ قوت باقی نہیں ہے تو وہ حالات کے رخ کو موڑنے کے بجائے خود ہی حالات کے تیز دھارے میں بہہ جائیں گے اور زمانہ جس سانچے میں چاہے گا انھیں بآسانی ڈھال لے گا ؂
زندہ فرد از ارتباط جان و تن ۔۔۔ زندہ قوم از حفظ ناموس وطن
مرگ فرد از خشکی رود جہات ۔۔۔ مرگ قوم از ترک مقصود حیات
چنانچہ اقبال چاہتے ہیں کہ طلباء کو صداقت، دیانت، عدل و انصاف اور شجاعت اور سب سے بڑھ کر ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا سبق دیا جائے اور ان کو جو کچھ سکھایا جائے اس طرح سکھایا جائے کہ اس کے ساتھ ان کا ذہنی ارتقا بھی ہوسکے اور ان میں فکر و استدلال کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم پیدا ہو۔ صرف یہی نہیں کہ وہ دین کو اختیار کریں بلکہ منکرین اسلام کو صداقت و حقانیت کی طرف دعوت دیں اور اعلاء کلمۃ اللہ کی جدوجہد میں پورا حصہ لے سکیں ؂
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا ۔۔۔لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی صداقت کا
اسلامی نظام تعلیم کا مقصد ایسے انسان تیار کرنا ہے جو اپنے دین پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ اسے اچھی طرح سمجھتے ہوں اور جن میں قابلیت اور صلاحیت بھی موجود ہو کہ وہ زندگی کے مسائل کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرسکیں، جن کی زندگیاں اسلامی تہذیب و تمدن کا نمونہ ہوں، جنھیں اسلامی تہذیب پر فخر ہو، جو اسلام کے نظام عدل کو ساری دنیا میں نافذ کرنے اور اس کیلئے جان کی بازی لگانے کے جذبہ سے سرشار ہوں، جو کردار و اخلاق میں دوسروں کیلئے ایک مثالی نمونہ ہوں اور جن کو ذاتی منفعت کو دینی و ملی تقاضوں پر قربان کرنے میں ہر گز دریغ نہ ہو۔ ایسے ہی افراد ہمارے دین و ملت کا مستقبل ہیں۔ وہی نظام تعلیم اسلامی ہے جو ایسے افراد کو تیار کرسکے۔
اسلام زندگی آمیز اور زندگی آموز تعلیم کا داعی ہے۔ ا س کے پیش نظر محض نظریاتی تعلیم ہی نہیں بلکہ ایسی ہمہ گیر تعلیم ہے جو طالب علم کیلئے نہیں بلکہ ملک و ملت کیلئے بھی ہر پہلو سے مفید اور نافع ہو۔ تعلیم کا مقصد محض ڈگریوں کا حصول یا ملازمتوں کیلئے ویزا کی فراہمی نہ ہو بلکہ اس کا مقصد فکر و عمل دونوں کی تعمیر و تشکیل ہے۔ تعلیم طلباء کی صلاحیت اور ملک و ملت کی ضروریات کے مطابق دی جائے اور درس گاہوں سے حاصل کیا ہوا علم پوری زندگی میں مشعل راہ رہے، چنانچہ اقبال فرماتے ہیں :
’’ہماری قومی سرگرمیوں کا محرک اقتصادی اغراض ہی نہیں ہونی چاہئیں۔ قوم کی وحدت کی بقا اور ا س کی زندگی کا تسلسل قومی آرزوؤں کا ایک ایسا نصب العین ہے جو فوری اغراض کی تکمیل کے مقابلے میں بہت اشرف واعلیٰ ہے۔ ایک قلیل البضاعت مسلمان جو سینے میں ایک درد بھرا اسلامی دل رکھتا ہو، میری رائے میں قوم کیلئے اس بیش قرار تنخواہ پانے والے آزاد گریجویٹ کے مقابلے میں زیادہ سرمایہ نازش ہے جس کی نظروں میں اسلام اصول زندگی نہیں بلکہ محض ایک آلہ جلب منفعت ہے‘‘۔
اسلام ترقی و ارتقاء کا کبھی بھی مخالف نہیں رہا۔ اس کے برعکس یہ افراد کی ذہنی و تعلیمی سرگرمیوں کو بنظر استحسان دیکھتا ہے۔ دنیا کے کسی مذہب نے تعقل و تفکر و تدبر پر اتنا زور نہیں دیا جتنا کہ اسلام نے دیا ہے، چنانچہ یہ خواہش کسی طرح بھی ناجائز نہیں ہے کہ ہم بھی مغربی ممالک کی طرح سائنسی علوم و فنون میں ترقی کریں اور معاشی وسائل سے کما حقہ مستفید ہوں لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہاں ایک احتیاط لازماً کرنی پڑے گی اور وہ یہ کہ ہم جو کچھ بھی دیکھیں اپنی نظر سے دیکھیں، مغرب کی ملحدانہ نظر سے نہ دیکھیں۔ اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور مغرب کے مادی تجربات کے مقابلے میں اسلام کی روحانی تہذیب کا فروغ چاہتے ہیں تو ہمیں یہ احتیاط لازماً ملحوظ رکھنی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا نظریۂ حیات مغربی تہذیب کے نظریہ حیات سے نہ صرف یہ کہ قطعاً مختلف ہے بلکہ اس کے عین برعکس ہے۔ اس صورت میں ہم یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ مغربی تعلیم جو بالکلیہ یورپی ثقافتی تجربات اور اقدار پر مبنی ہے، مسلمان نوجوانوں میں غیر اسلامی رجحانات پیدا نہ کرے گی۔ مغربی تعلیم لازمی طور پر مسلمان اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہوگی۔ مغربی طرز پر تعلیم پانے والے کے دینی اعتقادات بری طرح متزلزل ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام بطور ایک عملی مذہب کے صرف ان پڑھوں کو اپیل کرتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب کی ذہنی فضا لادینی رجحانات سے پُر ہے ؂
زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست ۔۔۔ تجلی دگرے در خور تقاضا نیست
آفتاب ہستی یکے در خود نگر ۔۔۔ از نجوم دیگراں تا بے خبر
اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اقبال سائنٹفک تعلیم کے خلاف تھے اور وہ تمام موجودہ علمی اور فلسفیانہ کوششوں پر خط نسخ بھر دینا چاہتے تھے۔ نہیں بلکہ وہ تو ان تمام چیزوں کی تعلیم کو ضروری قرار دیتے تھے۔ اس سے کہیں زیادہ ضروری جتنا کہ لوگ ضروری سمجھتے ہیں لیکن وہ چاہتے تھے کہ یہ تعلیم کتاب و سنت کی روشنی میں دی جائے تاکہ ان علوم سے جو فکری و نظری استعداد پیدا ہو وہ کج روی اور گمراہی سے مملو نہ ہو اور ان کے ذریعہ جو علمی قوت حاصل ہو وہ دنیا کے اندر فساد کا سبب نہ بنے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہمارے نوجوان سائنس اور فلسفہ وغیرہ کو مرعوبانہ و مقلدانہ ذہنیت کے ساتھ نہ حاصل کریں بلکہ وہ ان کو ایمانی بصیرت اور مومنانہ فراست کے ساتھ حاصل کریں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پچھلے پچاس برسوں کے اندر دنیا نے ایجادات و تحقیقات میں بڑی ترقیاں کی ہیں لیکن یہ ساری ترقیاں اصلاح و تعمیر کے بجائے فساد و تخریب کی راہ میں صرف ہوئی ہیں اور برابر ہورہی ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تحقیقی و انکشافی سرگرمیوں میں اس روشنی سے بالکل محروم رہا ہے جو انسان کو انسانیت کی راہ دکھاتی ہے۔ اقبال ایک ایسا نظام تعلیم قائم کرنا چاہتے تھے جو ایک طرف تو انسان کی قوت ایجاد و انکشاف کو اور اس کی صلاحیت و فکر و نظر کو زیادہ سے زیادہ ابھار سکے اور دوسری طرف وہ ایسی بصیرت بھی عطا کرے کہ انسان اپنی ایجادات اور انکشافات سے انسانیت کی بہبودی کا کام لے سکے ؂
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن ۔۔۔ قدم اٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں
کھلے ہیں سب کے لئے غریبوں کے میخانے ۔۔۔ علوم تازہ کی سر مستیاں گناہ نہیں
اقبال فرنگی مدنیت کے فتوحات کو جو نا خدا شناس تہذیب کی آئینہ دار ہیں لینن کی زبانی یون پیش کرتے ہیں:
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے ۔۔۔ حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں ۔۔۔ گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کے عمارات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر یہ حکومت ۔۔۔ پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مئے خواری و افلاس ۔۔۔ کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہے محروم ۔۔۔ حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
اقبال مدارس کے ماحول کو خوف و ہراس سے مامون، تعصب اور ہر طرح کی تنگ نظری سے پاک عالم گیر اخوت، محبت کی بنیادوں پر استوار اور علم و فکر سے زیادہ جذب و شوق اور تخمین و ظن سے زیادہ عشق و یقین کے جذبہ سے معمور دیکھنے کے متمنی تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ تعلیمی درسگاہیں آدمی کو انسان بنائیں۔ دماغ کے ساتھ روح کی غذا کا سامان بھی فراہم کریں۔ دنیا داری کے ساتھ ساتھ دین داری بھی سکھائیں۔ علم و فکر کی روشنی میں ساتھ ساتھ قلب و نظر کی روشنی فراہم کریں۔ ظاہر کے ساتھ باطن پر بھی نظر رکھیں اور زندگی کے مختلف مرحلوں میں مادی وسائل کے ساتھ ساتھ باطنی شعور اور خود آگہی کی قوتوں سے بھی کام لیں۔ اقبال کے نزدیک یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں دینی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ مغرب کی خرابی یہ ہے کہ اس نے اپنے نظام تعلیم سے دین اور اعلیٰ اخلاقی تعلیم کو یکسر خارج کر دیا ہے۔ اس نے دین کیلئے تو نئے نئے راستے کھولے، لیکن کشادگیِ دل کی راہیں بند کر دی ہیں۔ اس کے برعکس مشرق کے قدیم نظام تعلیم میں غلط قسم کی باطنیت اور خود کو فنا کر دینے والی روحانیت پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کی نظر سے خارجی حقائق پوشیدہ ہوگئے ہیں۔ نئے نظام تعلیم میں ذہن و قلب، خیر و نظر، عشق اور جسم و جان کا عدم توازن اقبال کو کھٹکتا ہے۔ وہ ان میں توازن و توافق کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مغرب عقل کے ساتھ عشق کو بھی اپنا رہنما بنائے اور مشرق روحانی قدروں کی محافظت کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون سے بھی پوری طرح مسلح ہو۔ گویا اقبال ایک ایسا نظام تعلیم چاہتے ہیں جس میں مشرق و مغرب کی ساری خوبیاں مجتمع ہوں اور وہ ان نقائص سے یکسر پاک ہو جو نقائص مشرق یا مغرب کے نظام تعلیم میں پائے جاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت وہی مطلوب ہے جس سے ایک فرد دل و دماغ کی جملہ قوتوں کے ساتھ متوازن و مکمل شخصیت کا حامل بن سکے۔
تعلیم کے سلسلے میں اقبال کی آراء میں کسی تنگ نظری کی ہر گز نشان دہی نہیں کی جاسکتی۔ ان کو اعتراف تھا کہ مغرب کا نظام تعلیم مشرق کے مقابلے میں بہر حال فکر انگیز اور زندگی افروز ہے۔ ہر چند کہ اس میں مادی ترقیوں کو بنیادی اہمیت دے دی گئی ہے۔ اس بڑی خرابی کے باوجود اس کی کامرانیاں قابل رشک ہیں۔ اس نے زمین کے چپہ چپہ کو فردوس بنا دیا ہے اور مشرق ابھی تک خیال جنت کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ؂
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا ۔۔۔ افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند
غالباً تعلیم کے سلسلے میں اقبال کا یہی احساس تھا جس کے سبب جب1907ء میں علی گڈھ کے طلباء میں یورپین اساتذہ کے خلاف ایک جوش ابھرا تھااور وہ چاہتے تھے کہ یورپین اساتذہ کی جگہ اپنے یہاں کے اساتذہ کا تقرر کیا جائے تو اقبال نے کیمبریج سے اس تحریک کے خلاف یہ شعر لکھ کر بھیجا ؂
بادہ ہے نیم رس ابھی شوق بنے نا رسا ابھی ۔۔۔ رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسا ابھی
ایک اور جگہ اقبال نے اہل فرنگ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مغرب کی قوت کا راز چنگ و رباب، رقص و سرود، عریانی و بے حیائی، موتراشی و لالہ روئی یا لادینی و خط لاطینی میں نہیں بلکہ علم و فن کی ترقی میں ہے ؂
قوت مغرب نہ از چنگ و رباب ۔۔۔ نے زِ رقصِ دخترانِ بے حجاب
نے زِ سحرِ ساحرانِ لالۂ وست ۔۔۔ نے زِ عریاں ساخت نے از قطع مو
محکمی اورانہ از لادینی است ۔۔۔ نے فروغش از خط لاطینی است
قوتِ افرنگ از علم و فن است ۔۔۔ از ہمیں آتش چراغش روشن است
لیکن مغرب کے علوم و فنون کو اہمیت دینے کے باوجود اقبال اہل مشرق خصوصاً ملت اسلامیہ کے ذمہ داروں سے چاہتے تھے کہ وہ اپنے نظام تعلیم اور طریقۂ تدریس میں مغرب کی تقلید و پیروی کے بجائے تجدید و اجتہاد سے کام لیں، خود کو علاقانہ ذہنیت سے آزاد کریں اور ملی حریت پسندی کے شایانِ شان اپنی درس گاہوں کیلئے نصاب تعلیم مرتب کریںَ اس نصاب کے رہنما اصول قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں؛ چنانچہ نیاز احمد خاں کو 1931ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’مذہبی مسائل بالخصوص اسلامی مذہبی مسائل کے فہم کیلئے ایک خاص تربیت کی ضرورت ہے، افسوس کہ مسلمانوں کی نئی پود اس سے بالکل کوری ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تعلیم کا تمام تر غیر دینی ہوجانا اس مصیبت کا باعث ہوا ہے‘‘۔
اقبال یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں علوم جدیدہ کے ساتھ اسلامی تاریخ کو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ تاریخ کے مطالعہ کی اہمیت اور نصاب میں اس کی شمولیت کے مسئلے پر انھوں نے کئی جگہ اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس ضمن میں لاہور کے ایک تاریخی جلسہ منعقدہ 1932ء کی اپنی صدارتی تقریر میں اقبال نے تاریخ اسلام کی افادیت پر بحث کرتے ہوئے اسے نصاب میں شامل کرنے کی پُر زور حمایت کی۔ اس سے پہلے نومبر 1929ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے طلباء کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ :
’’ایک دوسری بات جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں ، وہ ہمارا انکشاف ماضی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو صرف اپنے ماضی سے محبت کرتے ہیں۔ میں تو مستقبل کا معتقد ہوں مگر ماضی کی ضرورت مجھے اس لئے ہے کہ میں حال کو سمجھوں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سرچشمۂ تہذیب و شائستگی کو سمجھا جاجے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آج دنیائے اسلام میں کیا ہورہا ہے۔ چونکہ ہم جدید تہذیب و شائستگی کے اصولوں سے ناواقف ہیں اس لئے ہم علوم جدیدہ کو حاصل کرنے میں دیگر اقوام سے پیچھے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظر ڈالیں جن کے ذریعہ سے ہم ماضی و مستقبل سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ علوم جدیدہ پر اصول استقرائی عائد کیا گیا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو قرآن شریف نے دنیا کو عطا فرمائی ہے‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔