مسلم بادشاہوں کی رگ جاں بھی پنجہ یہود میں؟

جی ہاں، عالم اسلام کے دگرگوں حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف فرنگ کی نہیں بلکہ مسلم بادشاہوں اور آمروں کی رگ جاں بھی پنجہ یہود میں ہے۔ دنیائے اسلام کا جائزہ فلسطین سے شروع کرتے ہیں، جہاں قابض و غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے نام نہاد پارلیمانی الیکشن میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی نسل پرست دہشت گرد جیت گئے۔ 17 مارچ 2015ء کو منعقد ہونے والے الیکشن کے نتائج کے بارے میں صحافی و تجزیہ نگاروں نے ایسا تاثر دیا کہ اپ سیٹ ہوا، لیکن درحقیقت یہ سبھی کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہی ہوا، کیونکہ جعلسازی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ نسل پرست نظریہ صہیونیت کے پلیٹ فارم کو محض 25 نشستیں مل سکیں گی، لیکن تنہا نیتن یاہو کے بلاک یعنی لیکوڈ اتحاد کو 30 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگئی اور اسحاق ہرزوگ کی صہونی یونین کو 24۔ اور اس کی بنیادی وجہ اس جیت کے پیچھے نسل پرست یہودیوں کی عرب و اسلام دشمن سوچ کار فرما تھی، کیونکہ ہرزوگ بھی خود کو نیتن یاہو کا مخالف ظاہر کر رہا ہے۔

جعلی ریاست اسرائیل کی 66 سالہ تاریخ میں مختلف نوعیت کے 33 الیکشن ہوچکے ہیں یعنی ہر دو سال بعد نسل پرست انتہا پسند مصنوعی بحران پیدا کر دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو کی حکومت نے الیکشن کے اعلان سے قبل ہی فلسطین پر غیر قانونی اور نسل پرستانہ تسلط کو سرکاری طور پر یہودی ریاست قرار دینے کا بل منظور کر لیا تھا، لیکن اب اسے کنیسیت سے پاس کروانا ضروری ہے۔ صہیونیت خود کو سیکولر کہتی ہے اور اس کے سرپرست مغربی ممالک اسے جمہوریت قرار دیتے ہیں، لیکن یہ دنیا میں واحد ناجائز وجود ہے جس کی بنیاد ہی نسل پرستی اور دہشت گردی پر قائم کی گئی۔ جمہوریت ہوتی تو فلسطین ایک ہی ملک ہوتا اور عرب اکثریت یہاں حکمرانی کرتی اور یہودی فلسطینیوں کو بھی شہری حقوق حاصل ہوتے۔ لیکن یہاں دنیا بھر کے یہودیوں کو غیر قانونی طور پر لاکر آباد کیا گیا اور اس آبادی کے لئے عرب فلسطینیوں کو برباد کر دیا گیا۔

جعلی الیکشن کے بعد کا منظر نامہ یہ ہے کہ جعلی و منحوس ریاست اسرائیل یہودیوں کی نسل پرست ریاست ہوگی اور ایسا سرکاری طور پر ہوگا اور امریکا و دیگر اتحادیوں کے ذریعے نسل پرست صہیونی دہشت گرد حکومت اسے دنیا بھر سے تسلیم بھی کروالے گی۔ فلسطین ویسے بھی عملی طور پر ایک ریاست کی حیثیت نہیں رکھتا، کیونکہ دنیا کے اندھے حکمران اور ان کا اپاہج ادارہ اقوام متحدہ بھی اسے رکن ریاست تسلیم نہیں کرتا۔ محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ تو رملہ میں بھی محصور ہے اور اسے بیت المقدس تک پہنچنے کے لئے صہیونی قابضین کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی فلسطینی انتظامیہ سے یہ امید باندھ لینا کہ یہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی، انتہائی درجے کی خود فریبی کے مترادف ہے۔ پہلے ہی نشان دہی کی جاچکی تھی کہ امریکا و اسرائیل کے حکمرانوں کے اختلافات دراصل ایک طویل دورانیہ کے ڈرامے کی تازہ ترین قسط تھی، جو ماضی قریب میں دیکھی گئی۔ امریکا کے قانون ساز حکمران ادارے کانگریس کی بھاری اکثریت نے نیتن یاہو کا خطاب سنا اور اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا۔ یعنی امریکا سے تو یہ امید رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام میں کوئی مدد کرے گا۔

رہ گیا یہ کہ بین الاقوامی عدالت برائے جرائم میں اسرائیل پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جائیں گے تو اپریل میں فلسطینی انتظامیہ کو وہاں مقدمات دائر کرنے کی درخواست جمع کرانے کا حق حاصل ہوچکا ہے لیکن تاحال اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ جب اقوام متحدہ کا سب سے طاقتور ادارہ سکیورٹی کاؤنسل ہی فلسطین پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کوئی حکم نہیں سنا سکا اور اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں ایک لفظ بھی زیر بحث لانے سے اجتناب کرتا رہا تو عالمی عدالت برائے جرائم بھی اپنے فیصلے پر عمل کیسے کرواسکے گی۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ عدالت یعنی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حکام فلسطین کی درخواست برائے جنگی جرائم کا مقدمہ اسرائیل کے خلاف درج بھی کرتے ہیں یا نہیں، سماعتیں کب تک جاری رہیں گی، اس پر کیا فیصلہ آئے گا، یہ سب بہت بعد کی باتیں ہیں۔

الیکشن کے نتائج کے مطابق انتہاپسند لیبرمین کی جماعت نے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ مجموعی طور پر دائیں بازو کی جماعتوں کی کل نشستیں 14 ہیں۔ اصل میں 30 لیکوڈ اور 24 دیگر مل کر دائیں بازو کی جماعتوں کی ممکنہ مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ 54 اراکین ہیں لیکن 120 اراکین کی کنیسیت میں کل تعداد 120 ہے، اس لئے مزید 7 اراکین بھی چاہئیں ہوں گے۔ سینٹر لیفٹ کی سیاست کرنے والی جماعتوں کے پاس کل ملا کر 39 نشستیں ہیں۔ ابھی تک اسحاق ہرزوگ کی زایونسٹ یونین نے نیتن یاہو کے ساتھ مخلوط حکومت پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے جبکہ اس کے پاس دیگر 15 ملاکر 39 اراکین بنتے ہیں جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا۔ جعلی ریاست کو تسلیم کرنے والی 20 فیصد مقبوضہ عرب آبادی کی جماعتوں نے 14 نشستیں حاصل کی ہیں۔ فی الوقت زایونسٹ یونین کی پوزیشن ترپ کے پتے کی سی ہوگئی ہے لیکن حکومت کسی کی بھی ہو یہ جعلی ریاست نسل پرست ہی رہے گی)۔

16 مارچ کو نیویارک ٹائمز میں شائع بیان میں نیتن یاہو نے کامیابی کی صورت میں فلسطینی ریاست تسلیم نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ حالانکہ مجوزہ فلسطینی ریاست کی مجوزہ حدود بھی صہیونی حکومت کی مرضی کے مطابق ہی ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت بھی جو فلسطینی ریاست قائم ہونی ہے، اس کی حدود اصل فلسطینی ریاست سے ویسے ہی بہت کم ہے یعنی 1948ء میں جو فلسطین تھا اس کا محض 22فیصد۔ اور اس وقت فلسطینی انتظامیہ کے پاس صرف مغربی کنارے کا 39 فیصد علاقہ ہے۔ اس کے باوجود نیتن یاہو نے محمود عباس والی فلسطینی ریاست تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا اور الیکشن میں جیتنے کے بعد پھر ایک مکارانہ بیان دیا کہ مشروط طور پر تسلیم کرسکتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ محمود عباس نے ان نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینیوں کے لئے امن عمل کے راستے بند ہوگئے ہیں۔ یہ تبصرہ یمن پر سعودی و اتحادی عرب بادشاہوں اور آمروں کی جارحیت کے بعد کیا گیا۔ تازہ ترین موقف 26 اپریل 2015ء بروز اتوار سامنے آیا، جب فلسطینی انتظامیہ کے مذاکرات کار صائب عریقات نے بھی عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے گفتگو میں آئندہ چند دنوں میں تشکیل پانے والی صہیونی حکومت کے ذریعے امن کے قیام کو ناممکن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی صہیونی حکومت پچھلی تمام حکومتوں سے زیادہ انتہا پسند ہوگی۔ صہیونی نسل پرست بظاہر کتنے ہی دور کیوں نہ نظر آئیں، وہ سب ایک دوسرے کے بہت ہی نزدیک ہی ہوتے ہیں۔ فلسطینی عرب ہوں یا پورا عالم عرب و عالم اسلام، اس کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کی اکثریت قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہوتے ہیں۔ عالم اسلام و عرب کی وہ حکومتیں جو امریکی بلاک کی اتحادی ہیں، وہ اگر واقعی فلسطین کی مظلومیت اور حق تلفی کے غم میں برابر کے شریک ہوتے تو اسرائیل کا وجود ہی صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتا۔

صہیونی الیکشن کے بعد کا منظر نامہ بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ عالم اسلام اور عرب دنیا کا منظر نامہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین دفن کر دیا گیا ہے اور اسرائیل کے اتحادی امریکا کے اشارے پر امریکی اتحادی عرب بادشاہ، شیوخ اور آمر حکمرانوں نے یمن کے مظلوم عوام پر بمباری شروع کر دی۔ پچھلے دنوں جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بمباری جاری ہے۔ ہم سمیت بہت سے مسلمانوں کو حسن ظن تھا کہ افغانستان میں مسلمانوں کی قومی مزاحمت کی کامیابی کے بعد جہاد کا دائرہ فلسطین و کشمیر کی آزادی تک وسعت اختیار کر جائے گا، اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں کا جو ماڈل لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کو حماس و حزب جہاد اسلامی کی صورت میں سامنے آیا ہے، اس کی پیروی کی جائے گی اور یہ سبھی ایک امت کے طور پر عالم اسلام کو اغیار کی غلامی سے نجات دلانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ لیکن جہاد افغانستان کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔

افغان قیادت کے کنٹرول میں کچھ نہیں تھا بلکہ امریکی قیادت میں متحد مغرب اور اس کے اتحادی سعودی عرب افغان مزاحمتی گروہوں کی جوڑ توڑ کرکے اس میں اپنے لئے کئی گروہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس اتحاد نے افغانستان کو طالبان کے اختیار میں دے دیا اور یہیں پر القاعدہ کی قیادت آباد کروا دی گئی۔ نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کو جواز بناکر امریکی اتحاد نے افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا اور بعد ازاں عراق کے ساتھ بھی یہی کیا۔ افغانستان سے مسلح گروہ نکلے تو سہی لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ انہی کے ایجنڈا کے دوسرے حصے پر عمل کرنے کے لئے۔

نائن الیون کے بعد مسئلہ فلسطین کو بڑی خاموشی سے دفنا دیا گیا۔ عراق اور افغانستان میں خانہ جنگی کو پروان چڑھایا گیا۔ پھر عراق میں جمع ہونے والے طالبان و القاعدہ نے شام کا رخ کیا۔ وہاں ان پر ماڈریٹ یا معتدل کا لیبل لگا کر انہیں نئی تربیت دی گئی اور اب شام ایک ’’مسئلہ‘‘ بن چکا ہے۔ بر اعظم افریقہ کے ملک لیبیا پر امریکی اتحادی نیٹو فورسز حملہ آور ہوئیں، قتل عام ہوا، قذافی خاندان کا صفایا تو ہوگیا لیکن لیبیا آج بھی خانہ جنگی میں مبتلا ہے اور ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ تکفیری دہشت گردی کا جو مائنڈ سیٹ افغانستان میں امریکی سعودی اتحاد نے پیدا کیا، اس کا تسلسل نائیجیریا تک دیکھا جا رہا ہے۔ اب پوری دنیا میں اسلام و مسلمین ایک ’’مسئلہ‘‘ بن چکے ہیں اور سبھی خائن بادشاہوں اور آمروں کی حکومتوں کے بارے میں یہ شعر گنگنانے پر مجبور ہیں:
یہ کہہ کے مر گئی بلبل قفس میں
نہ ہو بندہ کسی بندے کے بس میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔