اولاد آدم

 ویسے تو عوام ہر روز ہی اخبارات میں پریشان کن خوف ودہشت میں مبتلا کرنے والی خبریں پڑھتے ہیں لیکن بعض دن اس قسم کی خبریں ایسی خوفناک سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ خوفزدہ انسان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر ان خوفناک خبروں کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور ان عوامل کا خاتمہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟

اخبار میرے سامنے رکھا ہے جس کی پانچ کالمی سرخی ’’آپریشن ضرب عضب فضائی کارروائیوں میں غیر ملکیوں سمیت 35دہشت گرد ہلاک‘‘ہے۔

ایک اور خبر کچھ یوں ہے ’’افغان سیکیورٹی فورسز کا قندوز میں آپریشن 60 طالبان اور 5 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق۔‘‘ اسی اخبار کی تیسری تین کالمی خبر کی سرخی ’’مصری انقلاب کی چوتھی سالگرہ جھڑپوں میں 12 افراد ہلاک، سیکڑوں زخمی۔‘‘ اسی اخبار کی چوتھی تین کالمی خبر کی سرخی ’’یوکرین میں روس نواز  باغیوں کا بندرگاہ پر حملہ 100 سے زائد افراد ہلاک‘‘ ہے۔ پانچویں دو کالمی خبر کی سرخی ہے ’’تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے نوجوان لڑکی سمیت 3 بچے جاں بحق۔‘‘

پہلی اور دوسری خبر میں ضرب عضب اور افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بتائی گئی ہے۔ تیسری خبر میں مصری انقلاب کی چوتھی سالگرہ پر ہونے والی جھڑپوں کا ذکر ہے جس میں 12 افراد ہلاک ہوگئے، یوکرین میں جو جنگ ہو رہی ہے وہ اپنی اصل میں امریکا اور روس کی جنگ ہے، جو یوکرین پر قبضے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

اس لڑائی کو ہم پراکسی وار بھی کہہ سکتے ہیں ان خبروں کے علاوہ جو دوکالمی خبر ہے وہ تھر میں بھوک سے مرنے والوں سے متعلق ہے، تھر میں اب تک بھوک سے ہزاروں اموات ہوچکی ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی تھر کی ہلاکتوں کے خلاف واویلا کر رہے ہیں لیکن صوبہ سندھ کا حکمران طبقہ کہہ رہا ہے کہ یہ ہلاکتیں بھوک سے نہیں بیماریوں سے ہو رہی ہیں اور یہ عموماً ہوتا رہتا ہے چونکہ میڈیا ان خبروں کی کوریج کر رہا ہے اس لیے تھر میں ہونے والی روٹین کی اموات ایک افسانہ بن گئی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال یہاں لوگ مرتے ہیں تو ان کا ازالہ کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔اگر یہ اموات بھوک سے نہیں بیماری سے ہو رہی ہیں تو علاقے کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔ کیا بیماریوں سے لوگ خاص طور پر معصوم بچے سیکڑوں کی تعداد میں مر رہے ہیں تو اس کی ذمے داری حکومت پر عائد نہیں ہوتی ہے؟

دہشت گردی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے میں دہشت گردی کے خلاف فوج نے ’’ضرب عضب‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کیا ہے اور افغانستان میں بھی مختلف ناموں سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری ہے اور ان آپریشنوں میں دہشت گرد مارے جا رہے ہیں، حکومت کی طرف سے کیے جانے والے آپریشنوں میں جو دہشت گرد ہلاک ہو رہے ہیں، وہ بھی انسان ہی ہیں لیکن چونکہ ان انسانوں نے صرف میں اب تک پچاس ہزار سے زیادہ بے گناہوں کو قتل کردیا ہے۔ اس لیے ان قاتلوں کی موت پرکسی کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سخت ترین آپریشن کرنے کے مطالبے ہو رہے ہیں۔

یوکرین میں ہونے والی جنگ ہو یا مصر میں ہونے والی خونریزی ہو یا شمالی وزیرستان اور افغانستان میں ہونے والی قتل و غارت گری ہو، ان تمام جگہوں پر مرنے والے بھی انسان ہیں اور مارنے والے بھی انسان ہیں اور اس حوالے سے ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر جگہ پر کسی بھی حوالے سے مارے جانے والوں کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہے۔

کیا دنیا ایسے دانشوروں ، مفکروں، فلسفیوں ، ادیبوں ،شاعروں اور فنکاروں سے خالی ہوگئی ہے جو ان تمام مرنے اور مارنے والوں کو انسان اور غریب طبقے کے لوگ سمجھ کر ان کو مرنے مارنے سے روکنے کی کوئی سبیل کریں؟ مجھ سمیت بے شمار قلمکار سیاست دان دانشور مفکرین دہشت گردوں کو ختم کرنے کے مطالبے کررہے ہیں اور بادی النظر میں یہ مطالبے درست اور منطقی بھی نظر آتے ہیں لیکن اس مارا ماری کی وجہ جاننے اور ان وجوہات کو ختم کرنے کی کوئی حلقہ کوئی جماعت کوشش کر رہی ہے؟ اس کا جواب بلاشبہ نفی میں آتا ہے اور اس جواب کو غلط بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بعض ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ایک جدامجد کی اس اولاد کو لڑنے سے روکا جانا چاہیے۔

میں نے کالم کے آغاز میں جن مختلف النوع خبروں کے سرخیاں پیش کی ہیں اگرچہ ان کی نوعیت الگ الگ ہے لیکن ان المیوں میں جان سے جانے والے اور جان لینے والوں کا تعلق بہرحال غریب طبقات ہی سے ہے اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جسے نظراندازکیا جاتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب ہو، افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ہو یا مصر میں ہونے والی دہشت گردی۔

اس دہشت گردی کو طاقت کے ذریعے روکنے کی کوششوں کو نہ غلط کہا جاسکتا ہے نہ غیر منطقی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی طاقت کے ذریعے اس دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے؟یہ ممکن نہیں کیونکہ اگر جنگیں محض سیاسی یا اقتصادی مفادات کے لیے لڑی جا رہی ہوں تو سیاسی اور اقتصادی مفادات پورے ہونے کے بعد یہ جنگیں ختم ہوجاتی ہیں جس کی ایک زندہ مثال پہلی اور دوسری عالمی جنگ ہے۔

لیکن جو جنگ صلیبی جنگ کے نام سے سیکڑوں سال پہلے لڑی گئی تھی اس کا تسلسل ذرا مختلف شکل میں 1947 کے خوفناک فسادات کشمیر میں ہونے والی خونریزی اور فلسطین کے ہولناک خون خرابے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ 9/11کے بعد امریکا نے 11سال تک دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی اور اس جنگ پر کھربوں ڈالر پھونک دیے۔ کیا وہ جنگ ختم ہوگئی؟ کیا امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس جنگ میں کامیابی حاصل ہوئی؟ نہیں۔

جو جنگیں مذہبی اور نظریاتی حوالوں سے لڑی جاتی ہیں وہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتیں جب تک نظریاتی خلیج کو پاٹ نہیں دیا جاتا اور یہ کام نہ سیاستدان کرسکتے ہیں نہ حکمران۔ یہ کام دنیا کے آفاقی ذہن رکھنے والے مفکرین، دانشور، فلسفی، ادیب،شاعر اور فنکار بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے جب ہم آج کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔

ہوسکتا ہے اس قسم کی کوششیں انفرادی طور پر کی جا رہی ہوں لیکن اس حوالے سے کوئی اجتماعی اور منظم کوشش نظر نہیں آتی۔ مثلاً اس حقیقت کو لے لیں کہ دنیا کے ہر مذہب  کے ماننے والے کسی نہ کسی شکل میں ایک آدم کو مانتے ہیں جو سارے انسانوں کا جدامجد رہا ہے۔ کیا ایک جدامجد کی اولاد خواہ وہ مختلف حوالوں سے کتنے ہی خانوں میں بٹی ہوئی کیوں نہ ہو، کیا وہ آدم کی اولاد نہیں ہے؟

کیا ہزاروں سال سے مختلف النوع جنگوں کا ایندھن بننے والوں کا تعلق ایک ہی غریب طبقے سے نہیں؟ کیا دہشت گردی کی جنگوں میں مرنے اور مارنے والے لوگ غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے؟ یہ وہ اہم بنیادیں ہیں جن پر مفکر، دانشور، فلسفی، ادیب، شاعر اپنی تخلیقات اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرسکتے ہیں۔

بلاشبہ دنیا بھر کے بٹے ہوئے انسانوں میں محبت اور بھائی چارے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن دنیا مختلف النوع تعصبات نفرتوں کے جس لاوے میں بہہ رہی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان انفرادی کوششوں کو اجتماعی اور منظم کوششوں میں بدلا جائے۔ مسجد، مندر، گرجا اور تمام عبادت گاہوں سے نفرتوں کے لاوے پھیلانے کے بجائے محبت اور بھائی چارے کی شبنم برسائی جائے۔ ادب، شاعری اور فن کو انسانوں کے درمیان محبت اور اخوت پھیلانے کا وسیلہ بنایا جائے۔

فضول اور نمائشی کاموں پر صرف ہونے والے کروڑوں ڈالروں، اربوں روپوں کو انسانوں میں محبت بانٹنے کے پروگراموں پر صرف کیا جائے۔ ایسی شاعری ایسے ادب کو بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچایا جائے جو انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارے کی ترغیب فراہم کرتی ہے اور معاشی ناانصافیوں اور حکومتوں کی نااہلیوں کو اجاگر کرتی ہوں۔

 

 

Photo by newsonline

تبصرے بند ہیں۔