ڈاکٹر کفیل ہونا ہی فسطائی طاقتوں کی نظر میں جرم ہے

مشرّف عالم ذوقی

لکھنؤ میں ایک نوجوان ابھیشیک مشرا نے ٹیکسی بک کرائی اور جب معلوم ہوا کہ ڈرائیور مسلمان ہے تو اپنی بکنگ کینسل کرادی۔ ابھیشیک وشو ہندو پریشد کا ممبر ہے۔ ۔ ایسے واقعات اب ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ آپ مسلمان ہیں تو کرایے دار نہیں ہو سکتے۔ بہت سی کولونیوں میں کراےدار  کی حیثیت سے مسلمانوں کا داخلہ تک ممنوع ہے۔ دادری میں فساد ہوا تو مسلمانوں کو دادری چھوڑنے کے لئے کہا گیا۔ یہی بات مظفر نگر  میں ہوئی۔ کاس گنج میں ، مسلمانوں نے جمہوریت کا جشن منانا چاہا تو  بھگوا بریگیڈئر کو مسلمانوں کی حب الوطنی کا جذبہ راس نہیں آیا۔ فساد برپا کیا۔ جمہوریت کے جشن میں شامل ہونے کا انعام یہ ملا کہ مسلمانوں کی گرفتاری ہوئی۔ فساد میں بھگوا بریگیڈئر کا ایک شخص مارا  گیا تواسکے خاندان پر  سرکار یوگی کی طرف سے   دھن راشی برسایی  گیی۔ ۔ ملک کی محبت کا مارا بھگوا بریگیڈیر شمبھو لال تو ہیرو ہی بن گیا۔ وہ ایک مسلمان کو دھوکے سے جنگل میں لے گیا۔ ہلاک کیا۔ لاش کے ٹکرے کیے۔ پھر لاش کو جلا دیا۔ اور اسکا باضابطہ ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر وائرل کیا۔ اب جیل میں ہے اور اسکے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔

ان واقعات کا سچ صرف ایک ہے۔ آپ مسلمان ہیں تو مجرم ہیں۔ آپ مسلمان ہیں تو بھگوا تنظیمیں آپ سے دیش بھکتی کی امید نہیں کر سکتیں۔ آپ مسلمان ہیں تو اپنی حد مقرر کیجئے کیونکہ آپ مودی عھد  میں جی رہے ہیں۔ اس لئے جب آٹھ برس کی بچی آصفہ کے ساتھ مندر میں عصمت دری کا واقعہ پیش آتا ہے تو بار کونسل جلوس نکالتا ہے۔ جس میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بیان جاری ہوتا ہے کہ ملزمین ہندو ہیں تو انکے لئے سب جاییز۔ آصفہ کی عصمت دری اور قتل بھی جایز۔ وہ تو اچھا ہوا کہ جمہوریت کا تحفظ کرنے والے ایسے لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے  ہوئے  ورنہ ان لوگوں نے اپرادھ اور عصمت دری جیسے حادثوں کو بھی ہندو مسلم خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ محمد خالق، پہلو خان جیسے لوگ اس لئے مارے گئے کہ مسلمان تھے۔ گوری لنکیش، گووند، دابھولکر جیسے لوگ اس لئے ہلاک کیے  گئے کہ سیکو لر ذہن کے مالک تھے۔ بھگوا تنظیموں کو جتنی نفرت مسلمانوں سے ہے، اس سے کہیں زیادہ ان سیکو لر دانشوروں سے ہے۔ بی جے پی میں مسلمانوں کے خلاف بولنا حکومت میں اپنے قد کو بڑا کرنا ہے۔

 وزیر ا عظم  بھی بہار اسمبلی انتخاب سے قبل پاکستان میں پٹاخوں کے چھوٹنے کی بات کر چکے تھے۔ ۔ پٹاخے کون چھوڑے گا۔؟ جواب۔ مسلمان۔  پھر ایک بیان میں گاڑی  کے نیچے آ کر مرنے والے کتوں کی مثال بھی دے چکے ہیں۔  ان چار برسوں کے سفر میں سادھویاں کھلے عام مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی باتیں دہرا چکی ہیں۔ مسلمانوں کے لئے اتنی نفرت کہ یہاں تک کہا گیا، قبر سے نکال کر مردہ عورتوں کی عصمت دری کرو۔  اتر پردیش کے حکمران وزیر اعلی بننے سے پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف بولتے اے تھے، اب بھی بولتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو لے کر بھی حکومت نے جھوٹ بولا۔ یہ فرمان بھی آیا کہ ہندو دس دس بچے پیدا کریں ۔

اس ملک میں ہر دن نفرت کی نیی نیی مثالیں سامنے آ رہی ہیں ۔ ۔ باضابطہ ا سکرپٹ لکھی جا رہی ہے۔ اور اسی لئے حکومت مسلمانوں کو کسی بھی فلاح کے کام میں دیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ ڈاکٹر کفیل بھول گئے کہ وہ  پیشے سے ڈاکٹر ضرور ہیں لیکن بھگوا تنظیموں نے اب پیشے کو بھی ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

کچھ تاجروں کی طرف سے یہ بیانات بھی اے تھے کہ ہم مسلمانوں کو سودا نہیں دینگے۔ مسلمانوں کو راشن نہیں دینگے۔ ۔ سودا نہیں دینگے۔ ۔ گھر نہیں دینگے۔ ۔ مسلم ڈرائیور کو برداشت نہیں کرینگے۔ یہ ملک کا نیا نظام ہے جس کو ڈاکٹر کفیل بھول کر گورکھپور اسپتال میں بچوں کی زندگی بچانے کا کام کر رہے تھے۔ کچھ دیر کے لئے میڈیا نے ہیرو کیا بنایا، یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک مسلمان کو زیرو بنانے کے لئے سیاست کے سارے ہتھکنڈے اپنا لئے-الزام لگایا۔ جیل میں بند کیا۔ اور ڈاکٹر کفیل کو مسلمان ہونے کی ایسی سزا دی، جس کا تصور کرتے ہوئے رونگٹے کھرے ہو جاتے ہیں ۔ آٹھ ماہ سے جیل میں بند ڈاکٹر کفیل نے جو لرزہ دینے والا خط لکھا ہے۔ اس میں ہندوستانی مسلمانوں کو تہ تیغ کیے  جانے کی داستان خون کے آنسو رلاتی ہے۔ یہ خط صرف ڈاکٹر کفیل کا نہیں ہے۔ یہ پہلو خان، محمد اخلاق یا پچیس کروڑ کی آبادی میں شامل کسی بھی مسلمان کا  خط ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر کفیل کو سزا دینے والے وہی انتہا پسند ہیں ، جو ہندو راشٹر کے تصور میں کسی بھی مسلمان کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ۔ کچھ دن پہلے بھگوا تنظیم کے سپریمو کا ایک بیان بھی وائرل ہوا  تھا کہ مسلمانوں کی ہلاکت کیوں ضروری ہے ؟ یہی سپریمو جب مسلمانوں کی حمایت میں کویی بیان جاری کرتے ہیں تو خوف کا احساس ہوتا ہے۔ خوف اس لئے کہ اب محبت کا سہارا لے کر مسلمانوں کے پرخچے اڑا ے جاییں گے۔ اس حساب سے غور کریں تو تو نیی فسطائی سوچ میں جو مقام نفرت کو حاصل ہے، وہی محبت کو۔

گورکھپور میڈیکل کالج  میں ٢٠١٧ میں  آکسیجن کی کمی کے باعث بڑی تعداد میں بچوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس موقع پر انسانیت کا ثبوت دینا ڈاکٹر کفیل کو منہگا پڑا-   ڈاکٹر کفیل  سمیت 9افراد کو گرفتار کیا گیا۔ یوگی کے ظلم کا پہاڑ ٹوٹا تو ڈاکٹر کفیل کے لئے جیل کی سلاخوں کے دروازے کھول دیے گئے۔ 8ماہ گزر نے کے باوجود ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ جن لوگوں نے میڈیکل اسپتال میں آکسیجن کی فراہمی معطل کی تھی وہ ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں اور جنہوں نے مشکل وقت میں بچوں کی جان بچانے کی کوشش کی وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ اصل ذمے دار میڈیکل کالج کے بعض اعلیٰ عہدیدار ہیں، جن کو حکومت نے نظر انداز کیا۔ غور طلب یہ کہ کفیل کی جنگ کون لڑ  رہا ہے؟ کفیل کی حمایت میں آواز کون بلند کر رہا ہے۔ کفیل کے لئے جو آوازیں اٹھیں ہیں، وہ سیکو لر آوازیں ہیں۔ یہ سیکو لر، جمہوری قدروں کے محافظ در اصل ہماری وہ طاقت ہیں جو مسلسل ہمارے لئے آواز اٹھا رہے ہیں اور آر ایس ایس کے لئے مشکلیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہم یہ نہ بھولیں کہ ہندو اکثریت آج بھی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ انگریزوں کی طرح مٹھی بھر بھگوا طاقتیں ہمارا شکار کر رہی ہیں اور مسلم مخالفت کو اکثریتی فکر پر حاوی کرنا چاہتی ہیں ۔ ہم جب دین بچاؤ جیسے نعروں  میں الجھتے ہیں تو اکثریت متاثر ہوتی ہے۔ جو بچے گورکھپور میڈیکل کالج میں مارے گئے، وہ ہندو یا مسلمان بعد میں تھے۔ پہلے بچے تھے۔ اور بچوں کو مذھب کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر کفیل کسی ہندو یا مسلمان کو نہیں بچا رہے تھے، بچوں کو بچا رہے تھے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تلواریں سکو لر کردار والوں کی گردن پر بھی لٹکی ہوئی  ہیں۔

چند وحشی بھیڑیوں کی جماعت اس ملک میں اچھا کام کرنے والوں کو مذھب کے خانے میں ڈال رہی ہے اور  ڈاکٹر کفیل کو مسلمان بنا رہی ہے۔ ہمارا اصل چیلینج یہ ہے کہ ہم مضبوط حوصلوں کے ساتھ متحد ہو کر  نفرت اور فرقہ پرستی کو شکست دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔