مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

ہندوستان اپنی گونا گوں حیثیت اور مذہبی تنوع کے لحاظ سے دنیا کا واحد ملک ہے – اس ملک کی  یوں تو ان گنت خصوصیات ہیں لیکن ان میں نمایاں صفت یہ ہیکہ یہاں باہم ادیان کا احترام ، افکار و خیالات کی قدر،  تمام طبقات و اقوام کی رسم ورواج کا تحفظ صدیوں پرانی تہذیب ہے۔  یہی وجہ ہیکہ جب بھی ملک میں فرقہ پرست عناصر ابھرنے کی  سعی کرتے ہیں تو اس کے ازالہ کے لئے ہمیشہ ملک کے انصاف پسند اور انسانیت نواز افراد نے بلا امتیاز مذہب آگے آکر  اس کو روکا ہے- ابھی آصفہ یا اناؤ  کے معاملہ میں ملک کے تمام طبقات نے یکجٹ ہوکر  آواز بلند کی ہے-

 اسی پر بس نہیں  بلکہ ان میں   ملک کے وہ معزز شہری ہیں جو فلم اسٹار سے لیکر کرکٹ کے عظیم تریں پلیرس ہیں- ان کا بر وقت ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ  ملک میں انسانیت اور اس کے قدر دان موجود ہیں -سچائی یہ ہیکہ ملک کی مو جودہ صورت حال تشویشناک حد تک خراب ہے ایک طرف ملک کی ترقی اور اس کے جمہوری نظام کی بقاء کے لئے نت نئے زاوئے پیش کئے جارہے ہیں اور اس کو عملی جامہ پہنانے نے کے لئے جھوٹے راگ الاپے جارہے ہیں مگر زمینی سطح پر حقیقت کچھ اور دکھائی دیرہی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ اس وقت ملک میں رہنے والے تمام طبقات بے چینی محسوس کررہے ہیں ہر آدمی متفکر ہے کہ ملکی انتظام وانصرام کے جو طریقہ ہیں ان کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا ہے اسی طرح  فلاح عامہ کے لئے جو کاوشیں حکومت کی طرف سے ہو نی چاہئے تھیں وہ آخری سانس لے رہی ہیں –

اس کے با وجود کوئ یہ کہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو یقینا وہ حقیقت سے چشم پوشی کررہا ہے- ہندوستانی معاشرہ جن اصولوں کا علمبردار تھا وہ  افکار و نظریات اب روبہ زوال ہیں کیونکہ معاشرہ میں اس وقت سماجی اور فلاحی عمل پر توجہ نہیں دیجارہی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک کی تعمیرو ترقی اور انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے میں  ملک کے تمام باشندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اس کا تقاضا یہ ہیکہ ارباب اقتدار ملک میں تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کریں- سماجی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اگر کسی بھی ملک میں وہاں کی عوام کے ساتھ دوہرا رویہ اپنایا جائے تو ملک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے اور نا انصافی عدم مساوات کے منفی اثرات ملک کی زیب و زینت ،  خوشحالی،  چین و سکون اور عروج و ارتقاء کو تباہ کرڈالتے ہیں-

 آج کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے چہار سو ملک میں معاشرہ کرب درد اور خوف کے سائے تلے زندگی گزاررہا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دلت اور مسلمان ہی نہیں حتی کہ طبقئہ اشراف میں بھی عجیب طرح کی گھٹن محسوس کی جا رہی ہے- ادھر مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھدی ہے تو وہیں  لوگوں کے روزگار کافی حد تک متائثر ہوئے ہیں، جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے فیصلہ سے تاجر وں کا طبقہ ابھی تک سنبھل نہیں پا رہا ہے نیز پیٹرول اور ڈیزل پر آئے دن بڑھتے داموں نے  خوشحال زندگی کو مفلوج کردیا ہے،  دلچسپ بات یہ ہیکہ اب اس مہنگائ کے خلاف کوئ آواز بھی نہیں اٹھتی ہے اگر ترقی  یہی ہے تو اس ترقی کی مخالفت  کر نا ہر شہری کی ذمہ داری ہے ، پچھلے کئی برسوں میں ملک کی ترقی کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ ملک کے مفاد میں قطعی درست نہیں ہے،یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ اس وقت ہندوستانی معاشرہ میں نفرت اور مذہب دشمنی کو پروان چڑھایا جارہا ہے اس کی کئی مثالیں ابھی ہماری نظروں سے گزری ہیں مثلا کچھ جگہوں پر بھارت رتن بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمے کو سنگھی فکر سے وابستہ افراد نے بھگوا رنگ میں آلودہ کردیا نیز ملک کے کئی مقامات پر معمار آئین کے مجسمے کو بھی زمیں بوس کر دیا گیا۔  میں سمھجتا ہوں یہ صرف اس لئے کیا گیا کہ اپنے آپ کو اشراف کہلانے والا طبقہ خوش ہو جائے اور دلتوں کی حیثیت اور انکے تشخص کو آسانی سے نیست ونابود کیا جاسکے   جو یقینا غیر مناسب حرکت تھی اس کی جتنی مذمت کیجائے وہ کم ہے اور تو اور  بر سر اقتدار جماعت کے ایک وزیر نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ ہماری خوش قسمتی ہیکہ ہم آئین میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں ذرا تصور کیجئے کہ جو آئین ہندوستان کی روح ہے اگر اس میں ردوبدل کی جاتی ہے تو اس ملک کے  مقدس جمہوری نظام کا کیا ہو گا؟

بات یہیں پر ختم نہیں ہو تی ہے بلکہ اور آگے تک جاتی ہیکہ آج کل یہ خبریں بھی موصول ہوئیں کہ  مکہ مسجد بم دھماکہ کے ملزم کو بری کر دیا گیا ،مزید قابل افسوس یہ بھی ہیکہ سماجی انصاف ملک سے تقریبا ختم ہو چکا ہے انصاف کی امید موہوم ہوتی نظر آرہی ہے ایسا لگتا ہے کہ جانچ ایجنسیاں حکومت کے دباؤ میں کام کررہی ہیں اسی  کے ساتھ یہ بھی عرض کردوں کہ گجرات ہائی کورٹ نے نرودا پاٹیا قتل عام، جس میں تقریبا 97 مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا تھا اس کی کلیدی مجر کو بری کردیا جبکہ ایس ٹی آئی کی خصوصی عدالت نے 2012 میں اٹھائیس سال کی سزا سنائی تھی اب اسے ہائ کورٹ نے بالکل آزاد کردیا–

 عدالتوں کے جو بھی فیصلے آتے ہیں ملک کی عوام اسے سر تسلیم خم قبول کرتی ہے اور کرنا بھی چاہئے کیونکہ وہ ہماری پناہ گاہ اور انصاف کے مندر ہیں ہر آدمی ان کی صداقت اور سچائی پر نہ صرف اعتماد کرتا ہے بلکہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے،  لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مجرموں کا جرم ثابت ہو چکا ہے ان کی اچانک رہائی عدلیہ اور دیگر جانچ ایجنسیوں کے وقار کو مجروح کرتا ہے- عدالت وہ مقدس ادارہ ہے جو حکومت کی غلط پالیسیوں پر نکیل لگاتا ہے اور اسے گاہ بگاہ اس کی ناروا حرکتوں پر تنبیہ کرتا ہے – گزشتہ سال عدالت عظمی کے منصفوں کا یہ بیان کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے یقینا ان کا یہ اظہار کافی پرانی گھٹن کا سبب ہوگی یہ وہ مسائل ہیں جن پر ملک کی عوام کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ہم ایک جمہوری ملک میں سکونت پذیر ہیں  اس کا مطلب یہ ہیکہ ملک کے جملہ باشندوں کو عدل،  برابری اور ہر ایک قوم و برادر کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے سب کے حقوق کا تحفظ،  عزت وناموس کی ضمانت،  مذہبی مقامات کے تحفظ کی یقین دہانی اور دیگر بنیادی ضروریات سے عوام کو آراستہ کرنا پبلک کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے،  عوام  اور حکومت کے باہم رشتوں کو بھی تقویت ملتی ہے-

نیز حکومتوں کے رویہ پر اٹھنے والے اعتراضات کو بھی رفع کرتا ہے،  نتیجتا ایک صحتمند اور صالح معاشرہ پروان چڑھنے لگتا ہے ایسے پاکیزہ معاشرہ کی ضرورت ہر دور میں محسوس کیجاتی رہی ہے اور آج بھی ہندوستانی عوام کو ایک با کردار معاشرہ کی سخت ضرورت ہے کی ، اگر ملک کے منظر نامے پر نظرڈالیں تو معلوم ہو گا کہ اس وقت ملک کی یکجائیت اور اسکے شرازہ کو منتشر کرنے کے لئے آئے دن اشتعال انگیز بیانات آتے رہتے ہیں جو ملک کی سالمیت اور اس کی عظمت کو مخدوش ومجروح کرنے میں بنیادی کردار اداکررہے ہیں، اس لئے حکومت کوچاہئے کہ وہ مذہبی تشدداور فسادات کی روک تھام کےلئے بھی ایک سخت قانون ایجاد کرے تاکہ کوئی بھی سر پھرا بھولی بھالی عوام کو مذہب کے نام پر مشتعل نہ کرسکے اگر قانون آنے کے بعد اگر کوئی اشتعال کو ہوا دیتا ہے تو اس کو کیفر کردار تک بہت جلد پہنچایا جا سکتا ہے اور ملک میں بھی امن واتحاد اور قومی یکجہتی کی فضا ہموار ہوگی-

 باعث تشویش یہ بھی ہیکہ مرکزی وزیر سنتوش گنگوار نے اناؤ اور کٹھوعہ عصمت دری معاملوں پر یہ کہدیا کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں ریپ کے ایک- دو واقعات ہوجاتے ہیں- یہ کوئی بڑی بات نہیں نیز اس طرح کے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا- اب بھلے ہی محترم وزیر صاحب نے اپنے بیان پر صفائی پیش کردی ہو مگر ان کے اس بیان نے انکی ذہنی فکر اور سوچ کو صاف کر دیا ہے کہ جس واردات کی مخا لفت میں ملک اور بیرون  ملک ایک ساتھ ہے وہاں اس فکر کے حاملین بھی سیاسی طور پر ملک کی خدمت کے دعوے دار ہیں ، البتہ ان واقعات کے بے نقاب کرنے میں میڈیا نے بڑی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی جتنی بھی ستائش کیجائے وہ کم ہے اس نے فاشٹ قوتوں اور شر انگیزوں کی غنڈہ گردی کو انتہائی ذمہداری کے ساتھ اجاگر کیا ہے ذرائع ابلاغ کا یہ مستحسن قدم ہے،  اس کے علاوہ عوام ، سرکاری، غیر سرکاری تنظیموں ،  ملی سیاسی اور سماجی شخصیات نے کافی بیداری کا ثبوت دیا ان تمام حضرات کی جدو جہد  یقینا قابل تعریف  ہے-

 آج ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی کے جہاں بہت سی وجوہات ہیں ان میں بنیادی وجہ یہ ہیکہ مسلمان بیوروکریسی،  عدلیہ اور میڈیا میں ابھی تک اپنا مؤثر وجود نہیں بنا پائے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی نمائندگی ان شعبوں میں کم رہتی ہے تو یقین جانئے مسلمان کی حیثیت دن بدن زوال پذیر ہوتی چلی جائے گی،  کیونکہ جمہوریت میں مذکورہ شعبوں اور محکموں کو اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے اس لئے اپنی مضبوطی برقرار رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو تعلیمی اعتبار سے حد درجہ مستحکم ہونے کی ضرورت  ہے آزادی کے بعد سے آج تک مسلمان مستقل تنزلی کا شکار ہو ا ہے کبھی اسے سیاسی جماعتوں نے ووٹ کے لئے استعمال کیا ہے تو کبھی اس کو مسلکی تنازع میں نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے الجھا کر رکھا ہے- اصل مقصد کی طرف سے توجہ جان بوجھ کر ہٹائی گئی،  اب سوال یہ ہیکہ اس تنزلی سے مسلم قوم کیسے نجات پائے تو اس کےلئے ضروی ہے کہ ایسی مؤثر حکمت عملی اختیار کیجائےجو اس کے لئے معین و مددگار ثابت ہو  اور اسکی واحد صورت یہ ہیکہ مسلمان تعلیمی طور پر اپنے کو مضبوط کریں تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے صدیوں پرانی پسماندگی کو دور کیا جاسکتا ہے آج مسلمانوں کو  سب سب سے زیادہ نقصان اس کی غیر شعوری حرکتوں اور غیر دانشمندانہ اقدام کی وجہ سے ہو رہا ہے،اگر مسلم قوم مسلکی تنازع جیسی بیماری سے نجات پاکر اپنی مرکزئیت اور یکجائیت ک امظاہرہ کرے تو یقین جانئے مسلمانوں کی صورت حال کچھ اور ہوتی-

یہ بات بڑے زور وشور سے کہی جارہی ہیکہ آزادی سے لیکر آج تک مسلمانوں نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں مگر موجودہ صورت حال کچھ مختلف ہے اس وقت ظلم کا شکار صرف مسلم قوم ہی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ دلتوں پر بھی مظالم ڈھائے جارہے ہیں حتی کہ روز یہ خبر سننے یا پڑھنے کو مل جائے گی کہ آج فلاں جگہ دلت کی بچی کی عصمت دری کر لی یا اسے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا، حیرت یہ ہیکہ اب مظلوم کا مذہب اور طبقہ دیکھ کر اس کی حمایت یا عدم حمایت کیجاتی ہے،  مسلمانوں کی صورت حال پر مزید تشویش ہوتی ہے کیونکہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں نے اپنی حیثیت اور تشخص کو قابل اطمینان نہیں بنایا ہے- مسلم قوم اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہے مگر ان کے پاس نہ اپنا میڈیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس سےمسلم قوم کو بآسانی تنزلی،  نکبت اور پستی سے باہر لایا جا سکے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے مسلمان اور ملک کے سیکولر افراد ایک پھر متحد ہوکر متنازع بیانوں اور ان اداروں کی سر گرمیوں کو بے اثر بنائیں جو آئے دن ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔