احترامِ مساجد کے منافی چند قابل اصلاح پہلو

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

جو مقامات اور جگہیں شریعت کی نگاہ میں جس قدر معزز ومحترم، فضائل ومناقب کی حامل، خیر وبرکت کی باعث اور اجر وثواب کی موجب ہوتی ہیں، ان کی بے احترامی وناقدری، بے ادبی وبے توقیری اور ان کے عظمت وتقدس کی پامالی بھی اسی قدر سنگین، قابلِ گرفت اور باعثِ عقاب وسزا ہوتی ہے، مساجد جو در اصل اس روئے زمین پر اللہ عزوجل کے گھر ہوتی ہیں، جنہیں ذاتِ خداوندی سے خصوصی نسبت اور تعلق ہوا کرتا ہے، جہاں ہردم تجلیاتِ ربانی کاورود اورانوار وبرکات کا نزول ہوتا رہتا ہے، جو آسمانو ں کے مکینوں کے لئے اس نقشۂ دنیا پر ایسے ہی تابناک اور روشن ہوتے ہیں جیسے زمین پر رہنے والوں کے لئے ستارے روشن اور چمکدار ہوتے ہیں، ان کی اہمیت وافادیت اور عظمت ورفعت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ جگہیں یہی ہوتی ہیں، اسی وجہ سے ان کے آباد کرنے، ان کی نگہداشت اور دیکھ بھال کرنے یاکسی بھی طرح سے ان سے لگاؤ اور وابستگی رکھنے والوں کے تعلق احادیث وروایات میں مختلف انداز سے خوشخبریاں سنائی گئیں ہیں، چنانچہ ایک روایت میں تعمیر مسجد کو رب ذو الجلال کی رضامندی اورجنت کے اعلی وارفع محلات ودرجات کے حصول کا ذریعہ بتلایا گیا ہے (مشکوۃ :۶۸)

ایک دوسری روایت میں مسجد کے عظمت وتقدس کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے، ’’جو شخص صبح وشام بکثرت مسجد میں آمد روفت رکھتا ہو، اس کی ہر آنے جانے پر اللہ عزوجل اس کے لئے خصوصی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں (مشکوۃ:۶۸)

ایک روایت میں مسجد کے احترام وعظمت کو یوں اجاگر کیا گیا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کی طرف چلے تو اس کے ہر اٹھنے والے قدم پر اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی کا اضافہ ہوتا ہے اور ایک بدی کو مٹادیا جاتا ہے ( مشکوۃ : ۶۸)

ایک روایت میں مسجد کی عظمت شان اور اس کی شرعی حیثیت ووقار کی جانب ان انعاماتِ خداوندی اشارہ کیا گیا ہے، ’’جو شخص مسجد کو اپنا گھر بنالے ( یعنی مسجد میں رہ کر مسجد والے اعمال کو زندہ کرے ) اس کے بارے میں اللہ عزوجل نے یہ ذمہ لیا ہے کہ : میں اس کو راحت دوں گا، اس پر رحمت کروں گا، پل صراط کا راستہ اس کے لئے آسان کروں گا، اپنی رضا اسے نصیب کروں گا اور اسے جنت عطا کروں گا ‘‘(مجمع الزوائد: ۲؍۱۳۴)

ایک موقع آپ ا نے مسجد کے عظمت کے پہلو کا اظہار یوں فرمایا کہ :آپ ا نے بکثرت مسجد آنے والے کو اس کے مومنِ کامل ہونے کی علامت قرار دیا (ترمذی، مشکوۃ : ۶۹)۔

مذکور ہ بالا روایات یا ان جیسی دیگر کتب احادیث میں مذکور روایات میں مساجد سے خصوصی تعلق رکھنے والوں کے بارے میں اس طرح کی جو بشارتیں اور خوش خبریاں سنائی گئی ہیں، ان کی روشنی میں مساجد کے عظمت وتقدس اور ان کی بلندیٔ شان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، دراصل ان روایات کے ذکر سے مساجد کی عظمت وتقدس اور ان کے احترام وعقیدت کو امتِ مسلمہ کے قلوب میں زندہ وتابندہ کرنا مقصود ہے ؛ تاکہ امت ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ لگا کر ان کی بے ادبی وبے احترامی یا کسی بھی ایسے عمل کے ارتکاب سے گریزاں ہوجو ان کے عظمت وتقدس کو پامال کرتا ہو؛ چونکہ کسی بھی چیز کے مثبت اور ایجابی پہلو کے ذکر سے اس کے منفی اور سلبی پہلو کی شناعت وقباحت از خود نمایاں اور اجاگر ہوجاتی ہے، اس لئے یہاں عظمت مساجد پر دلالت کرنے والی چند روایات کا ذکر کیا گیا، ہم درج ذیل سطور میں مسجد کے تقدس کے منفی چند ان اعمال کی طرف نشاندہی کرنا مناسب سمجھتے ہیں جس میں لوگ عموما مبتلا ہیں، ان کی برائی وقباحت قلب ودماغ سے محو ہوچگی ہے، ان کو نہایت معمولی اور حقیر تر سمجھا جاتا ہے ؛ حالانکہ احترام مساجد کے منافی یہ اعمال شرعی نقطۂ نظر سے نہایت ہی خطرناک، سنگین، انجام سوز، عاقبت گداز اور ناقابل عفو ودرگذر ہیں۔

۱۔ مسجد میں لایعنی باتیں کرنا :

 شریعت نے مسجد کا نظام اس لئے رکھا ہے کہ اس میں وہ اعمال انجام دیئے جائیں جو اللہ عزوجل کی عظمت وبڑائی، اس کی بزرگی وبرتری اور اس کی توحید وربوبیت دلالت کرنے والے ہوں، جس کا سب سے بڑا مظہر ’’نماز ‘‘ ہے، جس میں بندہ اپنے علائق ومشغولیات سے علاحدہ ہو کر، پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ اپنے خالق ومالک کے سامنے سرتاپا عجز ونیاز بن کر اس کی کبرائی اور شانِ رفعت کا اظہار اپنی نماز کے ان مجموعی اعمال کے ذریعہ کرتا ہے ؛ لہٰذا کوئی بھی ایسا عمل جو مسجد کے مقصد ونصب العین کے منافی ہو اس کے ارتکاب کی شرعا وہاں کس طرح گنجائش ہوسکتی ہے، لایعنی اور غیر ضروری باتیں بذات خود ممنوع ہیں، پھر خصوصا ان کی مسجد میں مشغولیت نہایت تباہ کن، بھیانک اور غضب خداوندی کو دعوت دینے کے مرادف ہوسکتی ہے۔ لیکن عموما لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ مسجد میں آکر مختلف حلقہ جات کی شکل میں دنیوی باتوں میں مصروف نظر آتے ہیں، جس میں ہر طرح کی رطب ویابس اور خشک وتر گفتگو شامل ہوتی ہے، کسی کی غیبت ہورہی ہے، کسی کی توہین وتذلیل کی جارہی ہے، کسی کا ٹھٹا اور مذاق اڑایا جارہا ہے، کہیں دل لگی اور مزاح وظرافت پر مشتمل جملوں کے تبادلے ہورہے ہیں، کبھی تجارتی اور کاروباری مصروفیات کی گھتیاں سلجھائی جارہی ہیں، ہر قسم کے شور وشرابے اورہنگامے کا بازار گرم ہے، جیسے مسجد نہیں ہوئی ؛ بلکہ کوئی بیٹھک یا تفریح گاہ ہوئی، خصوصا مسلکی جھگڑوں اور مسجد کی صدارت کے تنازعے اور رسہ کشی نے تو مسجد کو پہلوانوں کا دنگل بنادیا ہے، اپنے کو فریق مقابل سے اچھا، سیدھا اور سچا باور کرانے کے لئے مسجد میں ہر طرح کی اوجھی، نامناسب اور غیر شائستہ حرکت بھی گوارہ کر لی جاتی ہے، بسااوقات تو نوبت گالی گلوچ، سب وشتم سے آگے بڑھ کر ہاتھا پائی اور مکے بازی تک پہنچ جاتی ہے، مسجد کی اس بھیانک صورتحال کی جانب آنحضرت ا نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی پیشین گوئی فرمادی تھی :’’ ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ دنیوی باتیں مسجد میں ہونے لگیں گی، ان کے ساتھ نہ بیٹھنا کہ خدا کو ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں (مشکوۃ :۷۱) یعنی ان کے اعمال اللہ بارگاہِ خداوندی میں شرفِ قبولیت سے باریاب نہیں ہوتے ؛ بلکہ خدشہ تو ان کے سارے اعمال اور نیکیوں کے ضیاع کا ہے۔

نبی کریم اکا ارشاد ہے :

مسجد میں باتیں کرنا نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے (جلادیتی ہے ) (الفقہ الحنیفی فی ثوبہ الجدید : ۵؍۴۱۶) مسجد میں بے ہودہ اور لا یعنی گفتگو کی مذمت پر یہ روایت صریح دا ل ہے : جب کوئی شخص مسجد میں باتیں کرنے لگتا ہے تو فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ : اے اللہ کے ولی ! خاموش ہوجا، پھر اگر با ت کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں : اے اللہ کے دشمن! چب ہوجا، پھر اگر بات کرتا ہم تو فرشتے کہتے ہیں : تجھ پر اللہ کی لعنت ہو ! خاموش ہو جا (کتاب المدخل :۲؍۵۵، بحوالہ فتاوی رحیمیہ :۲؍۱۶۱)

مسجد میں شور شرابہ اور کسی بھی قسم کی آواز کے بلند کرنے کی ممانعت پر وہ اثر بھی دلالت کرتی ہے جو سائب بن یزید سے مروی ہے کہ جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کادو طائف کے باشندوں کو مسجد نبوی میں محوِ گفتگو دیکھ کر یہ فرمانا منقول ہے کہ : تم دونوں مدینے کے رہنے والے ہوتے میں تو میں تمہاری اچھی طرح گوش مالی کردیتا (بخاری :مشکوۃ:۷۱)اگر بقدر ضرورت دنیوی امور سے متعلق مباح گفتگو کی جائے، اس کو مستقل مشغلہ اور مقصد نہ بنایا جائے تو پھر اس کی اجازت ہے (رد المحتار مع الدر المختار : ۲؍۴۳۶، زکریا)۔

۲۔ مسجد میں بدبودارچیزیں لے آنا :

 سگریٹ، بیڑی، گٹکھا یا تمباکو پر مشتمل دیگر اشیاء کا استعمال اس وقت عام ہوچکاہے، لوگ تمباکو پر مشتمل ان اشیاء کے استعمال کے بعد بے محابا مسجد میں چلے آتے ہیں ؛ حالانکہ بدبودار چیزیں کھاکر مسجدمیں آنا شرعا منع ہے، جب ایک سلیم الطبع اور صحیح الفطرت انسان ان اشیاء کی بدبو کو برداشت نہیں کرسکتا تو ملائکہ جیسی نورانی نفیس اور پاکیزہ مخلوق جن کی ہر دم مسجد میں آمد روفت رہتی ہے ان اشیاء کی بدبو کو کیسے برداشت کرے گی ؟ کیا ہم ان کو اذیت اور تکلیف پہنچاکر ان کی بددعاؤں کے مستحق نہیں ہوجائیں گے ؟ ایسے ہی مزدور پیشہ اور گاڑیوں کے میکانک حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ لوگ گرد وغبار، پسینے، گریس، آئیل، پٹرول اور ڈیزل میں آلودہ کپڑوں کے ساتھ چلے آتے ہیں، یہ حضرات خود اپنے دل پر ہاتھ کر سوچیں کہ جب وہ لوگ ان کپڑوں کو زیب تن کر کے اپنے اعزاء واقرباء اور دوست واحباب کے پاس جانا گوارا ہ نہیں کرتے تو یہ لوگ اللہ عزوجل کی ذات جو کہ سب سے زیادہ لائق احترام اور باعث صد تکریم ہوتی ہے، ان گندے او ربدبودار ملبوسات کے ساتھ ان کی بارگاہ میں جانا کیسے گوارہ کرلیتے ہیں ؟حالانکہ شریعت نے خصوصا ہر نماز کے وقت زیب وزینت اور آرائش کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: اے ابن آدم ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت کو اختیار کرو (الأعراف : ۳۱)

یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اچھے اور پاکیزہ ملبوسات وپوشاک کی نعمت کے استعمال کا موقع اس کی عبادت سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ اسی کی بخشی ہوئی نعمتوں کا اثر لے کر اس کی بارگاہ میں حاضری دی جائے۔ اسی طرح لہسن جیسی بدبودار اشیاء کے استعمال کے فورا بعد مسجد میں آنے کی ممانعت روایات میں مذکور ہے : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : آپ ا نے فرمایا : جو شخص اس بدبودار درخت کو کھائے، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ؛ چونکہ جو چیزیں انسان کے لئے تکلیف دہ اور اذیت رساں ہوتی ہیں، اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے (مشکوۃ : ۶۹)

ایک دوسری روایت میں آنحضرت اسے ان دونوں درختوں (یعنی پیاز اور لہسن ) کے کھانے کی ممانعت منقول ہے، یہ آپ ا نے ارشاد فرمایا ہے کہ : کوئی ان دونوں درختوں کو کھاکر ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، اگر کھانا ضروری ہو تو ان دونوں کو پکا کر کھائے (رواہ أبوداؤد، مشکوۃ : ۷۱)

 ایک دفعہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم اسے دریافت فرمایا کہ : اے اللہ کے رسول ! کیا لہسن حرام ہے ؟ آپ ا نے فرمایا : نہیں ؛ لیکن میں اسے اس کی بدبو سے ناپسند کرتا ہوں (ترمذی: ۲؍۳)مذکورہ بالاروایات سے یہ پتہ چلا کہ لہسن اور پیاز کا استعمال فی نفسہ مکروہ نہیں ؛ بلکہ ان کی بدبو کی وجہ سے ان کے استعمال کے بعد مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ہے، بیڑی، سگریٹ، گٹکھا اور دیگر تمباکو والی اشیاء کا ان سے زیادہ بدبودار، مضر صحت اور تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے ان کے استعمال کے بعد مسجد میں آنا بدرجۂ اولی مکروہ ہوگا ( حاشیہ ترمذی : ۲؍۳) بلکہ ہر ناپسندیدہ بووالی چیز کھاکر مسجد میں آنے سے منع کیا گیا، اسی حکم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے منہ سے بدبو آتی ہو یا جن کو بدبودار زخم ہو، ایسی ہی قصاب، مچھلی فروخت کرنے والے، جذامی، کوڑھی کے مرض میں مبتلا حضرات کا بھی اپنی اسی حالت میں مسجد میں آنا منع ہے (شامی ۲؍۴۳۵، زکریا )

۳۔ مسجد کو گندگی سے ملوث کرنا :

 جہاں مسجد کی صفائی سـتھرائی، اس کی دیکھ ریکھ اور اس کی ضروریات کی تکمیل ضروری ہے، وہیں اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ اپنے کسی عمل سے مسجد گندگی سے ملوث نہ ہونے پائے، بہت سے لوگ مسجد میں آکر سر یا داڑھی میں کنگھا کرتے ہیں، جس سے مسجد ملوث ہوجاتی ہے، اولا تو مسجد میں کنگھا کرنے احتراز کیا جائے، اگر بغیر کسی عمل کے غیر اختیاری طور پر سر یا داڑھی کے بال گر جائیں تو اسے اٹھا کر اپنے جیب میں رکھے لے، ایسے ہی لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ ناک آلائش اور ریزش وغیرہ کو مسجد میں پھینک دیتے ہیں، یا مسجد کے در ودیوار پر لگادیتے ہیں، یا کوئی رستا ہوا زخم ہوتو اس کے خون اور پیپ سے مسجد کے فرش کو ملوث کردیتے ہیں، ریاح کا تقاضا ہوتو اس کے مسجد میں اخراج سے بھی گریزنہیں کرتے، مسجد میں اس طرح کی گندگی مچانے سے بچائے، ورنہ مختلف بیماریوں اور مصائب کی شکل میں اللہ عزوجل کی گرفت اور مواخذہ کے ہم مستحق بن سکتے ہیں، مسجد کو اس طرح گندا اور ملوث کرنے کی ممانعت پر وہ روایت صراحتا دلالت کرتی ہے جس میں آپ ا نے اس دیہاتی سے جس نے انجانے میں مسجد میں پیشاب کردیا تھاتو آپ ا نے اس سے یوں فرمایا تھا، یہ مساجد اس طرح پیشاب کرنے یا کسی بھی قسم کی گندگی مچانے کے ہرگز لائق نہیں ہیں، ان مساجد کا موضوع تو ذکرِ الٰہی، یادِ خداوندی، نماز اور تلاوتِ قرآن ہے، پھر آپ نے ایک شخص کو اس پر پانی بہانے کا حکم فرمایا(رواہ مسلم :حیاۃ الصحابہ : ۳؍۱۵۳)

مسجد میں تھوکنے یا اس میں کسی بھی قسم کی گندگی مچانے (جس میں سر یا داڑھی کے بال نوچنا، ناک یا زخم کی آلائش، ریاح کا خروج سب شامل ہیں ) کی ممانعت وقباحت کا اندازہ درج ذیل روایات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ انے فرمایا : میں نے اپنی امت کے برے اعمال میں اس تھوک کو بھی پاپا ہے جو مسجد میں ڈالا گیا ہو پھر اسے دفن نہ کیا گیا ہو (رواہ مسلم، مشکوۃ : ۶۹)ا

ٓپ نے ایک شخص کو محض اس وجہ سے منصبِ امامت سے معزول فرمادیا تھاکہ اس نے دورانِ نماز قبلہ رخ تھوک دیا تھا۔ (رواہ ابوداؤد، مشکوۃ :۷۱)یہ فقہی عبارت بھی اس قسم کے مسجد کے احترام کے منافی اعمال کے ارتکاب کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔ ’’مسجد میں کسی ایسی نجاست کا لے آنا مکروہ ہے جس سے مسجد کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہو، اسی طرح مسجد میں ریاح بھی خارج نہ کرے، اگر ریاح کے اخراج کی ضرورت درپیش ہو تو مسجد سے باہر چلاجائے (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید:۵؍۴۱۹)

۴۔ مسجد کی تزئین اور اس کی تعمیر میں تفاخر کی ممانعت :

 مسجد کی تعمیر اور اس کی تزئین میں بھی حد اعتدال سے تجاوز نہ کیا جائے ؛ بلکہ بقدر ضرورت مسجد پختہ، نفیس اور پر رونق بنالی جائے، اگر عہدِ حاضر کے تعمیری معیار کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے تو کچھ منع نہیں ؛ لیکن غیر معمولی تکلفات، پھول بوٹے، گل کاری، نقش ونگار، قیمتی نہایت ہی مزین قالین اور فانوس وغیرہ کے انتظام سے گریزکیاجائے، بہتر یہ ہے کہ مسجد کے در ودیوار سفید ہوں، نقش ونگار سے پاک ہوں، ان پر کسی قسم کی تحریر نہ ہو، تصویر اور کتابت سے منقش کرنا مکروہ ہے (البحر الرائق :۵؍۲۵۱) چونکہ اس طرح کی محض ظاہری زیب وزینت سے مسجد کی رونق میں اضافہ نہیں ہوتا ؛ بلکہ اس سے مسجد کی بے احترامی ہوتی ہے، مسجد کی اصل زیب وزینت اس کی صفائی وستھرائی، خوشبونیز نمازیوں کی زیادتی، اچھے پوشاک پہن کر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنیاور باادب بیٹھنے میں ہے۔ آج ہماری مساجد کی یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ وہ حسن تعمیر اور ذوق تزئین کے تو اعلیٰ وارفع معیار پرہوں گی ؛ لیکن اس کی اصل زیب وزینت یعنی اس میں مساجد والے اعمال کو زندہ کرنے کی فکر بہت کم ہوگئی، اسی حالت کی جانب حضور اکرم انے اس روایت اشارہ فرمایا تھاکہ : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم عنقریب مساجد کو اونچی بناؤگے جیسا کہ یہود ونصاری اپنے کلیسا، گرجا گھر اور چرچوں کو اونچابناتے ہیں (رواہ ابوداؤد : مشکوۃ : ۶۹)

 مساجد کی زیادہ تزئین کی ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع میں خلل واقع ہوتا ہے، اس کی وجہ سے نمازی کی یکسوئی اور توجہ ہٹ جاتی ہے، اس لئے مسجد کی دیوار خصوصا محراب اورمحراب والی قبلہ کی جانب والی دیوار اور دائیں بائیں جانب کی دیوار پر رنگین بیل بوٹے اور نقش ونگار کرنا جائز نہیں ( شامی زکریا :۳؍۴۳۱)۔

۵۔ مسجد کو بطور راستہ کے استعمال کرنا :

 آج کل عموما مسجد کے دو راستے ہوتے ہیں، بعض حضرات اپنی ضروریات کے لئے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے ہیں یعنی مسجد کو بطور گذرگاہ کے استعمال کرتے ہیں، اس طرح مسجد کا بطور گذرگاہ استعمال شرعا درست نہیں ؛ اس لئے کہ مساجد عبادت گاہ اور جائے نماز ہیں، یہ ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اور نماز کی ادائیگی کے لئے بنائے گئے ہیں، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ : ان مساجد کا موضوع تو اللہ کا ذکر، تلاوت قرآن اور نماز ہیں (ریاض الصالحین : ۵۹۷) لہٰذا اگر مسجد کا بطور راستہ کے استعمال کے لئے فقہاء نے یہ شرط رکھی ہے کہ دن میں ایک دفعہ تحیۃ المسجد ادا کرے، جو شخص بغیر کسی عذر کے مسجد کو بطور گذرگاہ کے استعمال کا معمول بنانے لے تو فقہاء نے ا س کے فاسق ہونے کی صراحت کی ہے (شامی، زکریا : ۲؍۴۲۸) اس لئے مسجد کو بطورِ گذرگاہ کے استعمال سے بچاجائے ؛ تاکہ اللہ عزوجل کی فہرست میں ہمارا شمار کفار وفساق میں نہ ہو۔

۶۔ مسجد کو آرام گاہ بنانا :

 ایسے ہی بہت سے لوگوں کو دیکھاجاتا ہے کہ اپنی کاروباری مصروفیات کی تکان کو دور کرنے کے لئے مسجد میں آکر لیٹ جاتے ہیں ؛ حالانکہ ان کا نہ نماز سے کوئی واسطہ ہوتا ہے اورنہ مسجد کے دیگر اعمال سے کوئی سروکار، جب کہ شرعی نقطۂ نظر سے مسجد میں معتکف، مسافر، یا ایسا مقامی آدمی ہی ہوسکتا ہے جو اعتکاف کی نیت سے نماز کے انتظار میں سورہا ہو، ان لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ آدابِ مساجد کا خصوصی خیال رکھیں، سونے میں ایسی ہیئت اور شکل اختیار نہ کریں جو مسجد کے احترام کے منافی ہو، ورنہ محض اپنی اکتاہٹ اور سستی کے دور کر نے کے لئے مسجد میں آرام کر لینا یہ عمل شرعا درست نہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اس طرح مسجد کو آرام گاہ بنانے کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے، خلید بن اسحاق سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے مسجد میں سونے کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : اگر یہ تیرا سونا نماز یا طواف کے لئے ہوتو کوئی حرج نہیں (حیاۃ الصحابہ : ۳؍۱۶۱)’’ویکرہ نومہ وأکلہ إلا لمعتکف وغریب ‘‘ (شامی زکریا : ۲؍۴۳۵) مسافر اور معتکف کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے مسجد میں کھانا اور سونا مکروہ ہے۔ اگر کوئی سونا ہی چاہتا ہوتو اسے چاہئے کہ وہ لوگ اعتکاف کی نیت کر کے مسجد میں داخل ہوں جس قدر ہوسکے ذکر وشغل میں مصروف ہو یا نماز پڑھے، پھر جو چاہے کرے۔ (شامی :۲؍۳۵)

۷۔ مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کرلینا :

 بعض مساجد میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ مصلی جو نماز کے پابند ہوتے ہیں، مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کر لیتے ہیں، اپنی متعینہ جگہ میں ہی وہ لوگ نماز پڑھتے ہیں، اگر کوئی دوسرا شخص اس جگہ آکر بیٹھ جاتا ہے تو اسے اس جگہ سے اٹھادیتے ہیں ؛ حالانکہ اس طرح سے اپنے لئے جگہ مخصوص کر لینااور دوسرے کو اس جگہ بیٹھنے پر بیٹھنے سے اسے اٹھادینا، اس طرح کا عمل درست نہیں، چونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے، جس میں تمام مسلمانوں کا برابر حق ہے ؛ بلکہ مسجد کے بانی یا متولی کے لئے بھی اجازت نہیں کہ وہ مسجد میں کسی کے آنے سے روک دے ؛ چونکہ اس طرح کا یہ عمل کسی کو مسجد میں آنے سے روک دینے کے مشابہ ہے اور کسی کو مسجد میں آنے سے روک دینے والے کو اللہ عزوجل سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے، ’’اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو مسجد میں ذکر الٰہی سے منع کرے ‘‘(البقرۃ : ۵ے۱۱۴) چنانچہ در مختار میں ہے :’’ اپنے لئے جگہ مخصوص کر لینا مکروہ ہے، پھر اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے شخص کو زبردستی وہاں سے اٹھادے، اگر چہ وہ مدرس ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے کہ مسجد کسی کی ملک نہیں ہوتی ( در مع الشامی : ۵؍۴۳۶) یعنی اگر کوئی شخص کسی خاص جگہ درس دیتا ہو، کسی دن ا س جگہ دوسرا شخص آکر درس دے تو پہلے شخص کے لئے یہ اجازت نہیں کہ وہ اس شخص کو وہاں سے زبردستی اٹھائے، ان فقہی عبارات کی روشنی میں یہ پتہ چلا کہ کسی کا مسجد میں اپنے لئے جگہ مخصوص کرلینا درست نہیں۔

۸۔ مسجد میں بھیک مانگنے اور دینے کی ممانعت :

 بہت سے مرد وخواتین کو دیکھاجاتا ہے کہ مسجد کے اندر آکر نمازیوں سے بھیک مانگتے ہیں ؛حالانکہ مسجد میں آکر بھیک مانگنے کا یہ عمل مسجد کے منشا اور اس کی روح کے بالکل منافی ہوتا ہے ؛ چونکہ مسجد یہ تو اللہ سے براہِ راست مانگنے کی جگہ ہے، اس جگہ آکر بھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا یہ بندگی کے لائق اور شایان شان نہیں ہے، اس لئے شریعت نے مسجد میں آکر اس طرح دست سوال دراز کرنے والوں کو دینے سے منع کیا ہے، ایسے گداگروں اور سائلوں کو دینے سے ان کے اس عمل کی تائید اور تقویت ہوتی ہے، جو ایک امر ممنوع میں تعاون کے مرادف ہے، چنانچہ در مختار میں ہے : ’’مسجد میں سوال کرنا اور دینا مطلقا حرام ہے (در مختار مع الرد : ۲؍۴۳۳)

 ہاں اگر کوئی واقعۃً مجبور ولاچار ہو اس نے گداگری کو اپنا پیشہ نہ بنایا ہو، محض وقتی ضرورت کے تحت مانگ رہا ہو تو ایسے شخص کا مانگنا اور مصلیوں کا اسے دینا ازروئے شرع درست ہے جب کہ مسجد کے حدود سے باہر رہ کر مانگا جائے، ایسے ہی مسجد میں کسی مدرسہ یا دینی کام کے لئے تعاون کی اپیل کی جاسکتی ہے، حضور اکرم انے جہاد کے موقع سے صحابہ سے امداد طلب کی ہے اور صحابہ نے حتی المقدور اپنی اعانتیں حضور اکرم اکو پیش کی ہیں، یا کسی شخص کی ضرورت کے لئے مسجد کے انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہو او رلوگ تعاون کریں تو یہ بھی درست ہے، حضور اکرم اکا بہت سے مفلوک الحال اور تنگ دست لوگوں کے لئے مسجد میں اعلان کرنا روایتوں میں مذکور ہے۔

۹۔ مسجد میں خرید وفروخت :

مسجد میں خرید وفروخت سے بھی احتراز کیا جائے، نبی کریم ا نے مسجد میں خرید وفروخت کو سختی سے منع فرمایا ہے، آپ ا کا ارشاد گرامی ہے: جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید وفروخت کرتے ہوئے دیکھو تو تم یوں کہو کہ اللہ عزوجل تمہاری تجارت کو نفع بخش نہ بنائے، جب تم کسی شخص کو مسجد میں گمشدہ سامان کا اعلان کرتے ہوئے دیکھوتو یوں کہو کہ اللہ عزوجل تمہارا یہ سامان واپس نہ کرے (رواہ الترمذی، مشکوۃ :۷۰)

اس روایت کی روشنی میں وہ لوگ اپنا اچھی طرح جائزہ لیں کہ جو مسجد میں خرید وفروخت کرتے ہیں کہ حضور اکرم انے مسجد میں کی جانے والی اس تجارت کے غیر نفع بخش ہونے کے لئے بددعا کا حکم فرما یا ہے، یہ خرید وفروخت کی ممانعت کا حکم اس وقت ہے جب کہ مسجد کے اندرونی حصہ میں جسے ’’عین مسجد ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ معاملہ کیا جائے، مسجد سے متصل دوسری کھلی اراضی میں جو مصالح مسجد کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اگر وقتی پر کچھ چیزیں وہاں فروخت کی جائیں اور بعد نماز کے اٹھالیے جائیں تو اس طرح کا کاروبار درست ہے، جب کہ اس سے نمازیوں کو خلل واقع نہ ہو، اس طرح کی عارضی دکانیں مسجد کے انتظامیہ کی اجازت سے عرف کی بنا پر بغیر کرایہ کے لگائی جاسکتی ہیں، مستقل دکان لگانے کے لئے کی اجازت ضروری ہوگی (آپ کے شرعی مسائل : منصف :جولائی :۲۰۰۸)

۱۰۔ مسجد میں اشعار کہنا :

 مسجد میں فضول اور گندے قسم کے اشعار کہے جائیں، حضور اکرم انے مسجد میں اس طرح کے لغویات پر مشتمل اشعار کہنے سے منع فرمایا ہے :عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا مسجد میں اشعار کہنے، اس میں خرید وفروخت کرنے، جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقے لگاکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد، ترمذی، مشکوۃ :۷۰)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مسجد میں قصاص طلب کرنے، اشعار کہنے اور حدود نافذکرنے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد :مشکوۃ :۷۰)مسجد میں اس طرح کے اشعار کہنے کی ممانعت اس وقت ہے جب کہ یہ اشعار فضولیات اور لغویات پر مبنی ہوں ـ، اگر مسجد میں اللہ کی حمد وثنا، حضور اکرم ﷺ کی تعریف ومنقبت، نیکی کی ترغیب، کفر کی مذمت، گناہ کی برائی یاکافر اسلام کی ہجو پر مشتمل اشعار کہیں جائیں تو اس کی اجازت ہے۔ چنانچہ آنحضرت اکا حضرت حسان بن ثابت کے لئے مسجد میں منبر رکھنا منقول ہے، جس پر ٹھہر کر وہ حضور اکرم اکی تعریف ومنقبت اور کفار کی جانب سے آپ کا دفاع اور ان کی ہجو پر مشتمل اشعار کہا کرتے تھے۔ (مشکوۃ : ۴۱۰، شامی :۲؍۴۳۴)۔

مسجد کے احترام کے منافی یہ وہ چند قابل اصلاح پہلو ہیں جن کی طر ف توجہ دینے کی خصوصی ضرورت ہے، اگر ہم نے ان مذکورہ پہلوؤں پر اپنی توجہ مبذول نہ کی، احترام مساجد کے منافی ان اعمال کے مرتکب ہوتے رہے تو ہم عقاب خداوندی اور پکڑ کے مستحق ہو سکتے ہیں، اب بھی وقت ہے کہ مسجد کے ادب واحترام کے منافی ان اعمال کے انجام دہی سے رک جائیں ؛ تاکہ اللہ کی رحمت خصوصی طور سے ہم پر متوجہ ہو، مسجد کے انوار وبرکات سے ہم صحیح طور پر مستفید ہوسکیں اور مسجد سے وابستگی اور تعلق رکھنے والوں کے تعلق سے جو بشارتیں اور وعدے اللہ اور امن کے رسول انے ہمیں سنائے ہیں، اس کے ہم حقدار بن سکیں، اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں مساجد کے صحیح احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو کوتاہیاں اور لغزشیں ہورہی ہیں اسے اپنی مہربانی سے معاف فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔