دعاؤں کی قبولیت کا موسمِ بہار: رمضان المبارک

حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

رمضان المبارک اللہ کی رحمتوں کا موسمِ بہار ہے ۔ گرچہ اس کی رحمتیں ہر آن ، ہرلمحہ اس کی مخلوق پر بلا تفریق و امتیاز برستی رہتی ہے۔لیکن کچھ مخصوص دن اور رات و مہینے ایسے ہیں جن میں اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بے شمار رحمتیں ، برکتیں نازل فرماتاہے۔ بہار کے موسم آتے ہی چمن میں روح پرور ہوائیں چلنے لگتی ہیں ۔ خشک درخت ہرے بھرے ہوجاتے ہیں،پھول کھلنے لگتے ہیں، جسمِ انسانی کی رگوں میں تازہ خون گردش کرنے لگتا ہے۔ماہِ رمضان انسانوں کے لئے اللہ کی بے پایاں رحمتوں کا موسمِ بہار ہے۔ اعلانِ خداوندی ہے : شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدَی اللِّنَّاسْ (رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا،لوگوں کی ہدایت کے لئے۔قرآن)۔رمضان کی فضیلت کلامِ الٰہی ،قرآن مجید سے اور قرآن کے نزول کا مقصد ہدی للناس انسانوں کی ہدایت کے لئے کلام الٰہی نازل ہوا۔ تمام بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ نے قرآن نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات میں انسان کی فلاح و بہبود ی پنہاں ہے۔ان احکامات کے بے شمار جسمانی اور روحانی فوائد ہیں۔ ان میں نہ صرف خدا کی خوشنودی مضمر ہے بلکہ خود انسان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح ونجات کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے احکامات فرائض کے درجے میں ہیں۔ کلمہ، نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃان سب فرائض کو چھوڑنے پر سخت گناہ و عذاب ہے۔ نماز کے بعدسب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ روزہ جہاں اللہ کی عبادت ہے وہیں اس کے دنیوی و اخروی بے شمار فوائد انسان کے ہی حق میں ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ رمضان کی فضیلتوں میں یہ بھی ہے کہ اس ماہ ہر آن ،ہرلمحہ اور خاص کر لیلۃ القدر میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اللہ نے بندوں کو دعا جیسی عظیم نعمت عطا فرما کر اور دعا کو بزرگ فرماکر اس کی عظمت کا اعلان فرمایا ۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ نہیں۔(اسے ترمذی و ابن ماجہ و ابن حبان و حاکم نے صحابی سے روایت کی ہے)دوسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں: دعا سے عاجز نہ ہو کہ کوئی شخص دعا کے ساتھ ہلاک نہ ہوگا۔(ابن ماجہ) ہر شخص محتاج ہے اور زمین و آسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہی مانگنے والوں کو عطا کرتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:واللّٰہُ الغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ترجمہ: اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو (القرآن سورہ محمد،آیت ۳۸)۔انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے رب سے اپنی حاجت و ضرورت مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اللہ سے بے نیازی نہ کرے کیونکہ یہ مقامِ عبدیت اور دعا کے خلاف ہے۔ قرآن مقدس میں دعا کی اہمیت بتائی گئی ہے بلکہ دعا کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں اور دعا مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ وَاِذَا سَاَ لَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبٌ…الخ ترجمہ: (اے میرے حبیب پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرما دیجئے کہ) میں بالکل قریب ہی ہوں ۔جب کوئی پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔(القرآن سورہ البقرہ، آیت 186) دکھ درد کا ماراجب یہ سنتا ہے کہ میرا مالک ، میرا خالق مجھ سے الگ تھلگ کہیں دور نہیں بلکہ وہ قریب ہے رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے اور یہی نہیں بلکہ دعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے اس سے بڑھ کر دعا کی اہمیت کیاہوسکتی ہے ۔ اللہ خود حکم دیتے ہوئے فرمارہا ہے: وَقَالَ رَبُّکُمُ اُدعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ترجمہ: تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو ، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(القرآن سورہ مومن ، آیت 60)

فضائلِ دعا و آدابِ دعا: دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار نے اپنے بندوں کو کرامت عطا فرمائی ہے اور دعا کی تلقین اور تعلیم فرمائی کہ مشکل کے وقت دعا سے زیادہ کوئی چیز مؤثر نہیں۔ اور دفع بلا و آفات میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے والد گرامی حضرت علامہ مولانا نقی علی خان علیہ الرحمۃ نے احسن الوعا لآداب الدعا(فضائل دعا ) اس کتاب کی شرح حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے فرمائی۔ذیل المدعا لاحسن الوعاء) لکھ کر امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایا ہے ۔ آپ نے اس کتاب میں دس باب قائم فرمائے ہیں۔پہلا باب فضائلِ دعا، دوسرا باب آدابِ دعا و اسبابِ دعا،تیسرا باب اوقاتِ اجابت وغیرہ وغیرہ ۔ اس کتاب کا پڑھنا ہر مسلمان کے لئے فائدہ مند ہوگا ،ضرور مطالعہ کریں۔ پہلے باب فضائلِ دعا میں لکھتے ہیں :ایک دعا سے آدمی کو پانچ فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ (1) عابد وں کے گروہ میں داخل ہوتاہے کہ دعا فی نفسہ عبادت ہے بلکہ سرّ عبادت ہے۔ حضور ﷺ نے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا: اَلدُّعَا ءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ یعنی دعاعین عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔(ترمذی باب ماجاء فی فضل الدعاء) ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام و صالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام قرآن مجیدمیں متعدد بار فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت یحییٰ علیہ السلام وغیرہ وغیرہ ۔(2)جو شخص دعا کرتا ہے وہ اپنے عجز و احتیاج کا اقرار اپنے پروردگار سے کرتا ہے۔(3) امر شرع ہے رب نے دعا مانگنے کی تاکید قرآن میں فرمائی ۔ نہ مانگنے پر غضبِ الٰہی کی وعید آئی۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْ خُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْن۔ ترجمہ: جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر۔ یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔ (4)اتباعِ سنت کہ حضور ﷺ اکثر اوقات دعا مانگتے اور اوروں کو بھی تاکید فرماتے ۔دافع بلا و حصولِ مدعا ہے آدمی اگر بلا سے پناہ چاہتا ہے خدائے تعالیٰ پناہ دیتاہے۔

قرآن و احادیث سے جہاں دعا کی فضیلت ثابت و معلوم ہوتی ہے وہیں احادیث و قرآن مجید میں دعا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بھی وعید آئی ہے۔ قرآن کریم کی آیتِ طیبہ اوپر لکھی جا چکی ہے۔ حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مَنْ لَمْ یَسْأَ لِ اللّٰہَ یَغْضِبُ عَلَیْہِ۔جو بندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اس پر اللہ ناراض ہوتاہے۔دنیا میں ایسا کوئی نہیں جو سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہو حتٰی کہ والدین بھی اولاد کے ہر وقت مانگنے اور سوال کرنے سے چڑھ جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ جو بندہ اس سے نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہوتاہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرنا تکبر کی علامت ہے۔ اور مانگنے پر اسے پیار آتاہے اور بندہ جو طلب کرتاہے اپنی رحمت سے اسے عطا فرماتا ہے۔ یا آخرت میں ثواب بخشتا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی اللہ سے دعا کرنے کی تاکید فرمائی۔ بلکہ اس کے فضائل و آداب بھی بتائے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ شَیْیءٌ اَکْرَمَ عَلَی اللّٰہ مِنَ الدُّعَاءِ (اللہ کے یہاں دعاسے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے،یعنی انسانوں کے اعمال میں دعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کو کھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ فُتِحَ لَہٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَہٗ اَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ۔تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دعا کرے۔

دعا مومن کا خاص ہتھیار ہے:نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَلدُّعَا ءُ سَلَاحُ الْمُؤمِنْ۔دعامومن کی خاص ہتھیار ہے۔ یعنی اس کی طاقت ہے ۔ مفسرین وعلمافرماتے ہیں دعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے اسی طرح دعا بھی آفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ حضور اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ تمہارا رب غایت حیا اور کرم فرمانے والا ہے۔ جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلا تاہے تو اس کو حیا آتی ہے کہ ان کو خالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔ (سنن ابو داؤد) حضور نبی کریم ﷺ کا یہ ارشادگرامی درحقیقت سائل کے لئے امید کی کرن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جو مانگنے والوں کو کبھی محروم نہیں کرتا اور بندہ کی ضرورت و مصلحت کے مطابق ضرور عطا فرماتا ہے اور وہ رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ وہ قادر بھی ہے رحمٰن و رحیم بھی۔ تم دستِ دعا درازکرو،تم دامنِ طلب پھیلا کر دیکھو ،تم دل سے اس کے درِ رحمت پر آواز دو ، وہ سنے گا تمہاری فریاد، وہ قبول کرے گا تمہاری دعا۔ درِ کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو

دعا کیوں قبول نہیں ہوتی:ممکن ہے یہاں پر کسی کو شک گزرے کہ بسا اوقات دعاکرتے سالہا سال گزر جاتے ہیں لیکن دعا قبول نہیں ہوتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ رحمت دوعالم ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ آدمی دور دراز کاسفر کرتاہے ، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتاہے ۔ بال اس کے پریشان ، جسم اس کا گرد آلود ، اس کا کھانا لباس سب حرام کمائی سے ہے ۔ اس کے پیٹ میں جو غذا ہے وہ بھی حرام ہے تو وہ لاکھ پکارے اور دعائیں کرے ایسے حرام خور کی دعا قبول ہونے کے لائق نہیں۔ حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کو فرمایا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری ہر دعا قبول ہو تو رزق حلال کھایا کرو۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ ، اور اللہ سے ڈرو جس پر تمہیں ایمان ہے۔(کنز الایمان۔القرآن، سورہ مائدہ،آیت ۸۸) پھر آگے ارشاد فرماتاہے : یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ کُلُوْ مِنْ…..الخ۔ ترجمہ: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی پاک و ستھری چیزیں اور اللہ کا احسا ن مانو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ان آیات میں حلال رزق کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی کو ایمان باللہ کا تقاضہ قرار دیا گیاہے۔ اللہ نے بے شمار دروازے رزق حلال کے کھول دیئے ہیں۔ رزق حلال کی راہیں تنگ نہیں کہ تم کو حرام کی طرف جانا پڑے ۔ دعا کی قبولیت کی شرط اول ہے حلال رزق کھاؤ ۔ ان شرائط کو ہم نے فراموش کردیا۔ بلکہ اب تو حلال و حرام میں فرق کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔اگرہماری دعائیں قبول نہ ہوں تو اپنا محاسبہ کریں اور تعجب تو یہ ہے کہ اس رحمت بے پایاں کہ پھر بھی وہ فریاد یں سن لیتاہے۔ صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ رب تمہاری مانے تو تم رب کی اطاعت کرو۔ روزہ اور نماز اسلام کی بنیادی عبادت میں ہیں۔ لیکن حضور رحمت للعلمین ﷺ نے نماز کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جو نماز نمازی کو بدکاریوں سے باز نہ رکھ سکے وہ نماز اسے خداسے اور زیادہ دور کردے گی۔ روزہ سے متعلق ارشاد فرمایا۔مَنْ لَمْ یَدَعَ قَوْلَ الزُّرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ للّٰہِ حَاجَۃٌ فِی اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ( روزے دار اگر جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

آدابِ دعا و اسبابِ اجابت:یوں تو آدابِ دعا بہت ہیں ۔ اعلیٰ حضرت اپنی کتاب لاحسن الوعاء فی آداب الدعا میں ساٹھ لکھے ہیں۔ چند مطالعہ فرمائیں۔(۱) دل کو حتی الامکان خیالاتِ غیر سے پاک کرے، بدن و لباس و مکان پاک و طاہر ہوں، کھانے پینے ، لباس وکسب میں حرام سے احتیاط کرے کہ حرام خورو حرام کاری کی دعا اکثر رد ہوتی ہے۔دعا سے پہلے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے کہ نافرمانی پر قائم رہ کر دعا مانگنا بے حیائی ہے۔ دورکعت نماز خلوص قلب سے پڑھے کہ جالب رحمت ہے ۔ اور رحمت موجب نعمت ۔ وقت کراہت نہ ہو ،دعا کے وقت باوضو قبلہ رخ ہو یقین کے ساتھ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی میری دعا قبول فرمائے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔فَالدْعُواللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ تم لوگ اللہ کو خالص اعتقاد کے پکارو۔ دعا کے قبول ہونے کا پورا یقین رکھنا ۔ حضور نے فرمایا اللہ سے دعا اس طرح کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو(ترمذی) حضور نے فرمایا کہ تم میں جب کوئی دعا مانگے تو پہلے اللہ کی حمد و ثنا سے دعا کا آغاز کرے پھر مجھ پر درود بھیجے پھر جو چاہئے مانگے وغیرہ وغیرہ۔

دعا قبول ہونے کے اوقات ومقامات: وہ اوقات و حالات کہ جن میں بنظر ارشاد احادیث و ائمہ دین امیداجابت بحمد للہ قوی ہیں،پینتالیس ہیں۔ اول شب قدر ماہ رمضان میں، ماہ رمضان ہر لمحہ، شبِ جمعہ ماہ رمضان ، روز جمعہ ماہِ رمضان، ٹھیک آدھی رات یعنی رات کا چھٹا حصہ کہ اس وقت تجلی خاص ہوتی ہے ۔ طواف کرتے وقت ملتزم پر چمٹ کر ۔(ملتزم اس جگہ کو کہتے ہیں جو حجر اسود اور بیت اللہ کے درمیان ہے)،حطیم میں خاصکر میزابِ رحمت کے نیچے ، بیت اللہ شریف کے اندر ، صفا و مروہ پر اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت ، مقامِ ابراہیم، عرفات ، منیٰ ، مزدلفہ میں ،آبِ زمزم پینے کے پہلے اور بعد میں ، اذان سننے میں بعد حیٰ علی الفلاح ، بارش ہوتے وقت وغیرہ وغیرہ ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے رحمتوں، برکتوں، فضیلتوں والا رمضان چل رہاہے۔ جس میں ہر لمحہ دعائیں قبول ہوتی ہیں اور مخصوص وقتوں کا ذکراوپر گزر چکا ہے۔ ہمیں اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہونا چاہئے اوراللہ کی بارگاہ میں خوب خوب دعائیں مانگنی چاہئے۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: رمضان کا با برکت مہینہ تمام بھلائیوں اور برکتوں کا جامع ہے اور جو بھی خیروبرکت اس میں ہے وہ مخلوق کی ذات سے وابستہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے مَآاَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّءَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکْ ۔ ترجمہ: جو کچھ تمہیں بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ تمہیں برائی پہنچے وہ خو د تمہاری طرف سے ہے (القرآن)۔یہ نصِ قطعی ہے پس اس ماہ مبارک کی تمام بھلائیاں اور تمام برکتیں اللہ تعالیٰ کے کمالات ذاتیہ کے ثمرات ہیں اور ان تمام کمالات ذاتیہ کی جامع اس کے کلام کی شان عالی ہے اور قرآن مجید اس شان جامع کی تمام حقیقتوں کا جامع ہے اور یہ ماہ مبارک ان تمام بھلائیوں اور سعادتوں کا جامع ہے جو ان کمالات کے ثمرات و نتائج ہیں اور یہی مناسبت ہوئی کہ اس ماہ مقدس میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ۔پھر اس ماہ مبارک کا خلاصہ اور حاصل شب قدر ہے وہ مغزہے اوریہ مہینہ اس مغز کے لئے گویا چھلکا ہے۔ پس جو کوئی اس ماہ کو جمیعت اور یکسوئی کے ساتھ گزارے گا اور اس ماہ کی خیرات و برکات سے بھرا پڑا رہے گا وہ پوراسال جمعیت اور اطمینان کے ساتھ گزارے گا اور خیر و برکت سے بھرا پڑا رہے گا۔(حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ ،مکتوب :۱۶۲،جلد اول)اس ماہ میں لیلۃ القدر سے محرومی بہت بڑی محرومی ہے ۔نبی ﷺ کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں روزے اور قرآن مجید کی شفاعتیں قبول فرمالیتاہے۔ دوسری حدیث اس طرح سے ہے ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا تو نبی ﷺ نے فرمایا یہ وہ مہینہ تمہارے اوپر آیا ہے اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ،جو ان سے محروم رہ گیا وہ تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہتا ہے جو ہے ہی بے نصیب(ابن ماجہ)۔ماہِ رمضان دعا کی قبولیت کا ماہ جشن ہے ۔ اس ماہ میں دعاؤں کی کثرت کیجئے، اپنی جائز ضرورتیں اور تمنائیں خدا کے حضور پیش کیجئے۔ پیارے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتاہے کہ اپنی عبادتیں چھوڑو اور روزہ رکھنے والوں کی دعاؤں پر آمین کہو۔ الحمدللہ کتنی بڑی خوش نصیبی ہے دعا ہم کریں فرشتے آمین کہیں اور مولائے رحیم اسے قبول فرمائے۔یکسوئی اور خلوص کے ساتھ توبہ کریں اور یقین رکھیں کہ خدا کی رحمت ہمیشہ وسیع ہے کسی کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں لیکن جب وہ اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر گڑ گڑاتاہے تو خدا اسے اپنے دامنِ عفو و رحمت میں چھپا لیتاہے ۔ارشاد ربانی ہے :(ترجمہ)اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بے شک میرا رب مہربان محبت والاہے (القرآن سورہ ہود،آیت ۹۰)۔خوب عبادت کریں ،تلاوت کریں ، صحیح طرح سے روزہ رکھیں اور ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں دعائیں کریں تاکہ اللہ کی نعمتوں کو حاصل کریں ۔ اللہ ہم سب کو رمضان ،قرآن، لیلۃ القدر اور دعا جیسی عبادت سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!

تبصرے بند ہیں۔