گلبرگ سوسائٹی کے مجرموں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اور فیصلہ

عبدالعزیز
گجرات کی گلبرگ سوسائٹی کے قتل عام کے فیصلہ کرنے والے فاضل جج صاحب کا یہ کہنا ہے کہ انسانی تاریخ کا یہ تاریک ترین دن تھا جبکہ 69 افراد کو جلاکر یا مار مار کر شہید کر دیا گیا بالکل صحیح ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ کہنا کہ واقعہ rarest of rare یعنی اندوہناک ترین نہیں ہے۔ ایک عجیب و غریب بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک مشتعل ہجوم رات 10بجے سے 6بجے تک سوسائٹی کے سارے گھروں کو جلاکر راکھ کر دیتا ہے اور ایک سابق ایم پی احسان جعفری جس نے اپنی اور لوگوں کی جان بچانے کیلئے گولی چلائی اسے گھر سے گھسیٹ گھسیٹ کر اور مار مار کر جان لے لی جاتی ہے اور 68 افراد کو جلاکر یا اینٹ پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ پولس بلوائیوں کو پورا موقع دیتی ہے۔ سابق ایم پی کا فون نہ پولس اٹھاتی ہے اور نہ وزیر اعلیٰ اٹھاتے ہیں۔ اس وحشیانہ اور ظالمانہ حرکت کی پاداش میں عدالت نے 66ملزمین کے خلاف مقدمہ چلایا جن میں سے 24 کو قصور وار ٹھہرایا گیا اور باقی چھوڑ دیئے گئے 11مجرموں کو عمر قید کی سزا جبکہ قتل کی کوشش کے ایک مجرم کو 10 سال اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر اتل وید سمیت 12مجرموں کو سات سات سال کی قید کی سزا ئیں سنائی گئیں۔
یہ فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ مجرموں، ظالموں اور قاتلوں کے ساتھ ہمدردی اور رحم کے مترادف ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے جرم کی رفتار بڑھ رہی ہے کیونکہ ظالم اور قاتل اگر یہ سمجھتا ہو کہ قانونی نظام اسے قتل کرنے پر سزائے موت نہیں دلاسکتی ہے وہ چند سال جیلوں میں رہ کر اپنے گھر واپس آجائے گا تو جرم کرنے سے اسے نہ خوف ہوگا اور نہ ہی آئندہ کی زندگی میں اپنی ظالمانہ حرکت سے باز آئے گا۔ ایسی حالت میں ایک پر امن معاشرہ (Peaceful Society) کا وجود میں آنامشکل ہے۔ سزائیں اگر جرم کو روکنے کیلئے نہ دی جائیں اور مجرم کے ساتھ ہمدردی برتی جائے تو یہ مظلوم کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔ وہ معاشرہ یا سوسائٹی نہایت بری ہے جس کے اندر جرائم پرورش پاتے ہوں، لوگوں کا اصل مرکز توجہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دلانا ہونا چاہئے۔ جو شخص معاشرے کے اندر جرم کا ارتکاب کرکے معاشرہ کے امن و سکون کو غارت کرتا ہے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اتنی سزا دی جائے کہ وہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو تاکہ کوئی اس قسم کے جرم کی جرأت نہ کرسکے۔ اگر ہماری ہمدردی مجرم کے ساتھ ہو جائے تو وہ ایک طرح کا جرم ہے کیونکہ اس سے ارتکاب جرم سے نا ناہمواری اور عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔
گلبرگ سوسائٹی کے ادھورے فیصلہ کی قانونی لڑائی لڑنے والوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بالکل درست ہے۔ تیستا سیتلواد اور ذکیہ جعفری بھی 14 سال سے مسلسل اس قانونی لڑائی کو لڑرہی ہیں۔ ان کے حوصلے اور عزم کو داد دینی چاہئے اور ان کا ہر طرح سے تعاون کرنا چاہئے۔ محترمہ سیتلواد کی ہمت اور بہادری کو سلام کرنا چاہئے کہ ان پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی یلغار ہے۔ ان کو دونوں حکومتوں کو حد سے زیادہ پریشان کر رہی ہیں مگر وہ خاتون آہن بن کر گلبرگ سوسائٹی واقعہ کی نہ صرف دلیری سے پیروی کر رہی ہیں بلکہ محترمہ ذکیہ جعفری کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہیں۔ ان دونوں کا فیصلہ ہے کہ وہ مجرموں اور قاتلوں کے خلاف آخری سانس تک قانونی لڑائی لڑیں گی ۔ وہ کسی دہشت اور دھمکی کی پروا ہر گز نہیں کریں گی خواہ اس راہ میں انھیں اپنی جانوں کو قربان ہی کرنا پڑے۔ یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو ان دو خواتین کی شجاعت اور دلیری سے سبق لینا چاہئے۔
جہاں تک موجودہ قانونی نظام ہے تو اس کی ناکامی کا حال یہ ہے کہ 14 سال کے بعد پاپڑ بیلنے کے بعد جو فیصلہ ہوا اس میں آدھے سے زیادہ کٹر سے کٹر ظالم چھوڑ دیئے گئے اور 24 کو مجرم گردانا گیا۔ ان میں سے کسی کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔ یہ کہہ کر کہ کوئی غیر معمولی اور اندوہناک واقعہ نہیں تھا۔ کسی بستی کو جلا دینا اور 69 افراد کی جان لے لینا، سیکڑوں کو زخمی کرنا پوری گلبرگ کالونی کو جلاکر راکھ کر دینا ااگر یہ اندوہناک اور سنگین واقعہ نہیں ہے تو آخر اندوہناک اور سنگین واقعہ کیا ہے؟ کیا جان لینے کے بعد بھی کچھ اور کرنا تھا۔ دہلی کی ایک سڑک پر ایک میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ جو کچھ ہوااسے Rarest of rare کہا گیا اور پوری دہلی نہیں بلکہ پورا ہندستان ہلا ڈالا گیا؟ اس پرلا کمیشن کی تشکیل ہوئی اور سخت سے سخت قوانین بھی مرتب کئے گئے، یہاں 69 افراد کی جان گئی۔ لوٹ، آتش زنی، ریپ کیا نہیں ہوا مگر عدالت نہ ہلی اور نہ ہندستان کی میڈیا کو وہ سنگینی نظر آئی جو دہلی کی سڑکوں پر نظر آتا تھا۔ افسوس ایک قتل جسے قرآن نے سب کا قتل کہا ہے گلبرگ کے سنگین واقعہ میں جج صاحب کو کسی وجہ سے سنگین نہیں نظر آیا۔
اللہ تعالیٰ جس نے ہم سب کو پیدا کیا جس کے نزدیک ہر ایک جان کا احترام ہے اس کی کتاب پاک میں ہے کہ جس نے ایک جان کا ناحق قتل کیا اس نے ساری انسانیت کا قتل کر دیا ۔ ایک کا قاتل سب کا قاتل ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ دنیامیں نوع انسانی کی زندگی کابقامنحصرہے اس پرکہ ہرانسان کے دل میں انسانی جانوں کااحترام موجودہوہرایک دوسرے کی زندگی کے بقااورتحفظ میں مددگاربننے کاجذبہ رکھتاہو۔ جوشخص ناحق کسی کی جان لیتاہے وہ صرف ایک ہی فردپرظلم نہیں کرتابلکہ یہ بھی ثابت کرتاہے کہ اس کادل حیات انسانی کے احترام سے اورہمدردی نوع کے جذبہ سے خالی ہے لہٰذاوہ پوری انسانیت کادشمن ہے کیونکہ اس کے اندروہ صفت پائی جاتی ہے جوتمام افرادانسانی میں پائی جائے توپوری نوع انسانیت کاخاتمہ ہوجائے۔ لہٰذاجولوگ بھی قتل کے مجرم ہوتے ہیں ان کواگرسزاے موت نہیں ملتی تومقتول ہی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوتی بلکہ سارے انسانوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے کیونکہ قاتل کے چھوٹ جانے سے قتل کرنے والوں کاحوصلہ بڑھ جاتاہے اورقتل وغارتگری کاسلسلہ رکنے کانام نہیں لیتا، گلبرگ سوسائٹی کامعاملہ ہویاکسی اورجگہ کامعاملہ ، جہاں قاتلوں نے انسانیت پرحملہ کیاہے اورزندہ انسانوں کوجلایاہے انہیں زندہ رہنے کاکوئی حق نہیں ۔ سی بی آئی کے سابق ڈائرکٹرمسٹرآرکے راگھون کوبھی فیصلہ سے مایوسی ہوئی ہے اورصدمہ پہنچاہے ، ان کاکہناہے کہ 66ملزمین کے خلاف ان کی ٹیم نے کافی ثبوت فراہم کئے تھے مگر36مجرموں کابری ہوجاناتعجب اورحیرت کی بات ہے ۔بہرحال ذکیہ جعفری اوران کے ساتھ دینے والی ٹیم کاحوصلہ بلندہے ، امیدہے ایک نہ ایک دن انصاف ضرورملے گامقتولوں کاخون ضروررنگ لائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔