ذکر الٰہی کے معانی و مفاہیم کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

آج ہم عدیم النظیر سائنسی اکتشافات وایجادات کے سبب ترقی یافتہ معاشرے میں زندگی گزارنے کا ضرور دعوی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ کا تقریباً ہر فرد آج ذہنی تنائو، قلبی اضطراب، فکری انتشار کا شکار نظر آتا ہے اور کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں بے برکتی، بے سکونی، بے چینی اور افلاس نے ڈیرہ نہ ڈالا ہو۔ یہ اس لیے ہورہا ہے چونکہ ہم نے اطمینان قلب، سکون دل کے اہم ذریعہ یعنی ذکر الٰہی کو فراموش کردیا ہے۔ جبکہ قرآن مجید نے ذکر الٰہی کو حیات دل، راحت قلب، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج الغرض ہر عبادت کی روح اور ہر خیرات و سعادت کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’دھیان سے سنو! اللہ تعالی کی یاد سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں ‘‘ (سورۃ الرعد آیت 28)۔

 یہ ذکرالٰہی کا ثمرہ تھا کہ آتش کدہ نمرود میں بھی حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ مسکرا رہے تھے، حضرت سیدنا اسماعیلؑ برضا و رغبت اپنا آپ کو قربانی کے لیے پیش کردیا۔ امام ابن مردویہ نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ سے، اس کے رسول سے اور میرے اہل بیت سے سچی محبت رکھیں اور مسلمانوں سے محبت رکھیں خواہ وہ حاضر ہوں یا غائب۔ سنو! اللہ کے ذکر کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔ لیکن صد حیف کہ مسلم معاشرے پر نظر ڈالیں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان رقابتیں، رنجشیں، عداوتیں اور نفرتوں کا ماحول پایا جاتا ہے چونکہ آج ہم کہیں نے کہیں ذکر الٰہی اور اس کی محافل کا انعقاد کرنے سے اعراض کرلیا ہے۔ صوفیاء کرام ارشاد فرماتے ہیں جب بندہ فانی دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے تو اس کا دل مضطرب اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے اور جب یہی بندہ خالق دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور انوار صمدیہ اور اضواء الہیہ سے اپنے دل کو روشن اور منور کرلیتا ہے تو اس کا دل مطمئن ہوجاتا ہے اسی لیے قرآن مجید نے ذکر الٰہی کو سکون قلب کا ذریعہ بتایا ہے۔

پیر طریقت ابو العارف حضرت شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی حفظہ اللہ تعالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں ’’جب بندہ دنیوی مناصب و مراتب حاصل کرنے کی جستجو کرتا ہے اور ایک منزل پر پہنچتا ہے تو دل اس لیے مطمئن نہیں ہوتا چونکہ اس کے آگے دوسری منزل ہے اور لا متناہی سلسلہ ہے اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ اگر بندہ کو احد کے تین پہاڑ سونے کے بناکر دے دیے جائیں تو وہ تمنا کرے گا کہ کاش اور ایک پہاڑ اس سے مل جاتا۔ اس کے برعکس جو بندہ قرب خداوندی اور معیت کردگار کے نعمت سے مالامال ہوجاتا ہے اسے کسی اور مرتبہ کے حصول کی خواہش ہی نہیں ہوتی چونکہ اس سے اعلی و ارفع کوئی مقام و مرتبہ ہے ہی نہیں اسی لیے قرآن مجید نے ذکر الٰہی کو اطمینان قلب کا سبب قرار دیا ہے‘‘۔ ذکر درحقیقت خالق کونین سے رابطہ جوڑنے کا اہم ذریعہ ہے۔ ذکر انوار و تجلیاتِ ربانی کی کلید، بصیرت کا نقطۂ آغاز، جمال فطرت کا عکس اور حصول معرفت الٰہی کا سبب ہے۔ علماء کرام ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر لفظ ذکر کو بندے کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کے معنی یاد رکھنے اور کرنے کے ہیں اور یہی لفظ اگر رب کی طرف منسوب ہوتو اس کے معنی شرف، بزرگی اور شہرت دینے کے ہیں چونکہ رب بھول چوک اور نسیاں سے پاک ہے اس لیے یہاں وہی معنی مراد ہوں گے جو ذات الٰہی کے شایانِ شان ہے۔

 اس لغوی تشریح سے ضمناً یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ جب بندہ ہر آن و لحظہ شوق وشغف اور سوز و گذاز کے ساتھ رب کو یاد کرتا ہے، رب ذو الجلال اور اس کے حبیب ﷺکے احکامات کی حفاظت کرتا ہے تو رب کائنات اسے دنیوی و اخروی شہرت، شرف و بزرگی سے سرفراز فرماتا ہے۔ چونکہ دنیا میں مادی عوامل اس قدر کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ بندہ اپنے رب کو بھول جائے اور مادہ پرستی کا شکار ہوکر دنیا و آخرت کو تباہ و تاراج کرلے اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں کثرت سے اور دن رات ذکر کرنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ ہم دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی حاصل کرسکیں۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ : ’’اے ایمان والو! جب جنگ آزما ہوکسی لشکر سے تو ثابت قدم رہو اور ذکر کرو اللہ تعالی کا کثرت سے تاکہ تم کامیاب ہو جائو‘‘ (سورۃ الانفال آیت 45)

 تاریخ انسانی شاہد ہے کامیابی کا سہرا ہمیشہ اسی قوم کے ساتھ باندھا ہے جس نے ناموافق حالات میں بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ استقامت ذکر الٰہی سے آتی ہے۔ یعنی قرآن حکیم نے اس آیت پاک کے ذریعہ ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہمارا کا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو ذکر الٰہی کے سایہ سے محروم ہو خواہ وہ جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو۔ کعب احبار بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کو قرآن کی تلاوت کرنے اور ذکر کرنے سے سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو اللہ تعالی لوگوں کو نماز پڑھنے اور قتال کرنے کا حکم نہ دیتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نے قتال کے وقت بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے (تفسیر امام ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر تبیان القرآن، جلد چہارم صفحہ نمبر 648)۔

حضرت سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے ولیوں کو شدید حالات میں بھی اپنا ذکر کرنے کا حکم فرمارہا ہے چونکہ یہ کسی انسان کامل کے لیے سزاوار ہی نہیں کہ اس کا دل اور زبان ذکر الٰہی سے تر نہ ہو۔ اگر کوئی شخص مغرب سے مشرق تک سخاوت کرتا ہوا جائے یا کوئی شخص مشرق سے مغرب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا جائے تب بھی ان لوگوں کے مقابل اس شخص کو اجر و ثواب بہت زیادہ ملتا ہے جو ہمیشہ ذکر الٰہی سے اپنے دل کو روشن و منور رکھتا ہے۔ (تفسیر ابن کبیر جلد 15 صفحہ نمبر 177)۔

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ محولہ بالا آیت شریف میں لفظ ذکر سے مراد مدد و نصرت اور فلاح و نجاح کے لیے دعا کرنا ہے۔ اگر ذکر الٰہی انسان کے قلب و دماغ میں ہر لمحہ مستحضر رہے تو ممکن نہیں کہ انسان سرکشی و نافرمانی میں مبتلا ہوجائے۔ دوران عبادت اگر انسان اسی ذکر الٰہی کو اپنے لیے حرز جان بنالیں تو ایک طرف وہ ریاکاری کی نحوست سے بچ جاتا ہے تو دوسری طرف حضورِ قلب و خلوص دل کی دولت سے مالامال ہوجاتا ہے، گمراہی و معصیت کی راہ پر چلنے والا جب ذکر الٰہی کرتا ہے تو وہ اپنے دامن کو گناہ آلود ہونے سے بچالیتا ہے، گناہ کا ارتکاب کرنے والا ذکر الٰہی کرتا ہے تو رب کائنات اس کے گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف فرمادیتا ہے اور اس کے لیے جادہ حق پر چلنا آسان فرمادیتا ہے، الطاف و عنایات الٰہی ملنے پر جو بندہ ذکر الٰہی کرتا ہے رب قدیر اس کو عطا کردہ نعمتوں میں مزید اضافہ فرماتا ہے، مصائب و آلام کے وقت جب بندہ ذکر الٰہی کرتا ہے تو رب کائنات اس کا شمار صابرین میں فرماکر اپنے قرب خاص اور معیت کی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں ذکر الٰہی کو جہاد سے افضل و اعلی قرار دیا گیا ہے  بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت بھی اسی ذکر کی وجہ سے ہے۔

صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ جس طرح پانی کے بغیرانسانی جسم کو قوت و استحکام نہیں مل سکتا اسی طرح ذکر الٰہی کے بغیر انسانی روح کو تازگی ملنا از حد دشوار ہے۔ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے سب سے زیادہ ہوا کی ضرورت ہے چونکہ انسان غذا اور پانی کے بغیر کچھ دن تو گذار سکتا ہے لیکن ہوا کے بغیر کچھ لمحات گذارنا بھی اس کے لیے بہت دشوار ہے اسی لیے رب کائنات ہوا کو بہت عام فرمادیا اسی طرح روحانی ارتقاء کے لیے ذکر کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے رب کائنات نے بغیر کسی وقت و زمانہ کی قید کے ذکر الٰہی بجالانے کا حکم فرمایا ہے۔ ذکر الٰہی کا معنی و مفہوم ہمارے ذہن اسمائے حسنیٰ، صفات علیا، اوراد و وظائف کرنے اور حلقہ ذکر میں شرکت کرنے تک محدود ہیں جبکہ علماء کرام نے ذکر الٰہی کے مختلف معانی و مفاہیم بیان فرمائے جس کی طرف توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی کا پہلا معنی و مفہوم یہ ہے کہ بندہ تمام دینی و دنیوی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات و فرامین اقدس کی پیروی کرے۔ اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جس کی زندگی کا ہر لمحہ شریعت مطہرہ کے مطابق گزرے۔ ذکر کا دوسرا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان ہمیشہ رب کائنات سے گڑگڑاکر دعا کرتے رہے۔ اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جواپنے آپ کو ہمیشہ سرتاپا احتیاج و فقر سمجھتا ہے جس کا مثبت اثر اس کے کردار پر یہ پڑتا ہے کہ وہ مرکب غرور و تکبر سے نیچے اتر آتا ہے اور تواضع و انکساری کا مجسم نمونہ بن جاتا ہے۔

ذکر کا تیسرا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان ہمیشہ توبہ و استغفار کرتا رہے۔ اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جو ہمیشہ اپنے اندر کمی محسوس کرتا رہے اور بہتر کی تلاش میں سعی و جستجوکرتا رہے۔ اس طرح وہ متاع فانی یعنی دنیوی زندگی سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ سرائے باقی یعنی آخرت کی زندگی کو سنوارنے میں اپنی پوری زندگی لگا دیتا ہے۔ ذکر کا چوتھا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان رب کائنات کی حمد و ثناء میں ہمیشہ رطب اللسان رہے اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جو خودستائی کی نحوستوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ واضح باد کہ خودستائی انسان کو اپنی پیدائش کے مقصد جلیل یعنی عبادت سے محروم کردیتی ہے۔

 حضرت سیدنا عیسیٰؑ اپنے حواریوں سے فرماتے ہیں کہ بہت سے چراغ ایسے ہیں جنہیں ہوا نے بجھا دیا اور بہت سے عبادت گزار بندے ہیں جنہیں خودپسندی نے تباہ و برباد کردیا۔ ذکر کا پانچواں معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان حصول نعمت کردگار پر رب کا شکر ادا کرے اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جو نعمتوں کی سرفرازی پر غرور و تکبر میں مبتلا ہونے کے بجائے نعمتوں کا استعمال خالق کونین اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا و خوشنودی کے لیے کرے۔ ذکر کا چھٹا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان عزم و استقلال کے ساتھ زندگی کی مشکلات اور سختیوں کو جہد مسلسل کے ذریعہ اپنی فطرت کے ظہور کا وسیلہ بنالے اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جو دنیا پرستی، راحت طلبی، تنگ خیالی، اغراض شخصی اور مفادات ذاتی کے خلاف سخت مجاہدات کرتے ہوئے علمی، اخلاقی، ادبی، سیاسی، اقتصادی انقلابات کا نقیب بن جائے۔

 ذکر کا ساتواں معنی و مفہوم یہ ہے کہ بندہ تمام اعمال صالحہ و افعال خیر خالص لوجہ اللہ انجام دے جو دنیا و آخرت میں بلندیٔ درجات کا اہم ذریعہ ہے۔ اس لحاظ سے حقیقی ذاکر وہ ہے جس کا اندرون جذبہ اخلاص و للہیت سے معمور ہو، وہ روحانیت میں کبھی کمی واقع ہونے نہیں دیتا اور اسے ہمیشہ اپنے اور ہر انسان کی اصلاح و فلاح کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ذکر کے حقیقی فوائد و ثمرات کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم ذکر کے مذکورہ بالا تمام معانی و مفاہیم کو ذہن میں رکھیں ورنہ ایسے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں جس کا اثر نہ انسان کے قلب پر اور نہ ہی اس کے کردار پر۔

ذکر کے حقیقی معانی و مفاہیم کا ادراک کرکے ہی مسلمان صالح معاشرہ کی تشکیل دے سکتا ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔