مسکان خان کی شجاعت اور بشریٰ متین کی متانت

ڈاکٹر سلیم خان

مسلم متحدہ فرنٹ اور بہوجن ونچت اگھاڑی کے زیر اہتمام مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد میں 14؍مارچ کو ایک خطاب عام کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اس موقع پر کرناٹک کی جاں باز بیٹی مسکان خان اور ان کے اہل خانہ کو خراج تحسین پیش کیا جائے  گا۔ عالمی شہرت یافتہ مسکان خان فی الحال ہندوستان میں نسوانی  دلیری  شجاعت  کی علامت بن گئی ہیں ۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنا  مستحسن اقدام ہے کیونکہ زندہ ملت  اپنی فتح مندی  کا جشن مناتی  ہیں اور شکست خوردہ  قومیں ناکامیوں کا ماتم کرتی  رہتی ہیں۔ گزشتہ ماہ ۹؍ فروری کو بھی ونچت اگھاڑی نےحجاب کی حمایت میں  اورنگ آباد کے اندر مظاہرہ کیا تھا۔اس  احتجاج میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلمین نے بھی کرناٹک میں باحجاب طالبات کے تحفظ  کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس موقع پر مظاہرین نے حجاب کی آڑ میں مسلم طالبات کو تعلیم سے محروم رکھنے کی سازش  رچنے اورفرقہ پرستی کا زہر گھولنے کاالزام لگایا تھا نیز  مسکان  خان  کی ستائش کرکے اس  کا پیچھا کرنے والے نوجوانوں کو سزا دینے  کا مطالبہ کیا تھا  لیکن  اب وقت آگیا ہے کہ  مسکان خان کے ساتھ بشریٰ متین کو مذکورہ جلسۂ عام میں بلایا جائے تاکہ ایک ا ور زاویہ سے  مسلم خواتین کے حوصلہ افزائی کی جائے ۔

مسکان خان کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر  یہ بشریٰ متین کون ہے ؟ کیونکہ ان کی تو ویڈیو ذرائع ابلاغ میں وائرل نہیں ہوئی۔  بشریٰ  کرناٹک ہی کے شہر رائچورمیں واقع  وشویشوریا ٹیکنیکل یونیورسٹی (وی ٹی یو ) سے متصل  ایس ایل این کالج  میں ، بی ای سول انجینیرنگ  کی طالبہ ہے۔  اس سال انہوں نے اپنے فائنل امتحان میں  اول مقام حاصل کرکے گولڈ میڈل جیتا  لیکن ان کی خاص بات یہ ہے  یونیورسٹی تاریخ  میں  سب سے زیادہ 16گولڈ میڈل حاصل کرنے کا اعزازا نہیں تک مختص ہے ۔ اس سے قبل 2014میں ایک طالبہ نے 13؍ گولڈ میڈل حاصل کیے تھے۔ بشریٰ متین کے والد شیخ ظہیر الدین نے انجنیرنگ  ڈپلومہ  کیا تھا  مگر ان کی خواہش تھی کہ بیٹی ڈگری حاصل کرے اس طرح گویاانہوں  نے اپنے والد کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کردیا۔ بشری کی والدہ شبانہ پروین بھی گریجویٹ ہے۔  بشریٰ متین کی یہ پہلی کامیابی نہیں ہے بلکہ  ایس ایس ایل سی میں انہیں  94.72فی صد نمبر ملے تھے ۔ پی یو سی میں 93.33فی صد اور اب بی سی سول میں 9.47گریڈ کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کے باوجود کسی ملازمت کو اختیار کرنے کے بجائے وہ یو پی ایس سی امتحانات کی تیاری میں مصروف ہیں کیونکہ وہ اس عہدے کو سماجی خدمت کے لیے زیادہ کارآمد سمجھتی ہیں۔

بشری ٰ متین اور مسکان خان کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے۔ پہلی بات تو یہ  ہے کہ دونوں کا تعلق ہندوستان  کی جنوبی ریاست کرناٹک سے ہے۔ دونوں اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں ساتھ ہی  دیندار اور باحجاب بھی  ہیں ۔ بشریٰ متین اگر بے دین اور بے پردہ ہوتیں تو ممکن ہے کچھ ہمدردان قوم مسکان کو یہ مشورہ دیتے کہ فی الحال انہیں حجاب کے لیے لڑنے کے بجائے خاموشی سے بشریٰ متین کی مانند تعلیم پر توجہ دے کر اپنے مستقبل کو روشن کرنا چاہیے لیکن یہ حسن اتفاق ہے کہ بشریٰ متین بھی باحجاب نکل آئیں اور انہوں نے اس مفروضے کو اپنی غیر معمولی کامیابی سے ملیا میٹ کردیا کہ پردہ خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اس طرح کے احمقانہ کا دعویٰ کا جواب دلائل کے بجائے عمل دیا جائے تو مخالفین کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جس دن  ایوان زیریں کے سربراہ اوم بڑلا ، صوبائی گورنر اور وزیر تعلیم کی موجودگی میں بشریٰ کو طلائی تمغہ سے نوازہ جائے گا  اسی دن کرناٹک ہائی کورٹ تعلیم گاہوں میں  حجاب کی بابت اپنا فیصلہ سنائے گا۔

بشریٰ کا انڈپینڈنٹ اخبار کو دیا جانے والا  انٹرویو بھی کم مسکان کے ویڈیو سے کم ایمان افروز نہیں ہے۔  بشریٰ نے بتایا کہ  گولڈ میڈل کا جیتنا ان کے وہم و گمان سے پرے تھا بلکہ سول انجنیئرنگ کی پڑھائی شروع کرتے وقت تو  ٹاپ کرنے کا خیال بھی ان کو نہیں آیا تھالیکن پہلے سمسٹر اول مقام حاصل کرنے کے بعد انہوں نے محنت شروع کردی ۔اس سے پتہ چلتا ہے ایک کامیابی کا حصول نہ  صرف خود اعتمادی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اگلی کامیابی کے لیے ترغیب کا سبب بھی بن جاتا ہے لیکن اس کے لیے محنت لازمی ہوتی ہے۔ مشقت کے بغیر یکے بعد دیگرے کامیابیاں قدم نہیں چومتیں ۔انہوں نے  نہ صرف سول انجینیئرنگ کے اپنے بیچ بلکہ یونیورسٹیسے منسلک  سبھی کالجوں کے تمام  شعبوں میں اول مقام حاصل کیا ہے اور اس کا کریڈٹ وہ اللہ کی مدد و نصرت کو دیتی ہیں۔ بشریٰ متین سے جب ان کی غیر معمولی کامیابی کا راز دریافت کیا گیا تو انہوں ایک منفرد جواب دے کر سائل کو چونکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ’سبھی مسائل کا حل نماز کی ادائیگی میں ہے اور سخت محنت و تہجد میں مانگی جانے والی دعائیں ان کی اس کامیابی کا واحد راز ہے۔‘  وہ  دانشورقابلِ رحم ہیں کہ جنہیں  مسکان کے نعرۂ تکبیر کا مطلب اور بشریٰ کی سحر خیزی کے معنیٰ سمجھ میں نہیں آتے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؎

طّارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحَرگاہی

سچ تو یہ ہے کہ جو سحر خیزی بندے کو رب کی معرفت کرادے تو وہ اپنی کامیابی پر کبرو غرور کا شکار نہیں ہوتا بلکہ کہتا ہے،’’ میں اللہ کی بہت شکر گزار ہوں جس نے مجھے اتنی کامیابی اور عزت سے نوازا‘‘ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد وہ بندوں کو بھی نہیں بھولتا اور ان کی بابت یہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’ مجھ سے زیادہ خوش میرے والدین اور بھائی بہن ہیں۔میری وجہ سے یہ سب خوش ہیں لہٰذا میرے لیے اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں ہو سکتی‘‘۔ دوسروں کی خوشی سے خوش ہونا وہ انسانی صفت ہے جو اسے کینہ اور حسد جیسے علائقِ سلفی سے محفوظ و مامون رکھتی ہے۔دعاوں کے حوالے سے بشریٰ کا بیان سن کر وہ کہانی یاد آگئی کہ کسی افریقی ملک میں نماز اِستِسقا کی خاطر آنے والے سارےمصلی چھاتا اپنے ساتھ لے کر آئے جبکہ امام صاحب نے ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا۔ بشریٰ کہتی ہیں ’’میں نماز اور تہجد پابندی سے پڑھتی ہوں۔ میں نے تہجد کے وقت اپنی کامیابی کے لیے بہت دعائیں مانگی تھیں۔بس آج کی میرییہ کامیابی ان ہی دعاؤں کا ثمر ہے۔ میری اس کامیابی کا راز یہی نمازیں ہیں۔تہجد کے وقت مانگی جانے والی ہر دعا قبول ہوتی ہے‘‘۔

اس  میں کوئی شک نہیں کہ  دینی درسگاہوں نے اسلام کی بقاء اور ترویج میں بہت اہم کردار ادا کیا ہےلیکن اگر کوئی سوچتا کا دینداری صرف انہیں مدارس تک محدود ہے تو بشریٰ نے اس مفروضے کو غلط ثابت کردیا ۔ وہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’’میں نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ میری کانونٹ سکول رائچور سے حاصل کی جبکہ پرییونیورسٹی کورس پرامانا پییو کالج رائچور سے مکمل کیا۔ میں نے سبھی امتحانات میں 90 فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کیے‘‘۔ اس کے ساتھ  پورے چار سال تک  وہ حجاب پہن کر اپنے کالج جاتی رہی اور اپنی ڈگری مکمل کر لی۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ان کے خیال میں حجاب اور پڑھائی دو الگ الگ چیزیں ہیں نیزحجاب پہننا ایک  آئینی اور بنیادی حق بھی  ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔ اس کا آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور انہیں اپنے ہندوستانی  شہری اور کرناٹک کی رہائشی ہونے پر فخر ہے۔

عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کسی بڑے کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیے بغیر طلباء اچھی تعلیم نہیں حاصل کرسکتے لیکن بشریٰ نے اس خیال کو بھی غلط ثابت کردیا۔  انہیں  پرییونیورسٹی کورس کے بعد بنگلور کے نامور کالجوں میں داخلہ مل رہا تھا مگر انہوں  نے  اپنے شہر کے ایس ایل این کالج کو ترجیح دی اور وہیں سے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل کامیابی تو طالب علم کی محنت پر منحصر ہے  اوردرسگاہ کی اہمیت ثانوی  ہے۔  بشریٰ اپنے والدین کی جانب سے اپنی پسند کا کورس  کرنے کے لیے دی جانے والی آزادی  اور ان کے تعاون ورہنمائی  کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں ۔ بشریٰ متین نے  اپنے تمام مسلمان بھائی بہنوں سے اپیل کی  کہ محنت کریں، نماز پڑھیں اور اللہ پر بھروسہ قائم رکھیں کیونکہ  اللہ ہی ہے جو نا ممکن کو ممکن بناتا ہے۔ انہوں طلباء کو اپنی خوبیوں کو پہچان کر اس کے مطابق  کیریئر منتخب کرنے کا مشورہ دیا اور  سخت محنت کی تلقین کی ۔بشریٰ کی ان باتوں کے پیچھے اگر  کامیابیوں کا شاندار سلسلہ  نہیں ہوتا تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔ طلباءاور طالبات تو اس پر ضرور توجہ دیں گے ۔

بشریٰ کی کامیابی پر معاشرے کی جن  اہم شخصیات نے مبارکباد کا پیغام بھیجا ان میں بالی ووڈ کی اداکارہ سوورا بھاسکر بھی شامل ہیں  ۔ معروف سماجی کارکن سوورا   بھاسکر نے لکھا ’’مبارک ہو بشریٰ !بظاہر تعلیمی مہارت اور کامیابی  کو حجاب سے  منسلک نہیں کیا جاتا ( یعنی الگ رکھا جاتا ہے)  کیا ہمیں اس طرح کی تنگ نظر  خام خیالی سے آزاد ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب بہت آسان نہیں ہے کیونکہ  کرناٹک کے ہندو فسطائیوں نے رعنا ایوب کے انٹرویو میں حجاب پر پابندی اور مسلم خواتین کو خوفزدہ کرنے کی مخالفت پرہندوں کی دلآزاری کا  نیا مقدمہ درج کروا دیا۔  رعنا کہتی ہے سرکار اور اس کے پٹھو سن لیں کہ ایسا کرکے وہ انہیں  سچ بولنے سے نہیں روک سکتے۔  یوم نسواں کے موقع پر یہی حقیقت  اس طرح عیاں ہوئی  کہ پونے کی سمبائیاسس یونیورسٹی کی  ایک طالبہ نےاسٹیج کے قریب آکر اپنے دوپٹے کو وزیر اعظم کی موجودگی میں حجاب کی مانند لپیٹ لیا۔ ٹوئٹر  شریہ  نے لکھا کہ یہ (اپنے تشخص کی )   علامت ہے ۔ ایسے جیالےکسی سرکار  دربار سے مرعوب نہیں ہوتے  بلکہ  اپنے عمل سے ببانگِ دہل اسلام کی شہادت دیتے ہیں مگر؎

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

تبصرے بند ہیں۔