ماحولیاتی تحفظ اور اسلامی تعلیمات

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

 اس کائنات کے تمام اجزا، روشنی، ہوا، پانی، مٹی، چٹانیں، عناصر، نباتات و حیوانات وغیرہ اپنے اندر کچھ مقاصداور فوائدرکھتی ہیں اورحضرت انسان شعوری اورغیرشعوری طورپر ان سےاس طرح مستفید ہوتاہےکہ اس کی حیات وممات ان پر منحصرہے،ان کی عدم موجودگی میں  یاان سے کماحقہ استفادوہ نہ کرنےیاان کا استعمال غلط طریقے پر کرنے کی صورت میں خود انسان کی زندگی خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ اس لیے قرآن واحادیث میں ان مخلوقات  کی اہمیت بیان کی گئی ہے،ان کی نشوونمااوران کی حفاظت کی ترغیب دی گئی، انھیں بلاوجہ نقصان پہونچانے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،انسان کی یہ بھی  ذمّہ داری ہے کہ وہ حتی المقدوران مخلوقات کی بقا اور ان کی نشوونماکے لیے کوشاں بھی رہے۔

          ایندھن،شعائیں،دھواں،غلاظت،فضلات،وغیرہ ماحول کومتاثرکرتے ہیں، کچرے کے ڈھیروں،فیکٹریوں، موٹرگاڑیوں سے خارج ہونے والےزہریلی گیس،اوربجلی کی پیداوار کے چند ذرائع بھی فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق موجودہ دور کی فضاء میں ١۷۵۰ء کے نسبت ٣١%زیادہ کاربن ڈائی آکسائید جیسی مہلک گیسیں موجود ہیں۔

          جب انسان اس آلودہ ماحول میں سانس لیتاہے،تو اس وجہ سے وہ مختلف اقسام کی ذہنی و جسمانی بیماریوں سے دوچارہوتاہے، کینسرجیسی موذی بیماریاں اور پھیپھڑوں اور گلے کی پیچیدہ بیماریاں ماحولیاتی آلودگی کی پیداوارہیں۔ٹی بی الرجی،ذہنی تناؤ،سردرد،تھکاوٹ وغیرہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہیں۔

          میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرِ ماحولیات سٹیون بیرٹ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ٥سے١٠برسوں کے اعدادوشمار سے ثابت ہے کہ شرح اموات میں اضافے کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ یو این او کے ایک ذیلی ادارے کے تحقیقی سروے کے مطابق دنیا میں ہر سال تیس ملین افراد صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونیوالی بیماریوں کی وجہ سے مرتے ہیں۔اس لیے ماحولیاتی آلودگی ایک  بین الاقوامی مسئلہ بن گیاہے، جس کےحل کے لیے حکومتیں اورمتعلقہ ادارے متفکرہیں۔

          ماحول کو آلودگی سے تحفط فراہم کرنے کے لیےنباتات،پانی،ہوا،مٹی وغیرہ اہم کرداراداکرتے ہیں۔یہ ساری چیزیں ماحول کوپراگندہ ہونے سے روکنے اورانھیں صاف وشفاف رکھنے میں بھی ممد ومعاون ہوتے ہیں، اس لئےماحول کوتحفظ فراہم کرنے والے وسائل پر بحث کرتے ہیں کہ شریعت اسلامی میں ان کی کس قدر اہمیت ہے؟

انسانی زندگی کے لئےنباتات کی اہمیت:

          انسانیزندگیکیبقااورترقیکےلئےنباتات کااہم کردار رہاہے،ان کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ نباتات ہی سے ہمیں غذا حاصل ہوتی ہے، اناج ،غلّہ، پھل اور سبزیاں نباتات ہی ہیں جن کی بدولت ہم جسمانی توانائی حاصل کرتےہیں۔نباتات صرف انسانوں کے لیے نہیں، بلکہ حیوانات کے لیے بھی غذاہیں۔ قرآن کریم نے اس طرف انسانوں کو متوجہ کیاہے:ترجمہ:’’تو انسان  کو چاہئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے ،کہ ہم نے ہی خوب پانی برسایا ،پھر ہم نے ہی زمین کو اچھی طرح پھاڑ دیا ،پھر ہم نے ہی اس میں اناج،انگور ، ترکاری، زیتون اور کھجور اور گھنے باغات، اور طرح طرح کے پھل اور چارے اگائے،جو تمہارے اورتمہارےچوپایوں کے فائدےکے لئےہیں‘‘۔(عبس: ۲۴-۳۲)

          دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے:ترجمہ:اچھاپھریہ بتلاؤکہ تم جو کچھ (تخم وغیرہ)بوتے ہو،اس کوتم  اگاتے ہویاہم اگاتے ہیں،اگرہم چاہیں تو اس (پیداوار)کوچوراکردیں۔(الواقعۃ:۶٤)

          نباتات کی اہمیت کے پیش نظر حدیث میں اس کی کاشتکاری کی تعلیم دی گئی ہے اوراس پر ثواب مرتب کیاگیاہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: جب کوئی مسلمان کوئی درخت لگاتاہےیاکھیتی کرتاہے،اورپھر اس سے کوئی پرندہ یاانسان یاکوئی جانورکھاتاہے تویہ اس کےلیے صدقہ ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:٢٣٢٠)

          دوسری طرف اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے، تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔

انسانی زندگی کے لئے جانوروں کی اہمیت:

          ایک روایت میں ہے کہ گائے کی تخلیق کھیتی کے لئےبھی  ہوئی ہے،یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض جانوروں کو کھیتی کے لئے پیدافرمایاہے،گر چہ ان سے دوسراکام بھی لیاجاتاہو۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے گائے سے سواری کاکام لیا،تو گائے نےآپ ﷺ کو دیکھ کرشکایت کی کہ میں اس کے لیے نہیں پیداکی گئی ہوں، بلکہ میری تخلیق تو کھیتی کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ "،(صحیح بخاری:٢٣٢٤)

          کتےکی خباثت  کسی پر پوشیدہ نہیں ہے،نجاست سے انسیت اس جانور کی فطرت میں داخل ہے،انسان کی غلاظت جس کی خوارک ہے۔ہرکس وناکس جس کو دیکھ کر چھی چھی کرتاہے،مگر شریعت میں کھیتی کی حفاظت کے لیے اس کے پالنے کی بھی گنجائش  رکھی گئی ہے۔اس سے اندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ اسلام میں کھیت وغیرہ کی کس قدر اہمیت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ جوکوئی کتاپالےتو روزانہ اس کے عمل سے ایک قیراط کم ہوجائے گا،مگر وہ کتاجوکھیتی  اورمویشی جانوروں کی حفاظت کے لیےہو، تو اس کے پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:٢٣٢٢)

زندگی کے لیے ہوا کی اہمیت:

          ہواپرتمامجانداروں کی زندگی منحصرہے،جانداروں کے اندرہواکادخول وخروج ان کی بقاء کےلئے ضروری ہے،ہواکے بغیروہ چند منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہوامیں بھی قدرت نے آکسیجن اورکاربن ڈائی اکسائڈکا محیرالعقول نظام بنایاہے،انسان آکسیجن لیکر کاربن ڈائی اکسائڈ چھوڑتاہے، جبکہ یہی کاربون ڈاایکسائڈ نباتات کے لیے آکسیجن کاکام کرتاہےاورجو کچھ نباتات چھوڑتے وہ انسان کےلئے آکسیجن بنتے ہیں، ان کے علاوہہوا دیگر بہت سارے ضروری کام انجام دیتی ہے، مثلاً نباتات میں بارآوری اوران کی نشوونماکا عمل، بادلوں کی تخلیق اوران  کی تحلیل نیز مختلف حصوں میں ان کی منتقلی ہواہی کاعمل ہے،قرآن کریم  نے کئی جگہوں پر اس کوخدائی عطیہ قرار دیاہے۔ (الحجر۱۵:۱۹۔۲۳، البقرہ ۲:۱۶۴، الاعراف ۷:۵۷)

          انسانی صحت اور بقاء کیلئے کھلی فضاء اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے،ہوا انسانی حیات کی بقا کا انتہائی اہم فریضہ انجام دیتی ہے،سانس اورپھیپڑوں کو بیماریاں آلودہ ہواسے پیداہوتی ہیں،اس لیےاس کی حفاظت کرنااوراس کو آلودہ ہونے سے بچاناانسانوں پر واجب ہوجاتاہے،اس طرح سے وہ تمام افعال جو ہوا کو آلودہ کریں اورانسانوں کی جان اوراس کی صحت پر اثر انداز ہوں، ممنوع قرار پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیڑی اورسگریٹ پینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،کہ بظاہر یہ ایک دھواں مانند ہواہے، مگر انسان کےپھیپڑوں کوچوں کہ نقصان پہونچاتاہے، اس لیے ممنوع ہے۔

          انسان جو سانس لیتاہے وہ آکسیجن ہے، اورجو سانس چھوڑتاہے وہ کاربن ڈائی اکسائڈہے،جب کہ نباتات  اس کے برعکس سانس لیتے ہیں،وہ آکسیجن  چھوڑکرکاربن ڈائی اکسائڈ لیتے ہیں۔کاربن ڈائی اکسائڈ ایک مہلک گیس ہے، اس سے سمند ری پانی کی تیزابیت میں اضافہ ہوتاہے،جس سے ماحول متاثر ہوتاہے۔ماہرین ِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس طرح کے گیسوں کے اخراج کی وجہ سے۔زمین کی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیاہے،جس کو گلوبل وارمنگ  کہاجاتاہے۔ عام تاثر ہے کہ گلوبل وارمنگ کا بم ، جوہری بم سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک ہے؛کیوں کہ اس سےاوزن خطرہ میں پڑچکاہے،اوزن پھٹ رہاہے،اورسورج کی تپش براہ راست روئے زمین  پرپڑنے لگی ہے،جس سے مہلک امراض پیداہورہے ہیں۔کاربن ڈائی اکسائڈ جیسے مہلک گیسوں کی وجہ سے برفانی تودہ پگھل رہاہے ،جس سے سمندرکی آبی سطح بڑھ کر کئی ساحلی شہروں کوغرق آب کرسکتاہے۔انسان حیوان کے بشمول نباتات سبھی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔کاربن ڈائی اکسائڈحبس، دمہ،بلڈ پریشرفالج وغیرہ کئی مہلک بیماریوں کاسبب ہے۔اس لیےاگر نباتات زیادہ ہوں گےتو کاربن ڈائی اکسائڈ والاگیس کم ہوگاجس سے لامحالہ اوزون کی حفاظت،انسانی جانوں کو لاحق خطرات سے نجات اورپانی  کاتحفظ ہوسکے گا۔

زندگی کے لئےپانی کی اہمیت:

          انسان کی زندگی میں پانی کی بہت زیادہ اہمیت ہے، پانی سے انسان کی تخلیق بھی ہوئی ہے اوراس کے زندہ رہنے کے لئے پانی کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے، پیاس بجھانے کے لیے، کھانابنانے کے لیے،برتن اورکپڑے دھونے کے لئے،پاکی حاصل کرنے کے لیے کھیتوں کی سیرابی،درخت وپودوں کی ہریالی برقراررکھنے کے لئے پانی نہایت ہی ضروری ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ پرپانی کی اہمیت کو بیان کیاہے،اس کو اپنی قدرت ،اورانسانوں کے لیے عظیم نعمت قراردیاہے۔(الحجر ۱۵:۱۹، النور ۲۴:۴۱، طٰہٰ ۲۰:۵۳)۔

پانی کوآلودہ کرنامنع ہے:

          پانی کی اہمیت کے پیش نظرٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیاگیاہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیاہے۔(صحیح مسلم:٢۸١)پانی میں پیشاب کرنے سے منع کرنےکی یہ وجہ بھی ہے کہ اس سے پانی گندہ اورناپاک ہوجائے گااورتعفن پھیلے گا،جس کااثر ہماری صحت پر پڑے گا،دوسری طرف ایسے پانی سے استفادہ بھی ناممکن ہوجائے گااورہم اس پانی سے دیگرگندگیوں کو پاک وصاف نہیں کرسکیں گے۔اس کااثر براہ راست ہم پر اور ہمارے ماحول پر پڑے گا۔جس سے طرح طرح کی بیماریاں پیداہوں گی،پیٹ ،کڈنی،پیشاب،خون کی زیادہ تربیماریاں آلود ہ پانی کے استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے، آلودہ پانی کے ذرات کی وجہ سے خاص طورپربچوں میںدماغی بیماریاں ہوتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ٢٠١٣ءمیں دس ملین سے زائد لوگ پانی سے پیداہونے والی بیماریوں سے مر چکے ہیں، اورمرنے والوں میں اکثر بچے ہیں۔اس لیے پانی کی حفاظت کرنااوراس کو آلودہ ہونے سے بچاناضروری ہے۔

مٹّی سے ماحولیات کاتحفظ:

          ماحول کو صاف وشفاف رکھنے میں مٹی بھی اہم  کردار اداکرتی ہے،مٹی گندگیوں کواپنے پیٹ میں لیکر ہضم کرجاتی ہے، مرداروں کو اپنی آغوش میں لیکر چنددنوں کے اندرجذب کرلیتی ہےاورماحول کوتعفن سے محفوظ رکھتی ہے،اسی طرح زمین نباتات کی پیداوار کاذریعہ ہے،جس سے انسانوں کو آکسیجن فراہم ہوتے ہیں،قرآن میں کہا گیا کہ زمین جان داروں کے قیام کا ذریعہ ہے۔ (یونس ۱۰:۵۵)،اسی زمین پر انسان اپنی پسند کا گھر بناتاہے،قدرت نے اس زمین کو کہیں سخت اورکہیں نرم بنایاہے تاکہ انسان حسب ضرورت اورحسب موقعہ ان کااستعمال کرسکے،انسان اس کی پیٹھ پر سفر کرکے ایک جگہ سے دوسرے جگہ آمد ورفت کرتاہے۔سب سے بڑی فضیلت اوراہمیت زمین کی یہ ہے کہ خود انسان کی تخلیق بھی اولاً مٹّی سے ہوئی  ہے،(طٰہٰ ۲۰:۳۰)۔ زمین میں پائی جانے والی معدنیات بالواسطہ یابلاواسطہ انسانوں، نباتات اور دیگر جان داروں کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اکثر جان دار بشمول انسان اپنی غذازمین سے حاصل کرتے ہیں۔ (الحجر ۱۵: ۱۹۔۲۰)۔ اس لئے ماحول کو متاثر کرنے والی اشیاء مثلامردار،ہڈی،خون،فضلات کو مٹی میں دفن کردیاجائے تو اس سے بھی ماحول کاتحفظ بہتر طورپر ہوسکتاہے۔(جاری)

تبصرے بند ہیں۔