اردو صحافت کے دو سو سال اور ہماری ذمہ داریاں

سہیل انجم

امسال مارچ کا مہینہ اہل اردو اور بالخصوص اردو صحافیوں اور اخبارنویسوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس کے بطن سے اردو صحافت نے جنم لیا۔ اردو کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘ 27 مارچ 1822 کو کلکتہ سے جاری ہوا تھا۔ اس کا اجراءایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم ہری ہر دت نے کیا تھا۔ ان کے والد دیوان تارا چند ایک سال قبل کلکتہ سے ہی جاری ہونے والے راجہ رام موہن رائے کے بنگلہ اخبار ’سمباد کومدی‘کے منتظم اعلیٰ تھے۔ راجہ رام موہن رائے نے’مراة الاخبار‘ نام سے ایک فارسی اخبار بھی نکالا تھا۔ آگے چل کر سمباد کومدی کے مالکانہ حقوق ہری ہر دت کو حاصل ہو گئے۔ ان کے دل میں پہلے سے ہی اخبار نکالنے کی تڑپ رہی ہے۔ وہ بنگلہ، فارسی، اردو اور انگریزی میں اچھی شد بد رکھتے تھے۔ لیکن اردو کی طرف زیادہ مائل تھے۔ لہٰذا انھوں نے اخبار کے لیے دوزبانوں یعنی فارسی اور اردو کا انتخاب کیا۔ اس طرح انھوں نے ’جام جہاں نما‘ نام سے ذو لسانی ہفت روزہ نکالا۔ انھوں نے ایڈیٹر کے لیے ایک انتہائی عالم و فاصل اور مترجم و مصنف سدا سکھ لعل کا انتخاب کیا۔ یہ اخبار کئی سال تک نکلتا رہا۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ٹیپو سلطان کا فوجی اخبار اردو کا پہلا اخبار تھا لیکن اس کی کوئی فائل کہیں موجود نہیں ہے۔ اس وقت سرکاری حکم نامے فارسی میں جاری ہوتے تھے۔ لہٰذا یہ خیال بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مولوی اکرام علی نے 1810 میں کلکتہ سے ’اردو اخبار‘ نام سے اردو کا پہلا اخبار نکالا تھا۔ لیکن وائے افسوس کہ اس کی بھی کوئی فائل کہیں موجود نہیں ہے۔

اردو صحافت کے محقق جی ڈی چندن نے اس موضوع پر انتہائی عرق ریزی کے ساتھ تحقیقی کام کیا اور مختلف دستاویزات کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ جام جہاں نما ہی اردو کا پہلا اخبار تھا۔ انھوں نے جام جہاں نما نام سے 248 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تصنیف کی جسے دسمبر 1992 میں مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی نے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب اردو کے پہلے اخبار کے سلسلے میں ایک مستند حوالہ ہے۔ مولوی اکرام علی کے اردو اخبار کو اردو کا پہلا اخبار تسلیم کرتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم کی ڈائرکٹر شپ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے کلکتہ، سری نگر، پٹنہ اور ممبئی میں جشن صحافت منایا تھا۔ اس کے علاوہ کونسل کی جانب سے پانچ تا سات فروری 2016 کو دہلی میں ’اردو صحافت کے دو سو سال‘ کے موضوع پر سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ اس میں پیش کیے جانے والے مقالات کو دو جلدوں میں 2017 میں شائع کیا گیا۔ دونوں جلدوں کی مجموعی ضخامت 974 صفحات ہے۔ اسی دوران اردو صحافت کی تاریخ بھی لکھوائی گئی۔ چار صحافیوں معصوم مرادآبادی (آغاز سے 1857 تک)، فاروق ارگلی (1858 سے 1900 تک)، اسد رضا (1901 سے 1947 تک) اور راقم سہیل انجم (1948 سے 2000 تک) نے اردو صحافت کی تاریخ تصنیف کی۔ یہ چاروں کتابیں چند ماہ قبل شائع ہوئی ہیں۔ 2001 کے بعد کی تاریخ نویسی کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔

اردو ہم جیسے لوگوں سمیت جن لوگوں کی بھی مادری زبان ہے ان کو ا س بات پر فخر ہونا چاہیے کہ اس زبان کی صحافت نے اپنی زندگی کے دو سو سال مکمل کر لیے ہیں۔ ہری ہر دت اور سدا سکھ لعل نے 27 مارچ 1822 کو جس سفر کی ابتدا کی تھی وہ تادم تحریر جاری ہے اور یہ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ سفر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ روئے زمین پر اہل اردو موجود رہیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مجروح سلطانپوری نے انہی کے لیے یہ شعر کہا تھا کہ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم سرکاری سرپرستی کی تمنا کیے بغیر اس دو سو سالہ سفر کا جشن منائیں اور دنیا کو یہ بتائیں کہ گو کہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اردو کا علاقہ محدود ہوتا جا رہا ہے اور اردو پڑھنے اور بولنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی جن کی بھی مادری زبان اردو ہے وہ اسے بھولے نہیں ہیں اور اس کا قرض ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ صرف اہل صحافت ہی پر اردو کا قرض نہیں ہے بلکہ اردو ادیبوں، شاعروں، نقادوں، اردو کے استادوں اور اردو اداروں میں برسرکار افراد پر بھی ہے۔ انھیں بھی اس جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور یہ ہم پر اردو کا قرض بھی ہے۔ ہم جیسے لوگوں کی جو بھی شناخت یا حیثیت ہے وہ اردو زبان یا اس کی صحافت ہی کی مرہون منت ہے۔ صرف شناخت اور حیثیت ہی نہیں بلکہ معاش اور خاندان کی پرورش و پرداخت کا ذریعہ بھی یہی زبان ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی اعزاز، ایوارڈ، مالی منفعت یا سماجی مرتبے کی خواہش و تمنا کے بغیر اس زبان کا قرض ادا کرنا چاہیے۔ بلکہ اگر استطاعت ہو تو اس جشن اور اس زبان کی بقا کے لیے وسائل بھی مہیا کرنے چاہئیں۔ جس طرح ماں کی خدمت کسی لالچ کے بغیر کی جاتی ہے اسی طرح مادری زبان کی خدمت بھی کسی طمع کے بغیر کرنے کی ضرورت ہے۔

اردو صحافت کے ماہِ پیدائش یعنی مارچ مہینے کا آغاز ہو چکا ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ ملک کے مختلف گوشوں میں اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منانے کی تیاری چل رہی ہے۔یہ بات باعث مسرت ہے کہ صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا نے بھی 27 مارچ کو ایک پروگرام کا ڈول ڈالا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پریس کلب میں بھی اردو کے سلسلے میں سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں۔ اس نے 16 ستمبر 2021 کو مولوی باقر کے یوم پیدائش پر ایک پروگرام منعقد کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ ہر سال اس تاریخ کو مولوی باقر کو یاد کیا جائے گا اور دو نوجوان صحافیوں کو ایوارڈز دیے جائیں گے۔ ایک ادبی تنظیم بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے 25 مارچ کو کلکتہ میں اور 26 اور 27 مارچ کو حیدرآباد میں سمیناروں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ بزم صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے گزشتہ سال نومبر ہی میں دو سو سالہ جشن کے عنوان سے پٹنہ میں دو روزہ سمینار کیا تھا۔ اس میں جو مقالے پیش کیے گئے تھے ان کو ’صحافت: دو صدی کا احتساب‘ کے عنوان سے شائع کیا جا رہا ہے۔ بزم صدف کے زیر اہتمام ’صحافت (کتابیات)‘ کے نام سے دوسری کتاب بھی شائع ہو رہی ہے۔ ہر ایک کتاب کی ضخامت 650 صفحات ہے۔ مولانا آزاد اردو یونیورٹی حیدرآباد کے شعبہ ¿ ترستل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام مہینوں پر مشتمل پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس میں عالمی سمینار، دستیاویزی فلموں اور کتابوں کی نمائش اور بہت کچھ ہے۔

سینئر صحافی معصوم مرادآبادی ’اردو صحافت دو سو سالہ تقریبات کمیٹی‘ کے زیر اہتمام 30 مارچ کو دہلی میں پروگرام کا انعقاد کر رہے ہیں جس کا افتتاح سابق نائب صدر محمد حامد انصاری کریں گے۔ اس موقع پر ایک یادگاری مجلہ کی اشاعت ہوگی اور کچھ بزرگ صحافیوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی مئی میں تین روزہ سمینار منعقد کر رہی ہے۔ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے شعبہ ¿ لسانیات کے زیر اہتمام پانچ اور چھ مارچ کو سمینار منعقد ےوا۔ چھتیس گڑھ کے سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ایم ڈبلیو انصاری اپنی تنظیم ’بینظیر انصار ایجوکیشنل سوشل ویلفیئر سوسائٹی‘ کے زیر اہتمام 27 مارچ کو بھوپال میں ایک پروگرام کر رہے ہیں۔ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران اردو صحافت کے سلسلے میں کئی پروگرام منعقد کر چکے ہیں۔ یہ ذکر بھی غیر مناسب نہیں ہوگا کہ راقم السطور نے اسی موقع کی مناسبت سے روزنامہ قومی آواز کی 63 سالہ صحافتی خدمات پر ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا اجرا دہلی، حیدرآباد اور لکھنؤ وغیرہ میں ہوگا۔ اس حوالے سے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر گفتگو بھی ہوگی۔ دو سو سالہ جشن کی مناسبت سے کچھ اور پروگراموں اور تصنیفی کاموں کی بھی اطلاعات ہیں۔ یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم پورے سال اردو صحافت کا جشن منائیں اور اس کے ساتھ ہی اردو کی تعلیم و ترویج کی کوشش کریں اور اس کا آغاز اپنے اپنے گھروں سے کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔