عالمی معیشت پر کورونا وایرس کے خطرناک اثرات

کورونا وایر س نے جہاں دینا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں لی ہیں وہیں دنیا کی بہت ساری فلک بوس معیشتوں کو زمین بوس کر دیا ہے۔

پروفیسرعرفان شاہد

ابھی دنیا 2007 کی معاشی بحران سے مکمل باہر نہیں نکل پائی تھی کہ اسکو کورونا وایرس نے اپنے چنگل میں جکڑ لیا ہے۔

کورونا وایر س نے جہاں دینا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں لی ہیں وہیں دنیا کی بہت ساری فلک بوس معیشتوں کو زمین بوس کر دیا ہے۔ اس وایرس کے ذریعہ سب سے پہلے چین کی معیشت کو نقصان پہونچا ہے۔ پھر اس کے بعد اس وایرس نے اٹلی، جرمنی اور اسپین کو اپنے چپیٹ میں لیا ہے۔ ایران پہلے ہی سے عالمی پابندیوں کی وجہ سےپریشان تھا لیکن کورونا وایرس کے قہر نے اسکی معیشت کی کمر کو توڑ دی ہے۔ پھر بھی ایران بہت زیادہ پر امید ہے۔ اس نے حالیہ امریکی امداد کو بھی ٹھکرادیا ہے۔ ایران نے کورونا وایرس سے نبردآزما ہونے کیلئے ایک دوا بھی ایجاد کرلی ہے لیکن اب مستقبل ہی اس دواکی کامیابی کے معیار کوطے کر پائے گا کہ یہ دوا کتنی موثر ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ابتدا میں کسی بھی وایرٔس کاکویی معقول علاج موجود نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا  احتیاطی تدبیر ہی اس کا بہترین علاج ہے۔ اور اسکا مناسب احتیاط گھروں میں مقید ہونا ہے۔ جو ممالک اپنے عوام کو گھروں میں قید کرنے اور کورونا کے مریضوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوگیے وہ کسی حد تک معاملے پر قابو پاگیۓ ہیں۔ لیکن وہ ابھی بھی اس بحران سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے تقریبا دو سال کا ایک طویل عرصہ چاہیے۔

کسی بھی ملک کی معیشت میں  (Production)پیداوار کی مقداراور (Consumption) صرف یعنی اس پیداوار کا استعمال بہت ہی کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ عوام کو  (Quarantine) مقید کرنے کی صورت میں دونوں چیزیں متاثر ہوتی ہیں جو کسی بھی معاشی بحران کی ضامن ہوتی ہیں۔ لیکن اس صورتحال میں پیداوار اور صرف کے علاوہ ملک میں ملازمت کی شرح بھی گھٹے گی اور یہ چیز بھی ملکی معیشت کے لیے ایک خطرناک عمل ہے۔ اسکے علاوہ اگر ملازمت کی شرح ملک میں گھٹتی ہے تو لوگوں کی آمدنی متاثر ہونے لگتی ہے۔ عالمی عداد وشمار کےمطابق دنیا میں ملازمت کرنے والےلوگ زیادہ ہیں اور اس میں بھی یومیہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔

لہذا (Lock Down) لاک ڈاؤن کی صورت میںان لوگوں کے پاس نہ کو یی کام ہوگا اور نہ ہی کویی ٔ سرمایہ جس سے اپنے کھانے و پینے کا کویی معقول انتظام کرسکیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سارے لوگ بیماری سےیا افلاس سے مر جاینگے۔ اگر حکومت ایسے لوگوں کو بچانا چاہتی ہے تو اسے اپنے (Contigency Fund) خزانے کومتاثرۃ عوام کے لیے کھولنا پڑے گا جیسے امریکہ، کینڈا، اسپین، جرمنی اور برطانیہ نے اپنے عوام کے لیے کھول رکھاہے۔ امریکہ نے کورونا وایرس سے متا ثر لوگوں کے دو کھرب ڈالر کی رقم کو مختص کیا ہے۔

اسکے علاوہ دواؤں پر بے انتہا خرچ ملکی معیشت کے پرخچے اکھاڑ دیگی۔ ملک کی (GDP)مجموعی قومی پیداوار نیچے گر جایے گی۔ آمدنی کے ذرایعٔ ختم ہوجاینگے۔ لوگوں کی قوت خرید ناقص ہوجاے گی۔ کرنسی کا معیار گر جایے گا۔ اکسپورٹ اور امپورٹ گھٹ کر زیرو ہو جایے گا۔ آخر میں ملک بہت بڑے معاشی بحران کا شکار ہوجایے گا۔

دنیا میں بہت سارے ملک (Tourism)سیر وتفریح کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انکی ذریعہ آمدنی سیرو تفریح کے کاربار سے وابستہ ہے۔ اس وایرس کی و جہ سے تقریبا ایک ارب لوگوں نے اپنا سیاحتی سفر ملتوی کردیا ہے۔ اسکی وجہ سے اٹلی، جرمنی، اسپین،فرانس،ترکی،یوکے، امریکہ، کینیڈا اور متعدد یورپی ممالک کو سیکڑوں ارب روپیوں کا نقصان ہو ا ہے۔

ٹورزم انڈسٹری کے تبا ہ ہونے سے ہوٹل انڈسٹری کو بے انتہا نقصان ہوا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق ہندوستان کے ہوٹل انڈسٹری کو تقریبا ساڑھے چھ سوکروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ اعداد و شمار چارہفتہ پہلے کا ہے۔ نقصان کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ عالمی پیمانہ پر ہوٹل انڈسٹری کو ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور تقریبا چالیس لاکھ ملازمتیں ضایعٔ ہوچکی ہیں۔

اسکے علاوہ فضایی ٔ آمدورفت کی کمپنیوں کو بھی کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہےاور اسکی بھرپایی ٔ کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے۔

لاک ڈاون اور وایرس کا خوف  (Virusophobia)کی وجہ سے عالمی پیداوار (Production) شدید متاثر ہوا ہےاور اسکی وجہ سے (Crude Oil)عالمی خام تیل کی قیمتوں میںبے انتہا گراوٹ آیی ہے۔ گذستہ بیس سالوں میں اس طرح سے خام تیل کی قیمت میں گراوٹ نہیں دیکھی گیی تھی۔ کیونکہ پیداوار کے لیے مشین اور مشین کے لئے پٹرول اور ڈیزل کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہوایی ٔ جہاز سے لیکر گنے کا رس نگالنے والی مشینیں بھی کورونا وایرس کی وجہ سے بند ہوچکی ہیں۔ اس کی وجہ سے عالمی بازار میں خام تیل کے ڈیمانڈ میں بہت ذیادہ کمی واقع ہویی ٔ ہے۔ تیل نکالنے والے ملکوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور کویی بھی تیل والاملک تیل کی  (Supply)رسد کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ حال ہی میں سعودی عربیہ نے روس کو کم تیل نکالنے کا مشورہ دیا تھا لیکن روس نے سعودی عرب کے مشورے کو مسترد کردیا۔ حسب معمول خام تیل کی سپلایی ٔ جاری تھی۔ لیکن امریکن صدر ٹرمپ کے کہنے پر سعودی اور روس  نےکچے تیل کے اخراج کو کم کردیا تھا۔ ایک تخمینہ کے مطابق تقریبا یومیہ دس ملین بیرل تیل کی سپلائی میں کمی کی گیی تھی۔ اس عمل کی وجہ سے خا م تیل کی قیمت میں کچھ ٹھہرائو آیا تھا اور اس سے تیل کے پیداوار کرنے والے ملکوں میں تھوڑی سی امید کی لہر جاگی تھی کہ اچانک پھر سے خام تیل کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری رہا تو عرب ممالک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہونچ جائے گی۔ کیونکہ عرب ممالک کی معیشت خام تیل کی پیداوار پر ہی منحصر ہے۔ کورونا وایرس کی وجہ سے سعودی عرب نے اس سال حج کے پروگرام کو بھی موقوف کردیا ہے۔ یہ بھی سعودی عربیہ کی آمدنی کا ایک مضبوط ذریعہ تھا جو کورونا وایرس کی وجہ سے بند ہوگیا ہے۔ عرب ممالک میں ۶۵ فیصد کام کرنے والا عملہ غیر ملکی ہے۔ وہ اس بحران سے بغیر متاثر ہوئے نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کواپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے اور اسکے اثرات کا ظہوردنیا کے مختلف ممالک میں ہوگا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کافی زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔

کورونا وایرس کی وجہ سے عالمی تناظر میں  (Export & Import)معاشی نقل وحمل کافی حد تک متاثر ہو ا ہے۔ بہت سارے ممالک جو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے تھے انہوں نے بھی اپنی تجارتی سرگرمیوں کو مختصر کر لیا ہے۔ اس وجہ سے عالمی بازار میں (Unemployment) بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی بےروزگاری کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی کم ہو جایے گی۔ لوگوں کی (Purchasing Power) قوت خرید کمزور ہوجائے گی اور اسکی وجہ سے لوگ ضرورت زندگی سے متعلق اہم اشیاء کی خریداری نہیں کر سکیں گے۔ اور اس طرح سے بازار میں کچھ عرصے کے لیے چیزیں تو ہوں گی لیکن ان اشیا ء کے خریدار نہ ہونگے۔ رفتہ رفتہ پوری معیشت بیٹھ جائےگی۔ ہندوستان کی آبادی ایک اعشاریہ تین ارب ہے، جس میں تقریبا پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ اس پچاس فیصد میں بھی یومیہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بقیہ پچاس فیصد میں کافی مالدار، مالدار اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ اس بحران میں متوسط طبقہ بالخصوص جو درمیانی یا چھوٹے پیداوار میں مصروف ہیں کافی متاثر ہونگے۔ کیونکہ ان کے پاس بہت محدود سرمایہ ہوتا ہے۔ وہ لاک ڈاون کی وجہ سے ختم ہوجائے گا۔ بینک بھی ایسے لوگوں کو سرمایہ دینے سے کتراتا ہے۔ ویسے بھی غیر محفوظ کی ایک پڑی کھیپ تھی جو مسلسل بڑھتی ہی جلی جارہی تھی۔ اس کی وجہ سے بہت سارے بینکوں میں عدم اعتماد کی کیفیت ہوجاے گی اور درمیانی اور چھوٹے قسم کے بینک چھوٹے کاروباریوں کو قرض نہیں دینگے۔ چنانچہ پیداوا ر کی کویی صورت نہیں بن پائےگی۔ ان اداروں میں کام کرنے والے لوگ بے روزگار ہوجاینگے۔ اور اسطرح کے لوگوں کے آمدنی کے ذرایع مسدود ہوجاینگے۔ اور بے روزگاری کی شرح آسمان کو چھونے لگے گی۔ اس سے ملک کی معیشت کا ایک اہم حصہ بہت ہی زیادہ متاثر ہوگا۔ سروس سیکٹر بالخصوص کال سینٹر انڈسٹری بند ہوجاینگی۔ اچانک لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سارے معاہدے ختم ہوگیے ہیں اور مستقبل میں ختم ہوجائیں گے۔ ان کی کیا صورتحال ہوگی، قراین ایسے ہی بتا رہے کہ بہت ہی تشویش ناک ہوگی۔

ایک اور اہم المیہ ہے کہ مزدوروں کی نقل مکانی کا ہے۔ بہت سارے مزدور اپنے گھروں کو جاچکے ہیںجو آسانی سے پھر شہروں کی طرف نہیں آینگے۔ اس جو کمپنیاں لاک ڈاون کے بعد کھلیں گی تب ان کے پاس کام کرنے والے نہیں ہونگے۔ اس سے بھی پیداوار متاثر ہوسکتا ہے اور ضروت زندگی سے متعلق اشیاء کی قیمت میں چڑھائو آسکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو ا تو خوردونوش کی اشیاء میں افراط زر کی شرح بڑھ جایے گی۔

شیرٔبازار بھی دنیا کی معیشت کا ایک مربوط حصہ ہے۔ اس بازار میں اتاروچڑھائو کی وجہ سے ملکی معیشتیں ہچکولے کھانے لگتی ہیں۔ کورونا وائرس اور خام تیل کی قیمتوں میںگراوٹ کی وجہ سے دنیا بھر کے شیرٔ بازاروں میں ایک ہاہا کار سا مچ گیاہے۔ شیر ٔ کی قیمتوں میں مسلسل گرواٹ دیکھا جارہا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے شیرٔ کی قیمتوں میں لگا تا ر گراوٹ آرہی ہے۔ روزانہ سیکڑوں کروڑ روپیے کا نقصان ہورہا ہے۔ گذشتہ دس دنوں میں امریکن اکوٹی مارکٹ میں بیس کھرب ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ ہندوستان میں بھی سینسیکس تقریبا پانچ ہزار سے زیادہ گر گیا ہے۔

سونا ایک قیمتی دھات ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے ایک متبادل مارکیٹ کے طور پر کام کررہا تھا لیکن گذستہ کچھ ہفتوں سے سونے اورچاندی کی قیمت میں مسلسل گراوٹ دیکھا جارہا ہے۔ پھر اچانک اس کی قیمت میں تیزی آنی شروع ہوگئی ہے۔ معاشیات کی دنیا میں سونے کی بڑی اہمیت ہے۔ کرنسی کے تبادلے اور اسکی پرنٹنگ میں سونا ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ پچھلے نصف صدی سے سونے کو سرمایہ کاری اور کرنسی کے دایرے سے باہر کرنے کہ کوشش کی جارہی تاکہ مصنوعی کاغذی کرنسی کے ترسیل اور بقا ء میں کو یی اڑچن نہ حایل ہو۔ اور دنیا کو کچھ سرمایہ کار دنیاکو اپنے مٹھی میں رکھ سکیں۔ کئی بنکوں کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے نیزمعاشی غیراستحکام کی وجہ سے لوگوں کے پاس سرمایہ کاری کا کو یی مناسب ذریعہ باقی نہیں رہ گیاہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ اپنی محنت کی چھوٹی موٹی پونجی کو کہاں لگاییں۔ کویی آپشن باقی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گولڈ مارکیٹ کا رخ کررہے ہیں۔ بڑے سرمایہ کار بھی سونے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس وجہ سے سونے کی قیمت میں ایک اچھال آگیا ہے۔

معاشیات اور فاینانس کا ایک کلیہ ہے کہ جب امریکن بانڈ یا ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو سونے کی قیمت گھٹنے لگتی ہے۔ لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔ سونے کی قیمت بھی گھٹ رہی اور ساتھ ہی ڈالر اور امریکن بانڈ کی قیمت بھی گررہی تھی۔ معاشیات کے ماہرین کے لیے یہ بڑ ااہم مسئلہ۔ ابھی تک اس پر کسی نامور ماہر معاشیات کی رائے سامنے نہی آئی ہے۔ لیکن اس حادثہ سے دنیا کو ایک پیغام پہونچایا جا رہا ہے کہ جو ممالک سونے کو ایک متبادل کرنسی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں  جیسےملیشیاء، ترکی اور دیگر ممالک وہ ایسا کرنا چھوڑ دیں۔ ورنہ انجام بہت براہوگا۔ اور کچھ انجام کورونا وایرس کی شکل میں آپکے سامنے ہے۔ یہ صدی خوف اور ہولناکیوں کا ہے جسے ہم (Economics  of   Fear)  کہتے ہیں۔ اسکا مقصد عالمی بازار میں خوف اور ڈر کو پیدا کرنا ہے۔ پھر اسکو عالمی بازار میں سیکورٹی کے نام پر فروخت کرنا ہے۔ پہلے یہ کام برظانیہ نے کیا، بھر روس نے کیا، اوراب تک امریکہ کرہا تھا۔ اور مستقبل میںشاید چین کرےگایا چین کو یرغمال کرکے کوئی اور کرے۔

یہ عالمی معیشت کے لیے ٔ کے بہت بڑا المیہ۔ اس المیہ سے لڑنے کے لیے پوری دینا کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ انفرادی جنگ سے کویی خاطر خواہ فایدہ حاصل نہیں ہوگا۔ موجودہ معاشی بحران دینا کو ایک  (New  Economic World Order)  جدید خفیہ معاشی اصولوں کے تحت یرغمال کرنا چاہتا ہے۔ اس موضوع پر کسی ادارے کی منظم تحقیق موجود نہیں ہے لیکن مسقبل میں اسکی توقع کی جاسکتی ہے۔ جولوگ بھی روگ اکونومکس سے واقف ہیں وہ موجودہ معاشی حالات اور اسکے پیچھے کی حرکتوں سے ضرور واقف ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔