گاندھی کا آخری برت

ان کا یہ برت حقیت میں آخری برت ثابت ہوا اور بھارت میں آج بھی مسلمان سراپا احتجاج ہے۔

عمر فراہی

کسی نے لکھا ہے کہ چرچل اعلیٰ درجے کا مدبر لیکن انتہائی درجے کا متعصب قدامت پرست سیاست دان تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست میں اس کی مدبرانہ سوچ نے اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ ہٹلر اور چرچل دونوں اپنے وقت کے بہت ہی سخت قسم کے اڑیل مدبر سیاستدان تھے۔ فرق اتنا ہے کہ ہٹلر کو اپنی طاقت کے استعمال کا موقع ملا اور چرچل اس معاملے میں بدقسمت نکلا۔ جس طرح ہٹلر استعماری عزائم سے لبریز تھا چرچل اگر آزادی کے وقت برطانیہ کا وزیر اعظم ہوتا تو برطانیہ کی نوآبادیات آزاد نہ ہوتیں۔ چرچل اور ہٹلر میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ چرچل ایک یہودی ماں کا بیٹا اور پروٹسٹنٹ ہونے کی وجہ سے اسلام مخالف خیمے کا آدمی تھا جبکہ ہٹلر کتھولک ہونے کی وجہ سے یہود مخالف اور مسلم نواز تھا۔ دوسری جنگ عظیم کا حادثہ بھی اسی کتھولک اور پروٹسٹنٹ سوچ کی بنیاد پر عمل میں آیا۔

کچھ روز پہلے ایک ساتھی حفظ الرحمن نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر بہت ہی اچھا تبصرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے سپاہی یہ سوچ کر لڑتے رہے تھے کہ یہ جنگ تمام جنگوں کا خاتمہ کر دے گی۔ تاہم جنگ ختم ہونے کے بعد جو امن آیا اس نے دنیا سے ہمشہ کیلئے امن کا خاتمہ کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے حالات تو ہم نے دیکھا ہی کہ کس طرح روس اور امریکہ نے اپنی اپنی چودھراہٹ کیلئے عالم اسلام پر حملہ آور ہوکر کے امن و امان کو تباہ کیا اور کسی حد تک خود بھی تباہ ہوئے۔ جب ایک شخص ہندوستان کے موجودہ حالات کو دیکھتا ہے اور جس ہندوستانی جمہوریت اور امن کی امید کیلئے وہ اپنے اکابرین کے فیصلے اور ان کی قربانیوں کو یاد کرتا ہے تو نہ جانے کیوں اس کی نظر میں چرچل امام اور یہ اکابرین مقتدی نظر آنے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ اس فکر و نظر کا دھوکا ہو، لیکن وہ ایسا کیوں سوچ سکتا ہے جبکہ وہ اپنے مذہب اور اپنی مذہبی شخصیات کے تئیں بھی تو کہیں نہ کہیں متعصب ضرور ہے۔ جس فراست کا مظاہرہ ایک کافر نے کیا یا جو آگہی ایک کافر کو تھی مومنین اس بصیرت سے کیوں محروم رہ گئے؟ اس کا جواب بھی شاید مسلم سلطنتوں کے نگہبانوں کے زوال میں ہی ڈھونڈھا جاسکتا ہے، جو کہیں نہ کہیں اپنی مومنانہ فراست اور اخلاصِ سے محروم ہو چکے تھے اور مسلمانوں میں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جبکہ چرچل نے بہت ہی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ’’اقتدار بدمعاشوں لٹیروں اور کمینوں کے ہاتھ میں منتقل ہو جائے گا۔ یہ تمام ہندوستانی لیڈر کم ظرف اور نااہل ہوں گے۔ ان کی زبانوں میںمٹھاس اور دل میں کینہ ہوگا۔ یہ اقتدار کیلئے آپس میں لڑیں گے اور ہندوستان سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گا۔ ایک دن آئے گا جب یہ لوگ ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگا دیں گے‘‘۔

30 جنوری 1948 کو گاندھی کےقتل نے ثابت کردیا کہ چرچل صحیح تھا اور ہندوستانی سیاست کا رخ کس طرف ہو گا ؟وہی ہوگا، گاندھی کے قتل سے پہلے دلی کے جو حالات تھے اور جو آج سیاسی حالات ہیں ذرا دونوں حالات کا موازنہ کر لیں کہ کیا امن و انصاف کے حالات میں کوئی خاص تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں ؟

ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب بھارت نے آزادی حاصل کرلی میں لکھا ہے کہ جب دلی کے فساد قابو سے باہر ہو گئے اور روز ہی قتل اور لوٹ مار کی واردات کی فہرست طویل ہوتے رہی تو گاندھی جی نے اس وقت کے وزیر داخلہ پٹیل کو بلوایا اور ان سے پوچھا کہ وہ اس خوں ریزی کو روکنے کیلئے کیا کر رہے ہیں ؟پٹیل نے گاندھی جی کو یہ کہہ کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ گاندھی جی کو ملنے والی خبریں نہایت ہی مبالغہ آمیز ہیں۔ ایک دن پٹیل نے اس نظریے کو غلط ثابت کرنے کیلئے کہ ہندو فسادی ہے روز کی میٹنگ کے دوران ہمیں گورنمنٹ ہاؤس میں بلوایا کہ آئیں اور دیکھیں کہ دہلی کے مسلمانوں نے کس طرح ہندوؤں اور سکھوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میز پر باورچی خانوں میں استعمال آنے والی چھری اور جیب میں قلم تراشنے والے درجنوں زنگ آلود چاقو کے علاوہ لوہے کی سلاخیں جو پرانی عمارتوں کے جنگلوں سے نکالی گئیں تھیں اور کچھ لوہے کے واٹر پائپ رکھے ہوئے تھے جو دلی پولیس نے قرول باغ اور سبزی منڈی کے علاقوں سے برآمد کئے تھے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان کو دیکھ کر طنزیہ کہا کہ حیرت ہے مسلمانوں کی جنگی مہارت پر کہ وہ ان چاقوؤں سے دلی پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے !

اس قصے کو پڑھیں اور طاہر حسین کے گھر سے ملنے والی کچھ لوہے کی سلاخوں اور تیزاب کی بوتلوں کے بعد ان کی گرفتاری کے جواز کا اندازہ لگائیں کہ تب کے اور اب کے بھارت کے سیاستدانوں اور پولیس کی ذہنیت میں کوئی بہت واضح فرق آیا ہے تو وہ یہ ہے کہ اب کسی مسلمان کو گرفتار کرنے کیلئے ان کے خلاف الزامات کو سچ ثابت کرنےمیں الیکٹرانک میڈیا کا پروپگنڈہ بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ ابوالکلام آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ جب گاندھی جی سردار پٹیل کے اڑیل رویے سے مطمئن نہیں ہوئے تو انہوں نے برت رکھنے کا اعلان کر دیا۔ پٹیل نے گاندھی جی کے اس برت پر بہت ہی تلخ لہجے میں کہا کہ گاندھی کے اس طرز عمل سے تو ایسا لگتا ہے کہ سردار پٹیل ہی مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ گاندھی جی نے کہا اس وقت میں چین میں نہیں دہلی میں ہوں۔ میں نے اپنی آنکھ کان اور ناک کھلی رکھی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی آنکھ اور کان کی گواہی پر اعتبار نہ کروں تو یقینا نہ تو میں آپ کو قائل کر سکتا ہوں اور نہ آپ مجھے قائل کر سکتے ہیں۔ پٹیل وہاں سے غصےمیں اٹھ کر چلے گئے اور کہا کہ گاندھی اپنے اس طرز عمل سے ساری دنیا کے سامنے ہندؤوں کے نام پر کالک لگانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔

اس برت سے چونکہ گاندھی کی طبیعت بگڑ جانے کا اندیشہ تھا اس لئے گاندھی کے خیر خواہوں کی طرف سے یہ تجویز آئی کہ کیوں نہ کچھ شرائط کے ساتھ گاندھی جی کو یہ برت رکھنے سے باز رکھا جائے۔شرط رکھی گئی تو گاندھی کی پہلی شرط یہ تھی کہ ہندؤوں اور سکھوں کے حملے سے وہ تمام مسلمان جو دہلی چھوڑنے پر آمادہ ہوئے ہیں انہیں پھر سے بلا کر ان کے گھروں میں بسایا جائے۔

ابوالکلام آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے گاندھی جی کے ہاتھ پکڑ لئے اور ان سے منت کی کہ اس شرط کو انہیں چھوڑ دینا چاہئے کیوں کہ اخلاقی اعتبار سے یہ کیونکر حق بجانب ہوگا کہ دہلی میں جن ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ کرکے ایک نیا گھر بنا لیا ہے وہ پھر سے مارے مارے پھریں !اس کے بجائے وہ یہ شرط رکھ دیں کہ قتل و غارتگری فوراً ختم ہو جائے اور جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے ہیں انہیں عزت و سکون کے ساتھ رہنے کا موقع فراہم کیا جائے۔گاندھی جی نے اس طرح کچھ شرائط کے ساتھ اپنا برت تو توڑ دیا لیکن یہ بھی کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اب اس طرح کے کوئی دوسرے مسائل نہ سامنے آئیں اور یہ میرا آخری برت ہو !

ابوالکلام آزاد صاحب نے خوشی خوشی ان بیس ہزار مجمع کے سامنے جو گاندھی جی کے برت توڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے باآواز بلند ان شرائط پر عمل کرنے کا وعدہ لیا اور لوگوں سے دستخط بھی کروا لئے کہ وہ امن کو یقینی بنائیں گے۔ حالانکہ ان شرائط پر وزیر داخلہ یا حکومت کی طرف سے قانونی دستاویزات تیار ہونے چاہیے تھے مگر وزیر داخلہ گاندھی کے برت کے باوجود مستقبل کے منصوبے کے تحت ممبئی کے سفر پر روانہ ہو گئےاور ابوالکلام آزاد بھی کسی ٹھوس قانونی مطالبے کی بجائے زبانی اور جذباتی جمع خرچ پر مطمئن تھے۔ وزارت عظمیٰ اور وزارتِ داخلہ کا شعبہ آج بھی وہی چاہتا ہے کہ مسلمان اپنے کسی بھی مسئلے کیلئے قانونی اور پارلیمانی طریقے سے تحفظ کا مطالبہ کرنے کی بجائے ابوالکلام آزاد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے زبانی یقین دہانی پر مطمئن ہوجایا کرے جیسا کہ حال میں این آر سی کے تعلق سے شاہین باغ کے احتجاج پر وزیر داخلہ اپنی ضد پر قائم رہے مگر جب ایک مسلم ملک نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تشویشناک صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور ظفر الاسلام صاحب نے صرف اس ملک کا زبانی شکریہ ادا کیا تو حکومت اتنا بھی برداشت نہ کر سکی اور ان پر غداری کا مقدمہ کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے 12جنوری کے برت کے ٹھیک اٹھارہ دن بعد 30 جنوری 1948 کو گاندھی کا قتل ہو جاتا ہے اور ان کا یہ برت حقیت میں آخری برت ثابت ہوا اور بھارت میں آج بھی مسلمان سراپا احتجاج ہے۔

تبصرے بند ہیں۔