این ایس جی کی رکنیت نہ ملنے کا معاملہ۰۰۰

خوشی منانے والے وطن کے دوست نہیں ہوسکتے!

ڈاکٹراسلم جاوید
کچھ لوگ بہت خوش ہیں کہ NSG پر چین نے ہمیں دھتکار دیا اوروزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ خصوصی ملاقات میں گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اس نے عین موقع پر اپنی فطرت کے مطابق ہندوستان کو این ایس ممالک کی راہ میں روڑے اٹکاکر یہ ثابت کردیا کہ ہماری وسعت قلبی اوراظہار یگانگت پر چین ذرہ برابر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے،بلکہ اس کے ذہن و فکر میں موجو د دشمنی کادریاہنوز ٹھاٹھیں ماررہا ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور باہمی اعتماد کیلئے تیار نہیں ہے۔جن لوگوں کے دلوں میں بی جے پی اور مودی سے نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ اس ناکامی پر خوب ٹھہا کے لگا رہے ہیں۔مگر ان احمق دوستوں کو یہ نہیں معلوم کہ این ایس جی ممالک کی رکنیت مل جانے سے کسی مخصوص جماعت یا اتحاد کا فائدہ نہیں ہورہا تھا ،بلکہ اس رکنیت سے ہمارے عظیم وطن کو فائدہ ملنے والا تھا،جس کا فائدہ بلااستثنا تمام ہندوستانیوں کو ملتا۔یہاں وطن سے محبت کرنے والے کوئی بھی صاف دل شہری کومودی کی کاکردگی پر تنقید کرنے کی بجائے اس اہم مشن کی راہ میں سب سے زیادہ اڑچنیں پیدا کرنے والے چین اور ہمارے دیرینہ دشمن پاکستان کی مذمت کرنی چاہئے۔جس نے منظم طریقے سے وزیر اعظم نریندر مودی اور ہمارے ڈپلومیٹک اہلکاروں کی کوششوں پر پانی پھیرنے میں اپنی ساری توانائی صرف کردیتھی۔مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جب کوئی فرد یا جماعت ملکی مفادات کو بھی عصبیت کی عینک سے دیکھنے لگے تو وہ حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کرنے لگتا ہے۔ اپنی سیاسی دکان چمکانے والے عناصر تالیاں بجاتے ہوئے کہتے پھر رہے ہیں کہ ہندوستان کو گروپ میں شامل کرنے کی بات تو بڑی دور کی ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ این ایس جی کے دروازے سے ہی وزیر اعظم مودی کوبھگا دیا گیا۔ وطن عزیز کیلئے اس مایوس کن سانحہ کا ٹھیکرا وزیراعظم نریندر مودی کے سر پھوڑ کر اب ایسے لوگ مودی کو آؤٹ ڈیٹیڈ بتاتے ہوئے خوشگوار مستقبل کا تصور کرکے تالیاں بجا رہے ہیں،ان کا دعویٰ ہے کہ دنیاکی اس اہم تنظیم میں ہندوستان کی شمولیت اقتدار کی تبدیلی سے ہی ممکن ہوگی۔جو لوگ ایسا کہہ کر اپنی پیٹھ ٹھوک رہے ہیںیہ نہایت افسوسناک ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو اسے ہندوستان اور مودی کی ناکامی مان کر خوش ہیں، وہ بے وقوف ہیں۔البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کم اور چین کی کامیابی ضرور ہے،جس میں پاکستان کی مذموم کاکردگی سے انکار کرنے کی کوئی مناسب وجہ نہیں ہے، لیکن اس سے کیا، چین ہم سے مضبوط ہے۔ شروع سے ہی ہماری دوستی اس سے نہیں رہی ہے۔ہندو چین دونوں ہی ایک دوسرے کو شک کی آ نکھوں سے دیکھتے رہے ہیں۔اس شبہات کے ازالہ کی کبھی بھی اور کسی بھی حکومت کی کوشش آج تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی ،لیکن اصل بات تو چین کی مضبوطی ہے۔وہ تخلیق کار ملک ہے، پورے فخر اورچلینج کے ساتھ، جبکہ ہم صارفین ہیں، مکمل کمزوری اوراقدامات کی حد سے زیادہ کمی کی وجہ سے۔اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ چین میں حکمران مضبوط ہیں، فوج انتہائی طاقتور اور سدھی ہوئی ہے اور وہاں کے زیادہ تر عوام متحد ہیں۔مگر ہمارے وطن میں معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ہماری سیاسی جماعتیں قومی معاملے میں بھی اپنی سیاسی دشمنی نبھاتی ہیں۔ابھی کل کی ہی بات ہے ،اپنی سیاسی مخاصمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے نیوکلیائی سپلائر گروپ (این ایس جی) میں ہندوستان کو جگہ نہیں ملنے پر وزیر اعظم نریندر مودی کوکٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی پر تیکھی تنقید کی ہے ۔گزشتہ ہفتے بیرون ملک کے سفر پر گئے مسٹر گاندھی نے آج ٹویٹ کرکے وزیر اعظم پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ این ایس جی میں ہندوستان کا شامل نہیں ہو پانا سفارتی سطح پر مسٹر مودی کی ناکامی ہے ۔ کانگریس نائب صدر نے اس پر مسٹر مودی کامذاق اڑاتے ہوئے لکھاکہ ’’این ایس جی مذاکرات میں کس طرح ناکام ہو گئے نریندر مودی‘‘۔اس سے پہلے کانگریس نے کئی ممالک کے این ایس جی میں ہندوستان کے شامل ہونے کی مخالفت کئے جانے پر جمعہ کو مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے میں ہندستان سے کہاں چوک ہوئی، اس سلسلے میں وزیر اعظم کو بیان دے کر ملک کے سامنے پوزیشن واضح کرنی چاہئے ۔ کانگریس کے سینئر لیڈر پرتھوی راج چوان نے پارٹی کی باقاعدہ پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ این ایس جی کی رکنیت کے معاملے میں خود وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور حکومت کے دیگر نمائندوں نے زبردست امید پیدا کی تھی، لیکن نتیجہ مایوس کن ہے۔انہوں نے وزیر خارجہ سشما سوراج کے پاکستان میں دئے گئے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ جس پاکستان کا نیوکلیائی عدم توسیع کے معاملے میں ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے ، اس کو این ایس جی میں شامل کرنے میں کسی طرح کا اعتراض نہیں ہونے سے متعلق وزیر خارجہ کا بیان افسوسناک ہے اور مسٹر مودی کو اس پر خاص طور پر بیان دینا چاہئے ۔کیا راہل گاندھی اور دوسرے کانگریسی لیڈران کی مذکورہ باتیں اس جانب اشارہ نہیں کررہی ہیں کہ ہندوستان کو این ایس جی ممالک کی رکنیت نہیں ملنے سے وہ کافی زیادہ خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ایک قومی پارٹی اور وطن سے حد درجہ محبت کا دم بھرنے والی جماعت کے بڑے لیڈر کا یہی جواب ہونا چا ہئے۔کیا انہیں وزیر اعظم پر تنقید کرکے اس سوال سے چھٹکارہ مل جائے گا کہ ملک میں سب سے طویل عرصہ تک اقتدار پر قابض رہنے والی آپ کی کانگریس پارٹی نے اس موضوع پر کیا نمایاں کردار ادا کیا تھا۔یقیناًاگر اس قسم کے سوال راہل گاندھی سے پوچھے جائیں تو ان کی بولتی بند ہوجائے گی۔یہاں ہو ناتو یہ چاہئے تھا کہ ہماری رکنیت کی را ہ میں رکاوٹ بننے والے ممالک کی مذمت کی جاتی اور حکومت کوششوں کو تائیدی نظروں سے دیکھا جانا چاہئے تھا،مگر صرف اقتدار حاصل کرنے کیلئے داؤ پینچ کھیلنے والی جماعتیں اسے کبھی بھی قبول نہیں کرسکتیں اور نہ کسی بھی مثبت کا م کی حمایت کرسکتی ہیں۔ نیوکلیائی سپلائر گروپ (این ایس جی) میں جگہ حاصل کرنے کی ہندستان کے سفارتی کوششوں کو کامیابی نہیں ملی اور چین اور بعض دیگر ممالک کی مخالفت کے سبب فیصلہ اگلی میٹنگ تک کیلئے ٹال دیا گیا ۔جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں آج این ایس جی کی دو روزہ مکمل اجلاس ہندستان کی رکنیت کے معاملے پر بغیر کسی اتفاق کے ختم ہو گیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے چین کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک ملک کی جانب سے مسلسل مخالفت کی وجہ سے ہندوستان کو48ممالک کے اس گروپ میں اس بار بھی جگہ نہیں مل پائی۔ خبر ہے کہ چین کے علاوہ چھ دیگر ممالک نے بھی ہندستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ کل کی ملاقات میں چین کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ سیول میں چین کے اہم مذاکرات کارمسلسل اپنے موقف پر قائم رہے ۔ گروپ میں ہندستان کی رکنیت کی دعویداری کی حمایت کو مہمیزلگانے کے لئے سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر سیول پہنچے تھے، لیکن ان کی کوششوں کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔مسٹر سوروپ نے تاشقند میں جاری بیان میں کہا کہ ہندستان کو این ایس جی میں شامل کرنے کے مسئلے پر ایک خاص ملک کی جانب سے مسلسل رکاوٹوں کے باوجود اجلاس میں تین گھنٹے تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ مستقبل میں ہندستان کی رکنیت پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ این ایس جی کی توسیع کا جو مطالبہ ہندستان کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے ، وہ غیر معقول نہیں ہے ۔بہر حال موقع ابھی ہاتھ سے گیا نہیں ہے ہمارے خارجہ ڈپلومیٹ اور وزیر اعظم کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے ،اس لئے کہ کسی کی محنت ضائع نہیں ہوا کرتی،ایک نہ ایک روز ضرور رنگ لاتی ہے ،ہمیں امید ہے کہ آج نہیں تو کل ہماراوطن این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائے گا،اس وقت مذاق اڑانے والوں کا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگا نامشکل ہے۔البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انہیں منہ دکھانے کی ہمت مشکل سے جٹانی پڑے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔