شبِ قدر اور مسلم معاشرہ

اسامہ شعیب علیگ

شبِ قدرسے مراد رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں شب ۔قرآن مجید نے شبِ قدر کو ایک ہزار راتوں سے بہتر قرار دیا ہے اور ہزار مہینوں سے مراد اس دنیا کے رائج 83 سال 4 مہینہ نہیں ہیں بلکہ سالہا سال پر مشتمل طویل مدت ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزار مہینوں کے شب وروز کی عبادت سے جتنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالی کی قربت حاصل ہوتی ہے ،وہ اس ایک رات میں حاصل ہو جاتی ہے ۔
وجہ تسمیہ :اس کے نام کے سلسلے میں مختلف توجیہ بیان کی جاتی ہے ۔جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
*قدر کے معنی تقدیر اور حکم کے ہیں۔اس رات تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے ،اس کا جو حصہ اس رمضان سے آئندہ رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذِ امور کے لیے مقرر ہیں۔اس لیے اس رات کا نام لیلۃ القدر رکھا گیا۔
*قدر کے ایک معنی عظمت و شرافت کے بھی آتے ہیں ،چونکہ یہ رات عظمت و شرافت والی ہے اس لیے اس کا نام لیلۃ القدر رکھا گیا۔
*قدر کے ایک معنی تنگی کے آتے ہیں اور اس رات فرشتے اتنی کثیر تعداد میں زمین پر اترتے ہیں کہ جگہ تنگ پڑ جاتی ہے اس لیے اس کو لیلۃ القدر کہا گیا۔
شبِ قدر میں انجام پانے والے امور:روایتوں میں آتا ہے کہ اس مبارک رات میں مختلف امور انجام پاتے ہیں جیسے اسی رات جنت میں درخت لگائے گئے ،اسی رات قرآن کریم لوحِ محوظ سے آسمانی دنیا پر نازل ہوا،اسی رات ملائکہ کی پیدائش ہوتی ہے ،اسی رات ملائکہ نازل ہوتے ہیں،یہی وہ رات ہے جو سراپا سلامتی ہے ، اسی رات اللہ تعالی کی رحمتِ خاصہ نازل ہوتی ہیں اور اسی رات میں دعائیں بکثرت قبول ہوتی ہیں وغیرہ ۔
شبِ قدر کی فضیلت :حضرت امام مالکؒ اپنی کتاب موطا میں روایت کرتے ہیں بنیِ کریم ﷺ کو پچھلی امتوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو شاید آپ ﷺ کواپنی امت کی عمروں کو بہ نسبت ان کے کم دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ میری امت کے لوگ عمل کے اس درجے تک نہیں پہنچ سکیں گے جس پرسابقہ امتوں کے لوگ پہنچے ہیں تو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو شبِ قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے(جس میں عبادت کرنے کا ثواب برسہا برس کی عبادت کے اجر و ثواب کے برابر ہے)ارشادِ ربانی ہے:
انا انزلناہ فی لیلۃالقدر۔وما ادراک ما لیلۃ القدر۔لیلۃ القدر خیر من الف شھر۔تنزل الملٰئکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر۔سلٰم ہی حتی مطلع الفجر(القدر:1،5)
’’ہم نے اس(قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے ۔اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک‘‘
اس حدیث سے بھی ہم اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا! جو شخص شبِ قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ کھڑا ہو (یعنی اس رات میں نفل پڑھے )تو اس کے پہلے کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے(بخاری:1؍270)
خیال رہے کہ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں اور کبیرہ گناہ بغیر متعین توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں ، اس کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ ایک مومن کی شایانِ شان بات نہیں ہے کہ وہ کبیرہ گناہ کرے اور پھر تائب نہ ہو۔عہدِ نبوی میں اس کا تصور ہی نہیں تھا۔کبیرہ گناہوں کو بے فکری سے بطور عادت اپنا لینا اور فسق و فجور پر مطمئن رہنا منافق کا کام ہے۔ایک مسلم کی شان یہ ہے کہ اولاً تو کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو اور اگر شیطان اس سے ایسی حرکت کرا بھی دے تو فوراً اس سے تائب ہو جائے اور ندامت کے آنسو سے گناہ کو دھو ڈالے۔
شبِ قدرکی پہچان:اللہ تعالی نے اس کو باقاعدہ متعین طور پر نہیں بتایا ہے بلکہ بعض قریب ترین اشاروں سے رہنمائی کر دی ہے۔ حدیث نبوی ہے : آپ ﷺ نے فرمایا کہ شبِ قدر تلاش کرو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں، اس رات کی خا ص پہچان یہ ہے کہ اس صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاعیں نہیں ہوتی ہیں(مسلم:762)
بعض لوگ اس سے مراد رمضان کی ستائیسویں شب لیتے ہیں لیکن یہ متعین طور سے نہیں کہا جا سکتا ۔اس کو مبہم رکھنے میں غالباً اللہ تعالی کی یہ مصلحت ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کم از کم پانچ راتوں میں انسان اس کی عبادت کا خاص اہتمام کرے ۔
شبِ قدر کی دعا: حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے میں نے پوچھا کہ اگر مجھے شبِ قدر کا معلوم ہو جائے تو میں اللہ تعالی سے کیا مانگوں؟آپ ﷺ نے فرمایا عرض کرو کہ:الھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ’’ائے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے‘‘(ترمذی)
شبِ قدر میں کیا کریں:ان راتوں میں نفلی نماز ،قرآن کی تلاوت مع ترجمہ،احادیث و دینی کتب کا مطالعہ،ذکر و دعا،توبہ استغفار، وغیرہ کا بطور خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ نبی کریمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت اور دوسرے نیک کاموں میں خود بھی اہتمام کرتے تھے اور اپنے اہل و عیال اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے:حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں جس قدر محنت و مشقت سے عبادت کرتے دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے(مسلم:1175)
آج ہم مسلمانوں کی اکثریت اس سے غافل ہے ۔اگر خود عبادت کرتے بھی ہیں تو اپنی بیوی اور بچوں کو اس کی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں کہ جانے دو ،بیوی دن بھر کام کاج میں لگی ہوئی تھی تو تھک گئی ہوگی یا بچے اتنے گرم موسم میں روزہ رکھ رہے ہیں اور اسی حالت میں اسکول جانا ہوتا ہے تو نیند خراب ہو گی اور اس سے پڑھائی متاثر ہوگی ۔لیکن اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دنیا ہی کل نہیں ہے ۔آخرت کی زندگی ہی دائمی زندگی ہے اور اسی میں اصل کامیابی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچا سکیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :یٰا ایھا الذین اٰمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا و قودھا الناس و الحجارۃ(التحریم:6)’’ائے لوگو جو ایمان لائے ہو،بچاؤ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘ حضرت عمرؓ نے پوچھا یا رسولؐ اللہ خود کو تو جہنم سے بچاناسمجھ میں آ گیا لیکن گھر والوں کو کیسے بچائیں؟آپ ﷺ نے فرمایا!جس سے تم کو منع کیا گیا، ا ن کو منع کرواور جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ،اس کا تم انھیں بھی حکم دو۔ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا!قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ ہوگا جو اپنے گھر سے بے خبر رہا(روح المعانی:28؍156)
لیکن ہمیں اس کی عموماً فکر نہیں ہوتی ہے ۔اولاد کی پڑھائی کے سلسلے میں یا ان کے نمبرات کم آنے پر محاسبہ ضرور کیا جاتا ہے مگر نماز،روزے اور عبادات کے معاملے میں کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوتی یا ہوئی بھی تو رسمی طور سے اور پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ کیا کریں صاحب!اولاد تو ہماری سنتی ہی نہیں۔لیکن اسی اولاد کو پڑھائی یا کاروبار کے سلسلے میں خوب ’سنایا‘ جاتا ہے۔
ہم میں سے اکثرکا آخری عشرے کے آتے آتے سارا جوش ختم ہونے لگتا ہے اور عید کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔خاص کر لڑکیوں اور خواتین کے آخری دس دن بازاروں کے چکر کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ رمضان خریدوفروخت،بازاروں میں چلنے پھرنے،نئے نئے کپڑوں،چوڑیوں اور جوتیوں کی تلاش کا مہینہ ہے ،انھیں کے لیے سوچتی ہیں،تلاش کرتی ہیں،ذہنوں میں نقشہ بناتی ہیں اور انھیں میں مشغول رہتی ہیں۔پھربازاروں میں مردوں اور عورتوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ شانے سے شانے ٹکراتے ہیں،بے پردگی ہوتی ہے اور آپس میں اور دکانداروں سے بھی غیر ضروری ہنسی مذاق ہوتا ہے (یہ سب روزے کی حالت میں ہوتا ہے)اوردن بھر بازار کے چکر کاٹ کر جب گھر لوٹتی ہیں تو کھانے پکانے میں جت جاتی ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھکان کی وجہ سے آخری عشرے میں عبادتوں کا اہتمام نہیں ہو پاتا ہے ،جس کی وجہ سے بہت حد تک ممکن ہے اللہ تعالی کی ان رحمتوں و برکتوں سے محروم رہ جائیں جو آخری عشرے کی طاق راتوں میں نازل ہوتی ہیں۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا!شبِ قدر میں حضرت جبرئیلؑ فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور اللہ کے جو بندے کھڑے یا بیٹھے عبادت اور ذکرِ الہی میں مشغول ہوتے ہیں،ان کے لیے خیر و رحمت کی دعا کرتے ہیں(مشکوۃ).
اس لیے بہتر ہے کہ رمضان سے پہلے یا شروع ہی میں شاپنگ کر لی جائے تا کہ جب ’مزدور‘ کو ’مزدوری‘ ملنے کا وقت آئے تو وہ غفلت میں نہ ہوں۔
مہمان نوازی مسلم معاشرے کی پہچان ہے لیکن اس میں اعتدال ضروری ہے اور اس میں نیت کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔بعض لوگ جھوٹی شان اور نام ونمود کے لیے بڑی بڑی افطار پارٹیاں کرتے ہیں ،اس سے اجر ضائع ہو سکتا ہے اور یہ کہ گھر کی عورتوں کو مشکل پیش آتی ہے اور ان کو شبِ قدر میں نماز و اذکار اور عبادات کا وقت نہیں مل پاتا۔
شبِ قدر کی تراویح یا ایسے بھی عورتوں کا مسجد میںآکر نماز پڑھنے کا رجحان ادھر کچھ دنوں سے بڑھا ہے۔حالانکہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اسلام نے ان کو مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے ،مگر ساتھ میں کچھ شرطیں بھی لگائی گئی ہیں۔جیسے ان کا راستہ الگ ہو،سادہ کپڑوں میں ہوں ،پردے کا اہتمام ہواور خوشبونہ لگائی ہووغیرہ ۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جو عورت مسجد میں آنا چاہے تو وہ خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگائے(ابوداؤد:245) آج کے دور میں اس کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔عورتیں یا لڑکیاں بناؤ سنگار ،خوشبو میں بسی ہوئیں اور بے پردہ آتی ہیں (الاما شاء اللہ)یہ کام آپ ﷺ کی وفات کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا ،اسی کو دیکھتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اگر موجودہ دور کی بناؤ سنگار کرنے والی خواتین کو دیکھتے ،تو انھیں مسجد میں آنے سے روک دیتے،جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں(مسلم:246)
شبِ قدر میں مردوں کی طرف سے نمازوں کا اہتمام ہوتاضرور ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے یا بگاڑ آنے کی وجہ سے دیکھا جاتاہے کہ لوگ مسجدوں کے باہر جمگھٹا لگائے رہتے ہیں ،چائے،کافی ،سگریٹ اور جلیبی وغیرہ کا دور چلتا رہتا ہے اور ہنسی مذاق ،ٹھٹول اور ایک دوسرے کی غیبت کر کے ’ٹائم پاس‘ کیا جاتا ہے ۔زیادہ وقت باہر اور تھوڑا وقت مسجد کے اندر گذرتا ہے۔اس سے جتنا ثواب نہیں ملتا اس سے زیادہ گناہ مل جاتا ہے۔اگر نماز پڑھ چکے ہوں تو گھروں کو واپس ہو جانا چاہیے،نہ کہ مسجدوں کے باہر ’بازاری مجمع‘ لگانا چاہیے۔ مسجد کے اندر یا باہر کھڑے ہو کر ہنسی مذاق کرنے یا غیبت کرنے سے نہ صرف گناہ ملتا ہے بلکہ اس سے غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمان ،دونوں کا غلط پیغام جاتا ہے۔
انسان کو اپنی استطاعت بھر ہی کام کرنا چاہیے ۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں حولاءؓ بنت تویت ان کے پاس سے گزریں تو میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یہ حولاءؓ بنت تویت ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر سوتی نہیں (عبادت کرتی ہیں)آپ ﷺ نے فرمایااس قدر عمل اختیار کرو جس قدر تمہیں طاقت ہو، قسم ہے اللہ کی تم تھک جاؤ گے اور اللہ (اجر و ثواب دے کر)نہیں تھکے گا(مسلم:378)
ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ شبِ قدر میں سحری کھا کے نیند کی وجہ سے سو جاتے ہیں اس سے ان کی فجر کی نماز’ گول‘ ہو جاتی ہے،جب کہ فرض نماز مقدم ہے اور اس کے بعد نفل نماز ہے۔اس لیے اس سے اجتناب کرنا ہوگا۔
اسی ضمن میں ایک بات یہ بھی ہے کہ تراویح کی نماز میں لوگ پہلی رکعت میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب امام رکوع میں جاتے ہیں تو نماز میں شامل ہو جاتے ہیں ۔نوجوان نسل زیادہ ایسا کرتی ہے اور اس دوران آپس میں گپ شپ،ہنسی مذاق ،فیس بک اور چیٹنگ کی جاتی ہے ۔اس سے دو نقصان ہوتا ہے ،اول یہ کہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوم یہ کہ اس کی وجہ سے صف بندی کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔جب کہ حدیثِ نبوی ہے :جابر بن سمرؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایاتم صفیں ویسے کیوں نہیں بناتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے یہاں بناتے ہیں؟ہم نے کہا:فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں؟آپﷺ نے فرمایاوہ پہلے ابتدائی صفیں مکمل کرتے ہیں اور آپس میں جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں(ان کے درمیان کوئی خلانہیں رہتا)داؤد:661۔
ہم لوگ ’کولر یا پنکھے‘ ہی کے سامنے کھڑے ہونا چاہتے ہیں،اگر صف نامکمل ہے تو ہوا کرے ۔ ان سب سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
ان سب باتوں کا خیال رکھ کے ہم اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں ۔ہم سب کو اللہ تعالی توفیق دے۔

تبصرے بند ہیں۔