چیپل ہل کا واقعہ اسلام فوبیا یا مسلمان دشمنی؟

 آج اسلام فوبیا کا عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اس مرحلے میں اسلام کی حقیقت پر حملوں کے علاوہ مسلمانوں کی موجودیت، تشخص اور طرز زندگی کی بھی نفی کی جا رہی ہے۔ امریکہ میں چیپل ہل کے واقعے کو اسلام فوبیا اور مسلمان دشمنی کی اس نئی لہر کی نشانی قرار دیا جا سکتا ہے۔  یورپ اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ مرحلہ معمولی اسلام فوبیا سے زیادہ شدید ہے کیونکہ ہم اسلام فوبیا اور اسلام دشمنی پر مبنی فضا کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کا آغاز تحریف سے ہوتا ہے اور مسلمانوں کے مقدسات کی توہین سے ہوتے ہوئے مسلمانوں کی نفی پر منتہی ہوتا ہے۔

اسلام فوبیا کی سازش کا مقصد مغربی عوام سے اسلام کی صحیح پہچان کی صلاحیت کو سلب کرنا ہے، تاکہ ایک طرف تو مغربی ممالک کے شہری اسلام کے حقیقی اور پرکشش چہرے سے آشنا ہونے کی بجائے اسلام کے بگڑے ہوئے چہرے سے آشنا ہوں اور دوسری طرف لبرل ازم اور کمیونزم جیسے شکست خوردہ اور کھوکھلے مکاتب فکر کے مقابلے میں اسلام جیسے متبادل مکتب فکر کو صفحہ ہستی سے مٹا سکیں۔ لہذا اس مرحلے پر اسلام دشمن قوتوں کی کوشش ہے کہ وہ اسلام کو ایک شدت پسند اور ناپسندیدہ مذہب کے طور پر پیش کرکے اسے مغربی عوام کیلئے ایک بڑا خطرہ اور دشمن ظاہر کریں۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کو امتیازی رویوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

 حجاب اور پردے کے خلاف سماجی امتیازی سلوک سے لے کر مسلمانوں کو دوسرے معاشرتی حقوق سے محروم کرنے تک۔ لیکن یہ اقدامات نائن الیون حادثات کے بعد مزید شدت اختیار کر گئے اور حال ہی میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شدید ہوچکے ہیں۔ ہم آج ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں، جب اسلامی بیداری کی روز بروز بڑھتی ہوئی موج نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریک ایران کی مرکزیت میں اسلام کی عظیم تہذیب و تمدن کو احیاء کرکے دنیا میں نئی قطب بندی ایجاد کرنے والی ہے۔  چارلی ہیبڈو پر حملے کو مسلمانوں کے خلاف دشمنانہ اقدام کا منشاء اور پہلی سیڑھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ درحقیقت اس میگزین میں اسلامی مقدسات کے بارے میں توہین آمیز مطالب شائع ہونے اور مسلمانوں اور اسلامی ممالک کی جانب سے فرانس اور مغربی ممالک کو خبردار کئے جانے کے باوجود تقریباً تمام مغربی ممالک کے حکام اس توہین آمیز اقدام کی حمایت کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں بعض ایسے مسلمان افراد بھی ہیں، جو اسلام کی توہین کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینا چاہتے ہیں۔

 لہذا انہی افراد پر مشتمل ایک گروہ نے یہ اقدام انجام دیا، اگرچہ اس اقدام میں ملوث افراد کے بارے میں کافی ابہامات پائے جاتے ہیں۔ میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ اسلامی مقدسات کی توہین کرنے والوں کو مسلمانوں کی وارننگ پر توجہ دینا چاہئے تھی اور وہ ان شدت پسندانہ اقدامات میں خود قصوروار ہیں۔ ان اقدامات کے بعد بھی بجائے اس کے کہ ان سے عبرت حاصل کرتے اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اقدامات سے گریز کرتے، انہوں نے بے شرمانہ حرکت کرتے ہوئے توہین آمیز کارٹون پر مشتمل میگزین کے ہزاروں نسخے دوبارہ شائع کر دیئے اور یورپی حکام اور حتی امریکی صدر براک اوباما نے بھی اس کی کھلی حمایت کر دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں مسلمانوں کی طرف سے زیادہ شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ دوسری طرف چارلی ہیبڈو حادثے میں ہونے والی قتل و غارت نے بعض مغربی افراد کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات پر اکسا دیا ہے۔ بہرحال، آج ہم جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ صلیبی جنگ والے زمانے سے مشابہت رکھتی ہے۔

درحقیقت تہذیبوں کی جنگ دین کے خلاف جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے اور یہ وہ امر ہے جو مغربی طاقتوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انجام دیا ہے۔ لہذا اس کے ممکنہ منفی اثرات کے ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی مسلمانان عالم باہمی اتحاد اور اس کے نتیجے میں طاقتور ہونے کے قریب ہوتے ہیں، اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے جارحانہ اقدامات اور سازشوں کا نشانہ بنے ہیں۔ اکثر اوقات ان جارحانہ اقدامات اور سازشوں کی منصوبہ بندی اور اجراء امریکی حکومتی اداروں جیسے سی آئی اے اور ایف بی آئی، اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد اور برطانوی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے انجام پایا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف سیاہ فام مسلمان رہنما میلکم ایکس کا قتل۔ (میلکم ایکس کا نواسہ ایران آکر اپنے دادا کی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتا تھا لیکن اسے بھی قتل کر دیا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ان کا قتل میکسیکو میں ذاتی جھگڑے کے دوران انجام پایا)۔ دوسری طرف مغربی حکام نے مسلمانوں کو غیر مہذب اور وحشی ظاہر کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بےشمار دہشت گردانہ اقدامات اور ناگوار واقعات کی حقیقی ذمہ داری ان مغربی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ پر عائد ہوتی ہے جو اسلام فوبیا کی ترویج میں مصروف ہیں۔ انہیں حکومتوں اور ذرائع ابلاغ کی سرگرمیاں عالم اسلام میں عجولانہ اور غیر منطقی ردعمل ظاہر ہونے کا باعث بنتی ہیں۔

 اسلام فوبیا کا منصوبہ کئی پروپیگنڈہ مہموں پر مشتمل ہے جو امریکی حکام، سینیٹرز، سیاسی پارٹیز اور شدت پسند شخصیات کی جانب سے انجام پا رہی ہیں۔ حتی بعض مغربی شدت پسند حلقوں نے مکہ مکرمہ یا ایران پر جوہری بم سے حملہ کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ اگرچہ یہ شدت پسند حلقے بھی اس وقت چیپل ہل امریکہ میں قتل ہونے والے مسلمان اسٹوڈنٹس سے اظہار ہمدردی اور اس دہشت گردانہ اقدام کی مذمت کر رہے ہیں، لیکن ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس واقعے کو صرف ذاتی دشمنی تک ہی محدود کر دیں اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدام کے زمرے سے باہر نکالیں۔ اسی طرح ان کی طرف سے اس واقعے کی مذمت صرف الفاظ کی حد تک ہے اور وہ مجرم اور قاتل افراد کے خلاف فیصلہ کن عدالتی کارروائی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام دشمنی صرف امریکہ کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں جیسے ریپبلیکن پارٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی اس مذموم امر کے اثرات قابل مشاہدہ ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں طاقت کے تمام مراکز، میڈیا اور سیاسی پارٹیوں پر صہیونی عناصر کا مکمل قبضہ اور اثرورسوخ ہے اور ہمیں ہرگز یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ امریکہ میں طاقت کے حصول کی بنیادی شرط طاقتور صہیونی لابی کی ہاں میں ہاں ملانے پر مبنی ہے۔ مغربی ممالک مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ توہین آمیز، جارحانہ اقدامات اور ایک قسم کی جدید صلیبی جنگوں (جو اسلام کے خلاف شروع کی گئی ہیں) کے مقابلے میں خاموشی اختیار کریں۔ مسلمانوں کی جانب سے ایسے جارحانہ اور توہین آمیز اقدامات کے مقابلے میں ردعمل ظاہر کرنا ایک فطری امر ہے۔

 اگرچہ ممکن ہے بعض اوقات یہ ردعمل مناسب نہ ہو، لیکن جب بھی کسی کے مقدسات کے خلاف ایک توہین آمیز اقدام انجام پاتا ہے تو اس کی جانب سے ردعمل ظاہر ہونے کی بھی توقع رکھنی چاہئے۔ لہذا امریکہ میں مسلمان اسٹوڈنٹس کا قتل (جس میں تین مسلمان اسٹوڈنٹس کو قتل کر دیا گیا یا ایک اسلامی مرکز کو آگ لگا دی گئی) یا مغرب میں مسلمانوں اور باحجاب مسلمان خواتین کے خلاف جارحانہ اقدامات عالم اسلام میں مختلف ردعمل پیدا ہونے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ردعمل امریکی یا مغربی شہریوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں بسنے والے مسلمان شہری عدم تحفظ کا احساس کر رہے ہیں کیونکہ چیپل ہل جیسا دہشت گردانہ اقدام ہر لمحہ دہرایا جاسکتا ہے یا کوئی اور مجرمانہ اقدام انجام پاسکتا ہے۔

 میری نظر میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ میڈیا اور بین الاقوامی برادری میں اسلام فوبیا کی صورت میں جاری اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کو انسانیت کے خلاف جرم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیں، کیونکہ چیپل ہل جیسے دہشت گردانہ اقدامات اسلام فوبیا کا نتیجہ ہیں۔ مغربی دنیا کو اس نکتے پر توجہ دینی چاہئے کہ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز دوسروں کے مقدسات کی توہین نہیں۔ آزادی اظہار کو دوسروں کے مذہبی اعتقادات اور مقدس امور کی تضحیک اور توہین کا بہانہ قرار دینا تہذیبوں کے درمیان ٹکراو اور مختلف مذاہب کے درمیان جنگ کا زمینہ فراہم کرسکتا ہے۔ شدت پسندی کی فضا تمام محترم اور پڑھے لکھے افراد کیلئے وارننگ ہوسکتی ہے، تاکہ وہ ہوشیار ہو جائیں اور مغرب کی میڈیا یلغار اور پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں۔

 اس فضا کے پیش نظر پہلے تو مسلمانان عالم کو چاہئے کہ وہ مغرب میں مقیم مسلمان اقلیت کی حمایت میں متحد ہوجائیں۔ دوسرا یہ کہ مغرب میں موجود اسلام فوبیا کے مخالف حلقوں کی مدد سے شدت پسند حلقوں کے خلاف ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان افراد کو جو مسلمانوں کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کے مشورے دیتے ہیں، بین الاقوامی اداروں اور عالمی رائے عامہ میں جنگی مجرم کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ سے مختلف تہذیبوں، مذاہب، حکومتوں اور اقوام کے درمیان گفتگو اور بات چیت پر تاکید کی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات اور اسلام فوبیا کی سازشوں سے بھرے اس ہنگامی دور میں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مسلمہ حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای کی جانب سے یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں کے نام خط لکھے جانا حقیقی معنوں میں نجات کی جانب راستے کی نشاندہی ہے۔ یہ راستہ مغربی اور صہیونی پروپیگنڈے سے محفوظ رہ کر اسلام کو حقیقی انداز میں پہچاننے اور حقیقی اسلام سے آشنائی کو ممکن بنانے میں مضمر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔