جوش ملیح آبادی

ان کا حقیقی نام تو شبیر حسن خان تھا مگر دنیا انہیں جوش ملیح آبادی کے نام سے جانتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شاعر بننے کی تمنا کبھی نہیں کی بلکہ شعر خود ان کی تاک میں رہتے تھے، وہ شاعری کے پیچھے نہیں بھاگے تھے بلکہ شاعری نے دبے قدموں سے ان کا تعاقب کیا اور انہیں پکڑ لیتی ۔ وہ 5 دسمبر 1898ء کو ملیح آباد میں آفریدی پختون نواب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جوش خود اپنی آب بیتی ’’یادوں کی بارات میں لکھتے ہیں کہ:

میری نو برس کی جان اور شاعری کے میلان پر تعجب نہ فرمائیے۔ ذرا سوچئے کہ وہ بچہ جس کا باپ بھی شاعر ہو، دادا بھی شاعر ہو، دو سوتیلے چچا بھی شاعر ہوں، بڑی پھوپھی، بڑی بہن اور بڑا بھائی بھی شاعر ہوں، جس کا حقیقی ماموں بھی شاعر ہو، جس کے باپ کا ماموں بھی شاعر ہو، جس کی دادی مرزا غالب کی قرابت دار ہوں اور اردو، فارسی کے اشعار بر محل سناتی ہوں، جس کی انا خالص لکھنوی ہو اور رات کے وقت ’’کھلی ہے کنج قفس میں میری زبان صیاد‘‘ کی لوری دے دے کر اس کو سلاتی ہو۔ جس کے گھر میں آئے دن لکھنو کے شاعر آتے جاتے ہوں اور ہر تیسرے چوتھے ماہ مشاعرے ہوتے رہتے ہوں۔جو شعراء کے دیوانوں میں پتنگ اور گولیوں سے کھیل کر پروان چڑھا ہو وہ شعر نہیں کہے گا تو کیا کرے گا؟

یوں تو نو برس کی عمر سے ہی شعر کی دیوی نے مجھے آغوش میں لے کر مجھ سے شعر کہلانا شروع کردئے تھے، لیکن آگے چل کر جب شاعری سے میرا انہماک بڑھنے لگا تو شاید اس خیال سے کہ اگر میں شاعری میں ڈوب گیا تو میری تعلیم ناقص رہ جائے گی میرے باپ کے کان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ؛

’’ خبردار اب اگر تم نے شاعری کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا اور اس کے ساتھ انہوں نے زنانے میں بوا گلزار اور مردانے میں داروغہ امید علی کو مامور فرمایا کہ جب بھی مجھے شعر کہتے دیکھیں تو ان کی جناب میں رپورٹ پیش کریں۔ باپ کے اس حکم امتناعی اور زنانہ و مردانہ خفیہ پولیس کے تقرر نے مجھ کو بوکھلا دیا‘‘

اردو شاعری اس وقت درباروں کی زینت سمجھی جاتی تھی اور درباروں ہی میں پنپتی تھی، انہوں نے ’’نظام حیدرآباد‘‘ پر تنقیدی نظم لکھ چھوڑی جس کی بناء پرعتاب کا شکار بھی رہے ۔ ایک رسالہ کلیم کی بنیاد رکھی جس میں کھل کر برطانوی راج کو نشانہ بنایا۔ شروع میں غزلیں لکھیں مگر جلد ہی نظم کی طرف متوجہ ہوئے اور شاعر انقلاب کہلائے۔

ان کی زندگی کے بنیادی میلانات میں شعر گوئی، علم طلبی اور انسان دوستی شامل ہیں۔

جوش ملیح آبادی کا کہنا تھا کہ

’’جہالت کی لے اس قدر بڑھ چکی ہے کہ خود بڑے بڑے تعلیم یافتہ افراد بھی اس دھوکے میں آچکے ہیں کہ ہم ی، ہندوستانی، افغانی، ترکستانی اور انگلستانی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہر فرد یہ بھی سمجھتا ہے کہ میں ہندو ہوں، مسلمان ہوں، عیسائی ہوں ، یہودی ہوں لیکن ان سادہ لوحوں کے ذہنوں میں یہ تصور اجاگرہی نہیں ہوتا کہ میں سب سے پہلے انسان ہوں اور اس کےبعد کچھ اور۔‘‘

جوش کی تصانیف میں روح ادب، شاعر کی راتیں، جوش کے سو شعر، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، پیغمبر اسلام، فکر و نشاط، جنوں و حکمت، حرف و حکایت، سنبل و سلاسل، سیف و سبو، طلوع فکر، موجد و مفکر، قطرہ قلزم، الہام ہ افکار، نجوم و جواہر، جوش کے مرثیے، مقالات جوش، اوراق زریں، جذبات فطرت، مکالمات جوش، یادوں کی بارات (خودو نوشت سوانح) شامل ہیں۔ انہیں بے شمار اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں پدما بھوشن ایوارڈ اور ہلال امتیاز بھی شامل ہیں۔ ان کے کلام میں زندگی کے اتار چڑھاؤ کی ہر کیفیت ملتی ہے جیسے کہ؛

 سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

زندگی خواب پریشان ہے، کوئی کیا جانے

موت کی لرزش مزگاں ہے، کوئی کیا جانے

قدم انسان کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے

چلے کتنا ہی کوئی بچ کے، ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

جوش ملیح آبادی نے 22 فروری 1982ء کو اسلام آباد میں 83 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کی یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں پیوستہ ہیں، ہم کبھی بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے۔

تبصرے بند ہیں۔