اب ہے مسدود انتظار کی راہ

افتخار راغبؔ

اب ہے مسدود انتظار کی راہ

کیسے دیکھے کوئی قرار کی راہ

اُتنا آساں سفر محبت کا

جتنی ہم وار اعتبار کی راہ

لذّتِ انتظار مت پوچھو

تم نے دیکھی کہاں ہے یار کی راہ

کیا خبر اقتدار کے رتھ کو

کتنی خستہ ہے روز گار کی راہ

اب کہاں یاد راستہ کوئی

دیکھ لی تیرے دل دیار کی راہ

کیا دکھاوا کہیں دکھائی دے

اور ہے اہلِ انکسار کی راہ

اہلِ دل کو کہاں کوئی پروا

راہ پر خار ہو کہ خار کی راہ

اِن سے کیا اتّحاد کی امّید

کیا یہ چھوڑیں گے انتشار کی راہ

راہ رغبت کی منتخب کر لی

چھوڑ کر جاہ و افتخار کی راہ

سامنے راہِ عشق ہے راغبؔ

ختم اب سارے اختیار کی راہ

تبصرے بند ہیں۔