آپ کے منھ میں گھی شکر

حفیظ نعمانی

روزنامہ انقلاب کے مستقل مضمون نگاروں میں ایک صاحب ڈاکٹر غلام زرقانی صاحب ہیں۔ ہر ہفتہ وہ ایک مضمون لکھتے ہیں جن میں سے اکثر ہم اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ ان کا مضمون اس موضوع پر ہے جو وقت کا اہم موضوع ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اویسی برادران کو عنوان میں ہی مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ غیربی جے پی اور غیر کانگریسی متحدہ محاذ بنانے کی جو بات سن رہے ہیں وہ اگر درست ہے تو موجودہ سیاسی حالات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ موصوف کی توقع کے مطابق نتیجہ برآمد ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر کہہ دوں کہ متحدہ محاذ کے نتیجہ میں کانگریس اقتدار سے باہر رہے یا نہ رہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس سے بی جے پی دوبارہ مسند اقتدار پر ضرور براجمان ہوجائے گی۔

ڈاکٹر زرقانی صاحب یا تو حیدر آباد کے رہنے والے ہیں یا وہ اسد الدین اویسی صاحب کے والد ماجد اور تینوں باپ بیٹوں کی قومی سماجی ملی فلاحی اور غریب پروری کے ان تمام کاموں سے واقف ہیں جن پر بلاشبہ فخر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر زرقانی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ 1984 ء میں سلطان صلاح الدین اویسی صاحب نے متحدہ آندھرا پردیش میں پہلے اقلیتی مسلم میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی جو اب جنوبی ہندوستان کے عظیم ترین کالجوں میں شامل ہے اطلاع کے مطابق دارالسلام ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیرنگرانی دکن کالج آف میڈیسن اویسی ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر، پرنس ایسری ہسپتال، دکن اسکول آف ہاسپیٹل مینجمنٹ، اویسی اسکول آف نرسنگ، اویسی کالج آف نرسنگ، دکن اسکول آف فارمیسی اور ڈی سی ایم ایس کالج آف فیسیو تھریپی چل رہے ہیں۔ یہ ادارے بلاشبہ ایسا کارنامہ ہے جس کی برابری ہوسکتا ہے کیرالہ کا ڈاکٹر عبدالغفور کا قائم کیا ہوا مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ کیرالہ اور کرناٹک کرسکے جو ایک بہت بڑی تنظیم چلا رہی ہے۔ اب یہ تو اویسی صاحب ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے اور اتنے بڑے فلاحی اور ملّی کام کرنے والے اویسی برادران کو سیاست کی گندی گلیوں میں کیا نظر آرہا ہے جو ڈاکٹر زرقانی صاحب یا ہم جیسے ایک معمولی آدمی کو اپنی مخالفت میں کہنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ہماری اطلاع یہ ہے اویسی صاحب چندر شیکھر رائو کے ساتھ تیسرے محاذ کے لئے اُڑیسہ کے وزیراعلیٰ اور مایاوتی اور اکھلیش یادو سے بھی مل چکے ہیں صرف اس لئے کہ یہ دونوں کمل ناتھ کی حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ اب تک اویسی صاحب کے بارے میں یہ سنا جاتا تھا کہ راہل گاندھی کے وہ قریب ہیں تلنگانہ کے الیکشن میں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ چندر شیکھر رائو وزیراعظم مودی سے اجازت لے کر اپنے صوبہ کا الیکشن قبل از وقت کرارہے ہیں۔ یہ بات بار بار مختلف لوگوں نے کہی ہے کہ اویسی صاحب امت شاہ کی اس مہم کو طاقت کا انجکشن لگاتے رہے ہیں کہ مسلمان ووٹ بی جے پی کے مقابلہ میں سیکولر پارٹی کو نہ جائے اسے وہ نہ گنگا کا بنائیں نہ جمنا کا بلکہ اندھے کنوئیں میں ڈلوادیں۔ اترپردیش میں وہ برسوں سے ووٹوں کی کھیتی کررہے ہیں گذشتہ الیکشن میں میرے وطن سنبھل میں انہوں نے شفیق برق کے پوتے کو ٹکٹ دیا ہر دن کی اور ہر تقریر کی رپورٹ میرے پاس آتی رہی میرے لئے نازک مسئلہ تھا کہ وہ لڑکا دور کا عزیز بھی تھا اور شفیق برق بچپن کے دوست بھی۔ اور جب یہ سنا کہ بی جے پی کے امیدوار نے بڑی حسرت سے کہا کہ پتنگ اُڑی تو مگر وہ کمل کے پھول کیلئے پورا راستہ نہ بن سکی۔

ہم نہیں جانتے کہ وہ ایک طرف ایسے کام کررہے ہیں کہ ہم جیسوں کو ہر دن ان کا قصیدہ پڑھنا چاہئے اور دوسری طرف کسی پردہ کے بغیر بی جے پی کو فائدہ پہونچاتے ہیں۔

جہاں تک قیادت کا تعلق ہے بیشک مسلمانوں کا کوئی قائد نہیں ہے۔ ہم جیسے نیازمند نے مولانا آزاد اور مولانا حفظ الرحمن کو بھی دیکھا ہے اور مسٹر جناح کو بھی دیکھا ہے۔ جناح صاحب کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ قائد نہیں وکیل تھے اور پاکستان کی بادشاہت انہوں نے لی تو یہ ان کی فیس تھی۔ اس لئے کہ جن نعروں کے ساتھ اسے بنایا گیا تھا ان کا حشر وہی ہوا جو 2014 ء میںنریندر مودی کے وعدوں کا ہوا اسی ملک میں ڈاکٹر فریدی صاحب بھی قائد بنے ان کی قیادت کا حشر بھی اویسی صاحب نے دیکھا تھا۔ وجہ وہی ہے کہ ملت نے نہیں کہا کہ آپ ہماری قیادت کیجئے آپ کو شوق ہوا کہ قائد بنا جائے۔ صلاح الدین اویسی صاحب حیدر آباد سے باہر نکلے تو صرف ملّی کاموں کیلئے سیاسی دنیا انہوں نے آندھرا تک ہی رکھی۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی ڈاکٹر زرقانی یا کسی حفیظ نعمانی نے بڑے اویسی صاحب کی مخالفت میں ایک بھی لفظ لکھا ہو۔

اگر اسدالدین اویسی صاحب دیانت داری سے مسلمانوں کے لئے بی جے پی کو مفید سمجھتے ہیں تو کھل کر اس کا اظہار کریں۔ وہ اب تک جو کرتے رہے کہ مسلمان کے ووٹ مسلمان کو اس کا انجام وہ دیکھ چکے۔ اب وہ تیسرا محاذ بنانے کی جو کوشش کررہے ہیں اس میں اگر ممتا بنرجی، شرد پوار، شرد یادو، سیتا رام یچوری وغیرہ اتنی پارٹیاں ہوں کہ حکومت بنا سکیں تب تو اس مسئلہ پر سوچا جاسکتا ہے لیکن صرف ان پارٹیوں کو ملانا جو کانگریس کی مخالف ہیں اس سے صرف سیکولر محاذ کمزور ہوگا اور بی جے پی کیلئے راستہ صاف ہوجائے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ مودی جی کے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فیصلوں سے اویسی برادران پر اثر پڑا یا نہیں لیکن اب تو ہر طرف سے یہ کہا جارہا ہے اور سب نے مان لیا کہ ہر آدمی کی کمر ٹوٹی ہے اس کے باوجود اُن کو دوبارہ موقع دینے والے ملک کے ساتھ دشمنی کریں گے اور ہم ان میں شریک ہوکر ملک سے دشمنی کرنے والے کیسے بن جائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. راجہ صید یقی مالیر کوٹلہ پنجاب کہتے ہیں

    بات بلکل درست ہے، یہ اندرونی طور پر پے بی جے پی کی مدد کی تیاری سے زیادہ کچھ نہیں،،،،، تیسرا مورچہ بی جے پی پارت 2 کی تیاری ہے، اور اس میں اندرونی طور پے بی جے پی میں شامل تمام نیتاوں کے چہرے فاس ہونے والے ہے،

تبصرے بند ہیں۔