بتاؤ کیوں مُسکرا رہے ہو
احمد علی برقیؔ اعظمی
تم آرہے ہو کہ جا رہے ہو
بتاؤکیوں مُسکرا رہے ہو
…
یہ کیسا جلوہ دکھا رہے ہو
نگاہ و دل میں سما رہے ہو
…
کرو گے کیا خاک خانۂ دل
نظر سے بجلی گرا رہے ہو
…
ملے گا کیا ایسا کرکے تم کو
کیوں مجھ کو ناحق ستا رہے ہو
…
ہے عارضی کر و فر تمہارا
یہ جشن جو تم منا رہے ہو
…
منائے گا خیر اپنی کب تک
جسے تم اب تک بچا رہے ہو
…
لہو پُکارے گا آستیں کا
جو قتل کرکے چھپارہے ہو
…
جہاں میں کردے گا تم کو رسوا
جو ظلم برقی پہ ڈھا رہے ہو
تبصرے بند ہیں۔