تزکیۂ نفس کے قرآنی اصول (پہلی قسط)

محمد عبد اللہ جاوید

انسان کی فطری صلاحیتوں کی نشو و نما اور ان کے لیے رکاوٹ بننے والے عناصر کی تطہیر کا عمل تزکیہ ہے۔ اصلاح و تربیت کا یہ دوہرا عمل ایک قرآنی اصطلاح ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر دور میں انسانوں کی کام یابی لیے اسی طریقے کی ہدایت فرمائی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے پیش نظر ہر انسان اپنا تزکیہ کرے۔ یعنی تزکیہ ایک آفاقی تصور ہے۔ تزکیہ کو فلاح و کامرانی کا ذریعہ بتانے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی حقیقت کو واضح کیا ہے:

إِنَّ ھذَا لَفِیْ الصُّحُفِ الْأُولَی O صُحُفِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی

یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں میں کہی گئی تھی ‘ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں (الاعلی:18-19)

اس عمل پر چونکہ انسان کی دنیا و آخرت میں کامیابی کا انحصار ہے‘ اس لئے اس کی وسعت زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔اس کی وسعتوں کے اندازہ ہی سے اس کی گہرائیوں کا پتا لگایا جاسکتا ہے اور اسی کے توسط سے وہ اصول اور بنیادیں بھی معلوم کی جاسکتی ہیں ‘ جن کے پیش نظر فرد کا تزکیہ مطلوب ہے۔

(1)ذاتی اصلاح

ذاتی اصلاح کی اصل روح یہ ہونی چاہئے کہ کامیابی کے سفر کا آغاز انسان اپنی ذات سے کرے۔ وہ تمام خوبیاں اپنے اندر پروان چڑھائے جن کے ذریعہ منعم حقیقی- اللہ رب العالمین- کی بندگی صحیح طور پر کی جاسکتی ہے۔اعمال کے ذریعہ بندگی ہوتی ہے اور تزکیہ نفس کی عملی تعبیر – عمل صالح- ہے۔ جس کا ایمان کے فوری بعد تقاضہ کیا جاتا ہے۔ایمان اور عمل صالح ہی فرد کی نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں :

وَمَنْ یَأْتِہِ مُؤْمِناً قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُوْلَءِکَ لَہُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَی O جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ جَزَاء مَن تَزَکَّی

جو اسکے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا‘ جس نے نیک عمل کئے ہوں گے‘ ایسے سب لوگوں کے لئے بلند درجے ہیں ‘سدا بہار باغ ہیں ‘ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔یہ جزا ہے اس شخص کی جو اپنا تزکیہ کرے۔(طہ:75-76)

(2) معاشرتی اصلاح

نشو ونما اور تطہیر کے اس عمل کا دائرہ انسانی معاشرہ بھی ہے۔پر امن اور تعمیر و ترقی سے مزین معاشرے کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب کہ بھلائیوں کا فروغ عام ہواور برائیوں کے ازالہ یقینی بنایا جائے۔جہاں لوگوں کا برائیوں کی بہ نسبت اچھائیوں کو اپنانا آسان ہو۔ لوگ ایکد وسرے کے معاون و مددگار ہوں ۔ اور ہر اس برائی سے سختی کے ساتھ نمٹتے ہوں جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ تزکیہ کے اس عمل کی وسعت تمام معاشرتی پہلوؤں پر محیط ہے۔اگر وقت کا حاکم بھی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہو تو اس کو بھی دعوت تزکیہ دیا جانا چاہئے۔قرآن مجید اس سلسلہ میں ایک جابر اور باغی حکمران کی سیاسی بداعمالیاں پیش کرتا ہے جو معاشرے میں ظلم و فساد کا موجب بنی ہوئی تھیں اورپیغمبر ؑ کو حکم دیا جارہا ہے:

اذْھَبْ إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی O فَقُلْ ھل لَّکَ إِلَی أَن تَزَکَّی۔

فرعون کے پا س جاؤ ‘ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لئے تیار ہے کہ اپنا تزکیہ کرے۔(النازعات:17-18)

 (3)دعوت

جو لوگ اللہ کی بندگی سے غافل ہیں ‘انہیں بندگی رب کی دعوت دینا ایک اہم فریضہ ہے جس کے ذریعہ باطل عقائد و نظریات اور بے بنیاد رسوم و رواج سے ذہنوں کو پاک و صاف کیا جائے اور اسلامی عقائد اور طریقۂ زندگی کے سنہرے اصولوں کی تشریح کی جائے۔ یہ معاشرے میں رہنے والے عام انسانوں سے متعلق طریقہ تزکیہ ہےجو حق سے ناواقف ہیں ۔رہے وہ لوگ جو اپنے باطل عقائد ونظریات پر اتراتے ہیں ‘اپنے خود ساختہ طریقوں کو برحق مانتے ہیں اور اپنے آپکو ہر طرح کی اصلاح و تربیت سے آزاد سمجھتے ہیں ‘انکےلئے – دعوتِ تزکیہ- اور زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔اس امر کی جانب قرآن کریم بڑے پر اثر انداز میں دعوت غور وفکر دیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان جھوٹے دعوے داروں کی ایک قطار‘اہل ایمان کے سامنے صف بستہ کھڑی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ ا نکی جانب اشارہ کرتے ہوئے یوں مخاطب ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّونَ أَنفُسَہُمْ بَلِ اللّہُ یُزَکِّیْ مَن یَشَاءُ وَلاَ یُظْلَمُونَ فَتِیْلاًO انظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الکَذِبَ وَکَفَی بِہِ إِثْماً مُّبِیْناً۔

تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو بہت زیادہ اپنی پاکیزگی نفس کا دم بھرتے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔ دیکھو تو سہی یہ اللہ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں ۔ ان کے صریح مجرم ہونے کے لئے یہی ایک گناہ کافی ہے ۔(النساء: 49-50)

 چاہے انسان شعوری طور پر باطل طریقۂ زندگی اختیار کرے یا غیر شعوری طور پر‘ ہر دو صورت میں ضلالت و گمراہی سے رشد و ہدایت کی طرف دعوت دینا اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اللہ رب العالمین کی نگاہ میں انسان کی ہدایت کے لئے یہ عمل اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ رسول اکرم ؐ کی بعثت کا مقصد تزکیہ قرار پایا:

ھوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَوَإِنکَانُوامِنقَبْلُلَفِیْضَلَالٍمُّبِیْنٍ

وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا ‘ جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے‘

ان کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہےحا لاں کہ اس سے پہلے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔( الجمعہ:2 )

گمراہی و ضلالت کی تطہیر اور رشد و ہدایت کی نشوونما‘تاریکیوں سے روشنیوں کی جانب سفر- دعوتِ تزکیہ- ہے۔

(4)آخرت

تزکیہ کے دائرہ کی وسعت کا آغاز دنیا میں فرد کی ذات سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام آخرت میں اسی کی ذات پر ہوتا ہے۔اس کے درمیان جتنے مراحل انسان کو درپیش ہوتے ہیں ان تمام میں تزکیہ کا کسی نہ کسی حیثیت سے تعلق رہتا ہے۔جو لوگ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی نہیں گزارتے‘ حق کے اظہار کی بجائے راستے کی رکاوٹ بنتے ہیں اور ناجائز طریقے سے اپنے پیٹ بھرتے ہیں ‘اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انکی طرف نظر عنایت نہیں کرے گا اور نہ انکا تزکیہ کرے گا:

إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلۡڪِتَـٰبِ وَيَشۡتَرُونَ بِهِۦ ثَمَنً۬ا قَلِيلاً‌ۙ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ مَا يَأۡكُلُونَ فِى بُطُونِهِمۡ إِلَّا ٱلنَّارَ وَلَا يُڪَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ وَلَا يُزَڪِّيهِمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ(البقرہ:174)

بلاشبہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انہیں بیچ ڈالتے ہیں ‘ وہ دارصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہیں کرے گا‘ نہ انہیں پاکیزہ ٹہرائے گا‘ اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

یہ بات کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کا تزکیہ کس طرح فرمائے گا‘ قابل غور ہے۔ اس ضمن میں قرآن و حدیث کا گہرائی سے مطالعہ ہوناچاہئے۔ قرآن مجیدمیں اس سلسلہ کے کچھ اشارات ملتے ہیں ۔جیسے سورہ الحجر کی آیتیں جن میں متقی لوگوں کو ملنے والی جنت کی نعمتوں کے ذکر کے بعدان کے دلوں میں موجود ایک خامی- غل ( ناراضگی ‘ بغض‘ کینہ) دور کرنے بات کہی گئی ہے:

وَنَزَعۡنَا مَا فِى صُدُورِهِم مِّنۡ غِلٍّ إِخۡوَٲنًا عَلَىٰ سُرُرٍ۬ مُّتَقَـٰبِلِينَ(الحجر:47)

ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے‘ وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔ یہ تزکیہ کی وسعت ہے۔جس کا دائرہ اثر دنیا سے شروع ہوتا ہے اور آخرت پر ختم۔

آخر الذکر امر-یعنی قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ بندہ مومن کے دل سے کسی کے تعلق سے پائی جانے والی ناراضگی نکال دیگا- سے ایک اہم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ کسی فرد کی اصلاح کے لئے یہ حقیقت پیش نظر رکھنا احسن تبدیلیوں کا موجب بن سکتا ہے۔ کسی فرد کے اندر اصلاح کی لاکھ کوششوں کے باوجود بشرہونے کے ناطے کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور ہوں گی‘ان کو دور کرنے کی مسلسل کوشش توہونی چاہئے۔البتہ کوئی ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جو فرد کو ہر طرح کی خامیوں سے مکمل پاک و صاف کرنے کی غرض سے ہو۔ بعض لوگ کسی فرد کی اصلاح سے متعلق ایک اعلی معیار تربیت طے کرلیتے ہیں اور اسی تصور کی مناسبت سے کوششیں بھی کرتے ہیں ۔اگر اس آئیڈیل پر کوئی شخص نہیں اترتا ہے تو پھر یا تو اس سے صرف نظر کرلیتے ہیں یا ان کے اصلاح کے طریقے میں شدت آنے لگتی ہے۔دونوں صورتیں اصلاح کے معروف طریقوں سے میل نہیں کھاتیں ۔اس سلسلہ میں متذکرہ آیت راہنمائی کرتی ہے۔

تزکیہ کی وسعتیں ، اس کی گہرائیاں بھی واضح کرتی ہیں کہ تزکیہ کا عمل انسان کی ہر حیثیت اور حالت سے بحث کرتا ہے۔قرآن مجید اسی تصور کے تحت تزکیہ کے اصول اور اسکی ٹھوس بنیادیں واضح کرتا ہے جن کے پیش نظرانفرادی اور اجتماعی تزکیہ کی ایک وسیع و عریض اور پائیدار عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔