دلت ڈسکورس اور ناول’ تخم خوں’کی موضوعاتی انفرادیت
عادل فراز
ہندوستان کا ذات پات پر مبنی سماجی نظام عالمی سطح پر طبقاتی تقسیم کی قدیم ترین تاریخی مثال ہے ۔ہزاروں سال پرانی اس مذہبی طبقاتی تقسیم کے تحت ہندوئوں کو انکے کرم اور دھرم کی بنیاد پر مختلف سماجی طبقات میں بانٹا گیاہے ۔ہندو دھرم کی قدیم ترین کتاب ’’منوسمرتی ‘‘جسے ہندو دھرم میں الوہی قوانین کا منبع تصور کیا جاتاہے میں ہندو سماج کی طبقاتی تقسیم کی ترتیب و تنظیم پردلائل پیش کئے گئے ہیں ۔یہ نظام ہندوئوں کو چار خانوں برہمن،ویش،چھتری اور شودر میں تقسیم کرتاہے ۔برہمنوں کو اس تقسیم میں ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے۔منوسمرتی کے لحاظ سے برہمن ’’برہما ‘‘کے سر سے وجود میں آئے ہیں اس لئے انہیں ہندو سماج میں دماغی امور کی انجام دہی جیسے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی یہ طبقہ حکومتی و ریاستی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتا مگر ان ریاستی امور کے ذمہ داروں پر برتری ضرور رکھتاہے ۔چھتریوں کے لئے کہا گیاہے کہ وہ ’’برہما ‘‘ کے بازوئوں سے وجود میں آئے ہیں اس لئے حکمرانی اور امور سپہ گری ان سے متعلق ہیں ۔ویش ’’برہما ‘‘ کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں اس لئے انکا پیشہ تجارت کا فروغ اور مالیاتی نظام کی ترتیب و تنظیم ہے ۔
اس تقسیم میں آخری درجہ ’’شودروں ‘‘ کا ہے جو ’’برہما‘‘ کے پیروں سے جنمے ہیں اور انکا کام بھی ہاتھ اور پیروں سے ہی متعلق ہے یعنی غلامی اور بندھوا مزدوری ۔اس طبقہ کو برہمنوں ،چھتریوں اور ویشوں کے مساوی زندگی بسر کرنے کا کوئی حق نہیں دیا گیا ۔ہمیشہ اسی مذہبی طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر انکا جسمانی و ذہنی استحصال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہاہے ۔اس سماج کی پسماندگی اور ذہنی پستی کا یہ عالم تھا کہ کبھی ظلم و زیادتی کے خلاف مزاحمت کی آواز بھی بلند کرنے کی جرأت نہیں کی اور اگر کبھی کسی باغی دلت کے اندر بغاوت کا لاوا ابلنے لگا تو اس پر مذہبی احکامات کا سرد پانی چھڑک کر اس لاوا کی لپٹوں کو ٹھنڈا کردیا گیا ۔زیر نظر ناول ’’تخم خوں ‘‘ اسی طبقاتی کشمکش کی کہانی ہے ۔دیہی سماج کی دقیانوسی رسومات ،دلتوں کا پچھڑا پن اور انکے بنیادی مسائل ،اونچے طبقہ کی ذہنی پسماندگی مگر برتر ی کا احسا س ،نکسل موومنٹ ،اور زمینی تنازعات اس ناول کا بنیادی موضوع ہے ۔ہندوستانی سماج میں مذہبی احکامات کی روشنی میں دلتوں کو ہمیشہ پائوں کی جوتی سے بھی کم اہمیت دی گئی۔مذہبی احکامات کی بنیاد پر ہی انہیں انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ۔مذہبی احکامات کا سہارا لیکر انکی زندگی جانوروں سے بھی بدتر کردی گئی ۔تاریخ شاہد ہے کہ دلت ذہنی و جسمانی استحصال کا عذاب جھلیتے ہوئے آئے ہیں اور آج بھی جھیل رہے ہیں ۔یہ الگ حقیقت ہے کہ انقلاب زمانہ کے ساتھ اس استحصال کی نوعیت بدلتی رہی ہے ۔
سماجی تقسیم کی ترتیب میں نچلی سطح پر رکھے جانے کی بنا پر دلتوں کے فطری حقوق بھی سلب کرلئے گئے ۔آزادی اظہار ،انصاف،تعلیم اور برابری جیسے سماجی ادھیکار مذہبی احکامات کی دہائی دیکر چھین لئے گئے ۔منوسمرتی کے احکامات کی روشنی میں انہیں اچھوت سمجھا گیا اور ایسے امور کی انجام دہی کے لئے جبراََ مامور کیا گیا جو انسانی تاریخ کے دامن پر سیاہ داغ ہیں ۔غلامی اور نیچ امور کی انجام دہی میں مذہبی کتابوں میں درج دیوی دیوتائوں کے فرمودات کے حوالوں کی بنیاد پر انکا استحصال کیا گیا ۔انکی زندگی غلاموں سے بھی بدتر کردی گئی ۔حد یہ ہے کہ انکی ذاتی زندگی پر بھی انکا کوئی ادھیکار نہیں رہا ۔ظلم و زیادتی اور غیر برابری کی بنیاد پر دلتوں میں بغاوت کا لاوا اندر ہی اندر پنپتا رہا مگر اقتدار پر قابض اونچی ذات اور مذہبی ٹھیکداروں نے اس لاوے کو پھوٹ کر نکلنے کی جگہ ہی نہیں دی ۔لہذا دلتوں نے ادب کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور مراٹھی ادب سے پہلی مزاحمت کی آواز بلند ہوئی ۔
مراٹھی ادب کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی دلت ادب کی گونج سنائی دیتی رہی ۔ اردو ادب میں دلت ڈسکورس پر بہت کم لکھا گیا مگر گزشتہ ساٹھ ستر سالوں میں اقلیتوں کے مسائل ادب کا حصہ بنے تو تخلیق کاروں کی نگاہوں نے دلتوں کی سماجی ،معاشی و سیاسی صورتحال کا بھی جائزہ لیا ۔اردوکے بعض تخلیق کاروں نے دلت مسائل اور انکی پسماندگی کو موضع بنایا ۔خاص کر پریم چند کے افسانوں اور ناولوں میں جو دیہی صورتحال پیش کی گئی ہے اسمیں دلتوں کی تصویر بہت واضح نظر آتی ہے ۔دلتوں کے مسائل اورسماجی و سیاسی صورتحال پر صغیر رحمانی کا مشاہدہ و تجربہ کافی وسیع ہے ۔انکے افسانوں میں بھی دلتوں کی حقیقی صورتحال کے نقوش جابجا نظر آتے ہیں ۔صغیر رحمانی بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں مگر ناول ’’ تخم خوں ‘‘ انکی فنی ریاضت اور مشاہدات کا پرتو ہے۔دلت ڈسکورس پر ایسا ضخیم اور ممتاز ناول میری نظر سے نہیں گزرا ۔اس ناول کا دیہی سماج اور اس سماج کی صورتحال پریم چند کے دیہی سماج سے بہت مختلف ہے ۔کیونکہ پریم چند کے عہد تک دلتوں کےعلاقوں میں نکسل موومنٹ نہیں تھا ۔اپنے حقوق اور مطالبات کے نام پر ہندوستانی عوام نے اپنی ہی حکومتوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا تھا لہذا صغیر رحمانی نے اس تشویشناک صورتحال کا بخوبی جائزہ لیاہے اور مسائل کے ساتھ اسکے حل کی طرف بھی کئی اہم اشارے کئے ہیں ۔
ناول’’ تخم خوں ‘‘ کاآغاز ہی دلتوں کی سماجی ابتری اور برہمنوں کی سماجی برتری کی بھرپور توضیح کرتاہے ۔امیشور دت پاٹھک کے گھر بچہ کی ولادت کے موقع پر ٹینگر کا تھالی بجاکر اظہار مسرت کرنا اور گائوں والا کا تھالی کے شور سے یہ یقین کرلینا کہ پاٹھک جی کے گھر دیوتا نے جنم لیا ہے سماجی نابرابری کی پوری تاریخ بیان کردیتاہے ۔ بھلے ہی دلت اپنے گھر میں کچی مٹی کے برتنوں یا درختوں کے پتوں پر کھانا کھاکر زندگی گزارے مگر مالکوں کے گھر ولادت کی خوشی کے اظہار میں پیتل کی تھالی بجاکر اظہارکرنا سماجی غیر مساوی ذہنیت کو ظاہر کرتاہے ۔ناول کے پہلے باب کا پہلا منظرملاحظہ کریں ’’ٹینگر رام پیتل کی تھالی بجارہاتھا ۔تھالی کے شور سے پورے ببھن گاواں گائوں کو علم ہوگیا کہ امیشور دت پاٹھک کے گھر میں دیوتا کا جنم ہواہے ۔پاٹھک جی بے انتہا خو ش تھے ۔انکے پیر زمین پر نہیں پڑرہے تھے ۔جانے کتنے دیوی دیوتائوں کو پوجنے اور منت چڑھاواکے بعد انکے گھر میں برمہا نے منہ کھولا تھا ۔ڈھلتی عمر میں پہلی اولاد ،وہ بھی بیٹا ۔گویا انکی ڈوبتی نیا کو کنارہ مل گیا تھا ۔‘‘یہ اقتباس دلت سماج کی صورتحال اور مذہبی تقسیم بندی کی کہانی بخوبی بیان کردیتاہے جسکے بعد کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ر ہ جاتی ۔
ناول کا مرکزی کردار’’ بلایتی ‘‘دلتوں کی پسماندگی ،اور ظلم و زیادتی کا آئینہ ہے ۔بلایتی کا کردار بڑی فنی مہارت اور مشاہدات وتجربات کی روشنی میں تراشا گیا ہے ۔اس کردار میں کئی فکری تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور انقلاب وقت کے ساتھ بلایتی کے کردار کی نفسیات بھی بدلتی نظر آتی ہے ۔بلایتی کا کردار دلتوں کے نسوانی سماج کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔بلایتی کے کردار کے علاوہ ’’ٹینگر‘‘ اور’’مانجھی ‘‘ کے کردار بھی بڑی مہارت سے لکھے گئے ہیں ۔خاص کر ’’ ٹینگر ‘‘ کا کردار دلتوں کی جہالت،ذہنی پسماندگی اور سماجی زیادتیوں کا آئینہ بن کر ابھرتاہے ۔
برہمنی نظام فکر کی مخالفت کے ساتھ دلتوں کی شناخت ابھر کر سامنے آتی ہے ۔برہمنی نظام ہمیشہ برہمنوں کی بالادستی اور حکمرانی کا نظریہ پیش کرتاہے کیونکہ وہ دھر م رکشک اور برہما کے ونشج ہوتے ہیں ۔ناول کا ایک مکالمہ ملاحظہ ہو ۔’’ ٹینگر برآمدے میں پہونچ کر کھڑا ہوگیا اور پنڈت جی کے منہ سے پھوٹ رہے شلوک کو غور سے سننے لگا ۔اس پر نظر پڑنے پر پنڈت جی چپ ہوئے تو اس نے پوچھا ۔’’ مطلب ؟یعنی ارتھ ؟اسکا ارتھ یہ ہوا کہ ۔۔۔۔’’ جنم لیتے ہی براہمن پرتھوی پر شریسٹھ ہے کیونکہ وہ دھرم کی رکشا کرسکتاہے ۔پرتھوی پر جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ براہمن کا ہے ۔برہما کے مکھ سے اتپن تتھا کلین ہونے کی وجہ سے وہ پرتھوی پرکے سارے دھن کا ادھیکاری ہے اور دوسرے سارے لوگ براہمن کی دیا کی وجہ سے سبھی چیزوں کو بھوگ کرتے ہیں ۔اگر براہمن نندت کرموں میں لگا ہوا ہو تو بھی ہر طرح پونے کے قابل ہے کیونکہ براہمن سب سے اتّم دیوتاہے ۔۔۔‘‘اور مالک ،ہمار ے لئے کا لکھاہے ۔۔۔؟‘‘
’’ تمارے لئے ۔۔۔؟ہاں تمہارے لئے بھی لکھا ہے نا۔۔
ویسر بدھ برہمخ شودرا ددیویو پا دانم چریت
نہ ہی تسیاستی کنچت سوم مرتر ہا ریہ دھنو ہی س۔۔
اسکا مطلب کا ہوا مالک ؟
اسکا ارتھ ہوا کہ براہمن کے لئے اچت ہے کہ وہ شودر کا دھن بنا کسی بھئے یا سنکوچ کے لے لے۔کیونکہ شود ر کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے ۔اسکا دھن اسکے مالک کے دوار احرن کرنے کے قابل ہے ۔
’’ای کیسی کتاب ہے مالک ‘‘؟
یہ سوال ہی بغاوت کا جنم داتاہے ۔یہیں سے مذہبی رہنمائوں اور غیر مساوی نظریات کی مخالفت کا لاوا ابلنے لگتاہے ۔انہی برہمنی نظریات نے ہندوستانی سماج کو چھلا ،ٹھگا اور اپنی بالادستی کی جنگ میں شودروں کا خون پانی کی طرح بہایا اور انکی عورتوں کو اچھوت ہونے کے باجود اپنی پتنیوں کی طرح استعمال کیا ۔پھر بھی وہ برہمن ہی رہے اور شودر انکے بچے جننے کے باوجود بھی اچھوت ہی رہے ۔یہی سماجی و سیاسی استحصال کمزوروں کو طاقتور بننے پر اکساتاہے ۔مجبورکسانوں اور مزدوروں کے ہاتھو ں میں درانتی اور پھاوڑے کی جگہ بندوق دکھائی دیتی ہے ۔ناول ’’ تخم خوں ‘‘ کے مطالعہ کے بعد برہمن واد و سامنت واد کی تاریخ بھی قاری کے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے ۔ہر تاریخی کردار ظالم اور مظلوم کا لبادہ اوڑھ کر ’’تخم خوں ‘‘ کے کرداروں سمٹتا نظر آتاہے۔ ناول بنیادی سوال اٹھانے میں کامیاب نظر آتاہے کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر دلت اسقدر تنزلی کا شکار ہے ؟کیوں اسکی ترقی کی منصوبہ بندی کے بعد بھی اسکی پستی کے سبب ختم ہوتے نہیں دکھائی دیتے؟صغیر رحمانی اس مکمل بیانیہ میں اپنےشواہد و تجربات کا سہارا لیتے ہیں ۔بلایتی اور مانجھی کے کردار میں انکے تجربات کا عکس صاف جھلکتا محسوس ہوتاہے۔
اہل ہنود میں طبقاتی نظام اور تقسیم ذات کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے مسائل ہی دلت فکشن کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔دلتوں کی پسماندگی ،انکے بنیادی مسائل اور ذاتی تعصبات کی بنیاد پر کی جانے والی زیادتیوں اور مظالم پر اونچے طبقے کے محلوں اور حویلیوں اور رجواڑہ کے خاتمہ کے بعد جمہوری ریاست کے ایوانوں میں کبھی منصفانہ اور مخلصانہ گفتگو نہیں ہوئی ۔بلکہ ہمیشہ انکی ترقی اور بہبود ی کے نام پر انکا سیاسی استحصال ہواہے ۔انہیں برابری کے حقوق دینے کا نعرہ تو بلند کیا گیا مگر نعرہ بازی کرنے والے ہی انکے برابر میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔انہیں عصری سیاست نے بھی سماجی و سیاسی اچھوت ہی گردانا مگر ہندوستانی جمہوری نظام میں اقتدار کی ہوس نے اونچے طبقہ کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ اچھوتوں کے درمیان جاکر انکے برابر بیٹھے اور انکے ہاتھ کا کھانے پینے پر بظاہر خوش دکھلائی دیے ۔
اسے جمہوری نظام میں ووٹوں کی اہمیت ہی کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی و سماجی حاشیہ پر بھی دکھائی نہ دینے والی ذات آج اقتدار کے پھیر بدل میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر اس سیاسی قوت کے بعد بھی انکے حالات ناگفتہ بہ ہیں اور قابل ذکر تبدیلیاں نظر نہیں آتی ہیں مگر یہ بھی نہیں کہا جاسکتاکہ حالات آج بھی پچاس سال پہلے کی طرح ہیں ۔ممکن ہے مذہبی طبقاتی نظام آج بھی انہیں اچھوت ہی سمجھتا ہو مگر جمہوری نظام انہیں برابر کے حقوق دینے کی بات کرتا ہے ۔اسکی زمینی حقیقت کیاہے یہ الگ موضوع بحث ہے ۔ناول’’تخم خوں ‘‘ بھی اس طبقاتی نظام اور تقسیم ذات کے المیاتی مسائل پر روشنی ڈالتاہے۔’’تخم خوں ‘‘ کا موضوع گوکہ سیاسی دوغلے پن پر زیادہ فوکس کرتاہے مگر درون متن جابجا طبقاتی نظام کے اثرات،تقسیم ذات کا عذاب اور دلتوں کی زندگی کی کڑوی حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے ۔
یہ ناول اپنے موضوع کے لحاظ سے منفرد ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس ناول کے موضوع اور کرداروں کی نفیسات پر مزید لکھا جائے تاکہ اس ناول کی اہمیت اور قدر متعین ہوسکے ۔اس قدر اہم موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے صغیر رحمانی کی تعریف نہیں کرونگا کیونکہ یہی ایک تخلیق کار اور ادیب کی ذمہ داری ہے ۔
تبصرے بند ہیں۔