ہمیں اپنی عدالتوں پر پورا بھروسہ ہے!

ممتاز میر

  ابھی ایک ہی ماہ پہلے ہم نے اس عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا تھا جس میں ممبئی ہائی کورٹ کی جج محترمہ مردلا بھاٹکر کے ایک نادر روزگار فیصلے کے عواقب ومضمرات پر خامہ فرسائی کی تھی ۔اب پھر سپریم کورٹ کا عجیب و غریب مشورہ مسلمانوں کو عطا ہوا ہے ۔ ہم چونکہ اخبار کے لئے لکھ رہے اسلئے عجیب و غریب۔ ورنہ یہ مشورہ نہ عجیب ہے نہ غریب۔بلکہ یہ تو ایک طرح کی وارننگ یا سمجھ لیجئے کہ اشارہ ہیکہ بھائیو!سوچ لو سمجھ لو۔اس طرح کے فیصلے تو پہلے بھی آچکے ہیں ۔اب وہ عجیب تو ہو سکتے ہیں غریب نہیں ۔اور تم اب تک کیا کر پائے ہو جو اب کر لو گے۔

اس مشورے میں سب سے اہم بات اس کی ٹائمنگ ہے ۔اس پر خوب غور کیا جا نا چاہئے کے سپریم کورٹ کا یہ مشورہ کس وقت تھیلے سے باہر آیا ہے ۔محترم چیف جسٹس نے اس وقت چوکا مارا ہے جب مسلمان ہندوستان میں اپنی تاریخ کے سب سے بڑے ڈپریشن میں مبتلا ہیں(یہ فرقہ پرستوں کا ہی نہیں ہمارے دانشوروں کا بھی خیال ہے ۔بلکہ اخبارات پڑھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے دانشوروں نے اس کی سپاری لی ہے)مشورہ کیا ہے۔۔۔چیف جسٹس کہتے ہیں کہ بابری مسجد ملکیت مقدمے کے فریقین باہمی رضا مندی سے فیصلہ کرلیں ۔

یہ مذہب اور عقیدے کا معاملہ ہے اسے گفتگو کے ذریعے ہی حل ہونا چاہئے۔۔۔یعنی پھر وہی آستھا جس نے برسوں سے مسلمانوں کو ہی نہیں تمامغیر ہندؤں کو پریشان کر رکھا ہے ۔یہ وہ ترپ کا پتہ ہے جس سے ہر مرض کا علاج اور ہر پریشانی کا حل ڈھونڈاجا سکتا ہے۔اور اس سے مسلمان ہی نہیں ہر غیر ہندو قوم کو ڈرایا جا سکتا ہے ۔کیونکہ آستھا کا مطلب صرف ہندوؤں کی آستھا ہے ،اجتماعی ضمیر کے اطمینان کا مطلب ہندوؤں کے ضمیر کا اطمینان ہے ۔

 اس تناظر میں سپریم کورٹ کے مشورے کا جو مطلب ہم سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمانوں ! جس مسئلے پر آپ لوگوں نے ہمیں جبراً فیصلہ دینے پر مجبور کر رکھا ہے اس پر ہمارے لئے فیصلہ دینا ایسا بھی مشکل نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے۔بھئی۔ یہ مسئلہ آستھا سے جڑا ہو ا ہے اور آستھا یا اجتماعی ضمیر کا اطمینان یہاں کس کا چلتا ہے ۔خوب غور کیجئے ۔سوچئے۔اب تک کیا ہوتا آیا ہے ۔اس وقت جب کہ کانگریس بر سراقتدار تھی’’تمھاری اپنی پارٹی‘‘تب ہم نے یہ ترپ کا پتہ پھینکا تھا ۔اب تو حکومت ہی ان لوگوں کی ہے جنھیں عوام کو بے وقوف بنانے میں ید طولیٰ حاصل ہے ۔۔۔پھر نہ کہنا ہمیں ۔۔۔۔

  ان حالات میں مسلم ارباب اختیار کو ہمارے دو مشورے ہیں ۔(1)Out of court settlement ۔۔نہیں یہ تو بڑی با عزت اصطلاح ہے۔ ’’مانڈولی ‘‘کرلیں ۔جو ملے لے لیں ۔(2)خوب چیخ چیخ کر سپریم کورٹ سے کہیں کہ آپ کا ضمیر جس پر مطمئن ہو وہ فیصلہ دیں تاکہ تاریخ میں محفوظ ہو اور مستقبل میں کام آئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔