شاعر مشرق علامہ اقبال اور احمد علی برقی اعظمی


کلام علامہ اقبال

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو

گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو

کلام احمد علی برقی اعظمی

اقبالؔ سے ہے تم کو عقیدت تو جَتا دو

احساسِ زیاں ملتِ بیضا کوکرا دو

فرصت نہیں سونے سے جنہیں اُن کو جگا دو

اقبال کی یہ بانگِ درا اُن کو سنادو

اعمال سے خود اپنے ہی خود کو نہ سزا دو

آپس کے گِلے شکوے ہیں جو ان کو مِٹا دو

کب تک یونہی تم مہرۂ شطرنج رہو گے

اوقات ہے کیا اُس کی زمانے کو بتادو

جل جائے نہ اب اپنا ہی گھر دیکھ لو اِس سے

اب اور نہ اس شعلۂ نفرت کو ہَوا دو

ایسا نہ ہو بجھ جائے کہیں وقت سے پہلے

لَو شمعِ محبت کی ذرا اور بڑھا دو

جینا ہے اگر امن و سکوں سے تمہیں برقیؔ

ہے باہمی نفرت کی جو دیوار گرا دو

تبصرے بند ہیں۔