ایک سیمینار، جس نے عورتوں کی مکمل آزادی پر مہر لگایی 

تبسّم فاطمہ

دلی واپس آ گیی .پٹنہ کے سہ روزہ سیمینار کا خمار اب تک قایم ہے .کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ہماری ادبی دنیا میں اس قدر سیاست کیوں ہے ؟ پہلی بار ایک ایسے سیمینار کا حصّہ تھی جہاں نظامت سے صدارت تک کا اختیار عورتوں کے ہاتھ میں تھا .احتجاج اور بغاوت کی صداؤں کے بیچ متوازن لہجے میں ہر کویی اپنے دل کی بات کر رہا تھا .مرد اساس معاشرے پر کویئی چوٹ نہیں کی گیی .یہ دیکھنے کی کوشش کی گیی کہ صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود آج کی عورت کہاں ہے ؟ خواتین افسانہ نگار کے موضوعات کیا کیا ہوتے ہیں ؟ ثروت خان سے ملاقات یادگار رہی .ان کے افتتاحی خطبے نے سب کا دل جیت لیا.

صدیوں سے مرد عورت کی نفسیات میں الجھی عورت اپنے مقررہ حدود سے باہر نظر آیی .یہ اس سیمینار کی سب سے بڑی کامیابی تھی. سماج، ثقافت، معاشرہ، مذہب سے سیاست تک کی باتیں کھلے دل سے اور گہرایی سے کی گین .شہناز نبی، صبیحہ انور آپا، عذرا نقوی، افشاں ملک، شبنم عشایی، سیدہ نکہت فاروق، انجم قدوائی، شازیہ عمیر، شائستہ انجم نوری، ترنم جہاں شبنم، ذکیہ مشہدی آپا، صادقہ نواب سحر، شیریں دلوی، مہ جبیں غزل، قمر جہاں، آشا پربھات، تسنیم کوثر، کہکشاں تبسّم، افسانہ بانو، بانو سرتاج، نگار عظیم آپا، ثروت خان، نسترن فتیحی، غزالہ قمر اعجاز، ..کس کس کی بات کی جائے .شہناز نبی نے گفتگو کا آغاز کیا تو یہ بھی بتایا کہ تانیثیت پر کہاں کہاں کیا کیا کام ہوئے.

افشاں ملک، نگار عظیم، کہکشاں تبسم نے سماں باندھ دیا .شیریں دلوی سے پہلی بار ملی ..ذکیہ آپا کی کہانی نے سیمینار میں موجود لوگوں کی آنکھیں نم کردین .نسترن فتیحی، افسانہ بانو، شائستہ انجم نوری، قمر جہاں، صبیحہ انور، آشا پربھات، عذرا نقوی،مہ جبیں غزل، انجم قدوائی شازیہ عمیر …یہاں ایک بات صاف طور پر محسوس کی گیی کہ آزادی کے مضبوط لہجے میں کہیں عورت کی بے بسی اور لا چاری کو دخل نہ تھا . اس موسم کا تجزیہ حاوی تھا، جس نے آج کی سیاست کو پر آشوب بنا دیا ہے …یہ نیی صدی کی عورت ہے جو سماج و ثقافت اور سیاست کی باتیں کرتے ہوئے مردوں سے کیے جانے والے موازنے سے دور نکل آیی ہے .وہ جبر و استحصال، قید اور گھٹن سے آگے نکل کر دیکھ رہی ہے .وہ سیاست کے اندھے کھیل پر جارحانہ تبصرہ بھی کر رہی ہے اور کہیں بھی اس نے اپنا توازن نہیں کھویا ہے .

بہار اردو اکادمی کے سیکرٹری مشتاق احمد نوری (نوری بھائی )کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے اپنی طرف سے پروگرام کو کویی شکل نہ دی .پورا اختیار سیمینار میں شامل عورتوں کو سونپ دیا کہ اگر یہ سیمینار ایک مشن ہے، تو عورتیں اپنا رخ واضح کریں. سیمینار میں زیادہ یا کم بولنے پر کویی پابندی نہ تھی. وومن امپاور منٹ کے اس عھد میں اس سیمینار کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ عورت جبر اور آنسووں سے آزاد نظر آیی .یہ نیے تیور کی عورت ہے، جو ادب میں بھی پوری دیانتداری اور مضبوطی کے ساتھ وقت سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار کھڑی ہے. نیی منزلوں کے حصول کے لئے اب اس نے مردوں کو نشانہ بنانا بھی بند کر دیا ہے .وہ اسی طرح اس مکمل کائنات کو دیکھ رہی ہے، جیسے کویی مرد دیکھتا ہے .اسے اپنی خود احتسابی کی کیفیت بھی پسند ہے اور آزادی کا وہ ماحول بھی جہاں کھلے دل سے وہ اپنی بات کر سکے-

نوری بھایی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے خواتین تخلیق کاروں کو بہار اردو اکادمی کا بڑا پلیٹ فارم دیا .ہم جاگ چکے ہیں ، اب پرانی روش سے دور نکل اہے ہیں، اب نیی شمعیں روشن کرنی ہیں، اب ریس میں تیز چلنا ہے، پتھر نہیں چلانا ہے اب نیی دنیا کو برابری کی آنکھوں سے دیکھنا ہے، اس دنیا کو ہماری ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے، تیزی سے تبدیل ہوتی اس نیی دنیا پر، اب اپنی چھاپ چھوڑنے کی ضرورت ہے !

تبصرے بند ہیں۔