سلفیت مدح وتنقید کے حوالے سے ایک تجزیہ

محمد شاہد خان

سلفیت یا سلفی سلف سے مشتق ہے جس کی جمع اسلاف آتی ہے، سلفیت کا مطلب ہے سلف کا پیروکار اسلئے جو بھی اپنے اسلاف کی پیروی کرے گااسپر لفظ سلفی کا اطلاق ہوسکتا ہے ایک ایسے دور میں کہ جب پوری امت اسلامیہ چند فقہی مسالک میں منقسم تھی اورحق کو کسی ایک مسلک ہی میں محصور سمجھا جانے لگا تھا ایک مسلک پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مسلک پر عمل کرنا ‘ تلفیق ‘سمجھا جاتا تھا اپنے علماء کے اقوال کو درست ثابت کرنے کیلئے کتاب وسنت کی بیجا تاویلات کی جاتی تھیں اور بعض اوقات کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی تھی، ایسے حالات میں سلفی تحریک کا ظہور ہوا جس کامقصدِ اولیں دینی و فقہی مسائل میں براہ راست کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا تھا اسکے بعد صحابہ وتابعین اور ان علماء حق کی پیروی کرنا تھا جن کا قول یا عمل کتاب وسنت سے قریب تر ہو، کسی امام یا کسی خاص مسلک کی مخالفت ہرگز مقصود نہ تھی لیکن چونکہ ان کی بنیاد ہی کسی ایک امام کی پیروی سے بغاوت تھی اسلئے سب سے پہلے ان کا ٹکراؤ انھیں افراد سے پیش آیا جو دینی مسائل میں کسی ایک امام یا مسلک کی اتباع کے قائل تھے اسکی واضح مثال ہندستان میں دیوبندیت اور سلفیت (اہلحدیث)  کا ٹکراؤ ہے۔

سلفیت کا پیغام اورطریقہ کار  دونوں  بہت شاندار تھا،اکابر علماء اہلحدیث نے احادیث کی شرح اور دینی و فقہی مسائل کے استدلال واستنباط میں اسکا پورا پورا خیال رکھا یہی وجہ ہے کہ احادیث کی اب تک جتنی بھی شرحیں لکھی گئیں، ان میں سلفی علماءکی شروحات بہت ممتاز مقام رکھتی ہیں، لیکن  یہ تحریک بھی زوال پذیر ہونے لگی اور رفتہ رفتہ یہ ایک فقہی مسلک کی شکل اختیار کرتی چلی گئی، اسے بھی جمود کا وہی لقوہ مار گیاجو دوسری جماعتوں کو پہلے ہی مارچکا تھا قدیم علماء میں علامہ ابن تیمیہ اورعلامہ ابن قیم رحمہما اللہ اور جدید علماء میں علامہ ابن باز اور علامہ ناصر الدین البانی کو حرف آخر سمجھا جانے لگا جسکی وجہ سے بعض لوگوں نے انھیں تیمی یا بازی بھی کہنا شروع کردیا۔

اٹھارویں صدی میں اٹھنے والی شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک  کو اسوقت بڑی تقویت ملی جب جزيرة العرب میں آل شیخ کے تعاون سے آل سعود کی حکومت قائم ہوگئی جس کی وجہ سےاس تحریک کو پنپنے کیلئے ایک اسٹیٹ مل گیااور جب پٹرو ڈالر کا زمانہ آیا اور دنیا بھر سے لوگ مرکز اسلام یعنی  ‘ نجد ‘ اور سعودیہ عربیۃ کا رخ کرنے لگے تواس تحریک کو خوب پھلنے وپھولنے کا موقع ملا۔

اکثر لوگ پوری اہلحدیث جماعت کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے ہیں اور وہ یہ بات بھول جاتے ہیں  کہ سلفیت یا اہلحدیثیت ایک فقہی مسلک کے ساتھ ساتھ تحریک بھی ہے جنھیں ہم الگ الگ نام یعنی جماعت اہلحدیث اور جمعیت اہلحدیث کے نام سے تعبیر کرتےہیں۔

جماعت اہلحدیث ایک فقہی مسلک کا نام ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جو اہلحدیث ہو وہ جمعیت اہلحدیث سے تعلق بھی رکھتا ہو اسی لئے یہ لوگ کسی بھی دوسری جماعت، تنظیم یا مکتب فکر کا حصہ بن جاتے ہیں، جہاں تک جمعیت اہلحدیث کا تعلق ہے تو اب یہ جمعیت کسی  تحریک کا احساس نہیں دلاتی بلکہ یہ صرف اپنے مخصوص فقہی اور عقیدہ کے مسائل کی ترویج میں لگی رہتی ہے قومی سطح پر سیاسی وسماجی مسائل میں ان کا وجود کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا، اسوقت جمعیت اہلحدیث سخت داخلی انتشار کا شکار ہے، حالیہ تنظیمی انتخابات اسکی چغلی کرتے ہیں۔

یہ بات جاننے کی ہے کہ اکثرحکمراں طبقہ کو کسی بھی دین ومذہب سے کوئی خاص سروکار نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اسکا استعمال اپنے سیاسی اغراض ومقاصد کیلئے کرتی چلی آئی ہیں، سیاسی استحکام کیلئے مذہب اور بعض مذہبی طبقوں کا استعمال ہمیشہ سے کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ  اکثر  دھوکہ کھاجاتے ہیں اور بسا اوقات ان کیلئے صحیح و غلط میں فرق کرنادشوار ہوجاتا ہےاسکی واضح مثال حالیہ خلیجی بحران میں امام حرم کا سیاسی استعمال ہے، جیسا کہ انھوں نے حال ہی میں امریکا اور سعودی عرب کو دنیا میں امن کا علمبردار بتایا ہے، دوسری طرف اس مسئلہ میں عام لوگ بھی دو طبقوں میں بنٹ گئے ایک طرف سلفی جماعت تھی جس نے سعودی عرب کو ہر طرح سے حق بجانب ٹھہرایا اور سعودیہ کا حماس، اخوان المسلمون کو دہشت گرد ٹھہرانے اور اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی کو حق بجانب ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ قطر کا بھی فقہی مسلک وہی ہے جو سعودی عرب کا ہے اور ان دونوں ملکوں میں بے شمار رشتہ داریاں اور قرابتیں ہیں، ثقافت سے لے کر معاشرتی مسائل تک میں پوری یکسانیت موجود ہے، پھر کیوں کر انھوں نے قطر کی مخالفت کی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان جو وجہ اختلاف ہے وہ ان کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے، سعودی عرب چاہتا ہے کہ قطر خارجہ پالیسی میں اسکا تابع ہو جب کہ قطراپنی خارجہ پالیسی میں آزاد رہنا چاہتا ہے۔

اخوان اور حماس کے تئیں سعودی عرب کے موقف کی تبدیلی خالص سیاسی مصلحتوں کے زیراثر ہے،امریکی عدلیہ کے مطابق سعودی عرب نائن الیون کا ملزم ہے اور وہ اس الزام کو اپنے سر سے ہٹاکر دوسروں کے سر ڈالنا چاہتا ہے اسلئے اس نے دہشت گردی کا سارا الزام قطر کے سر منڈھنے کی کوشش کی، دوسری طرف محمد بن نایف کو ہٹاکر محمد بن سلمان کو ولی عہد اور پھر بادشاہ بنانے کا خواب امریکہ کے اشیرواد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور چونکہ اسرائیل بھی امریکہ کا لاڈلا ہے اسلئے اسکے کے   ساتھ  بھی   تعلقات  کو  خوشگوار  بنانا ضروری تھا اسی لئے چنیا بیگم کا یہ سارا ڈراما رچا گیا لیکن ان اسباب ومحرکات سے نظریں ہٹا کر  لوگوں نے  اسے  حق  و  باطل  اور معرکہ  کفر و اسلام سمجھ لیا۔

 دوسری طرف دیوبندی طبقہ ہے جو ایک دوسری انتہا پر ہے ہندستان میں مسلمانوں کی اکثریت انھیں پر مشتمل ہے، اہلسنت الجماعت کے مختلف مسالک احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ میں پہلے دن سے ہی فروعی مسائل میں اختلافات موجود ہیں، لیکن کبھی بھی ان جماعتوں نے ان فروعی اختلافات کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی حالانکہ جماعت اہلحدیث کے اختلافات بھی باقی جماعتوں کے ساتھ فروعی نوعیت ہی کےہیں لیکن  دیوبندی طبقہ نے انھیں  کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور پچھلی ایک صدی سے زائد عرصہ سے ان پر  ‘فرقۂ ضالہ’ اور کفر کے فتوؤں کی مسلسل گولہ باری کی ہےاور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، آج بھی ان کے ویبسائٹ پر آئے دن اس طرح کے فتوی آتے رہتے ہیں، دیوبندی طبقہ نے جماعت اہلحدیث کے ‘ عدم تقلید ‘ کے اصول کو کبھی بھی  تسلیم نہیں کیا اور ان پر اتنے پتھر برسائے  کہ پوری جماعت لہولہان ہوگئی، لیکن  اب جب کہ وقت نے کروٹ بدلا ہے اوران کا وقت آیا ہے، اب وہی پتھر وہ چن چن کرجب  واپس پھینکتے ہیں تو پوری جماعت بلبلا اٹھتی ہے اور وہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ انھیں کے اجداد کی بوئی ہوئی کھیتی ہے جسے نئی نسل کاٹ رہی ہے، اکثر سلفیوں پر خلیجی ممالک سے پٹروڈالر کے استفادہ کا الزام عائد کیا جاتا ہے حالانکہ اس استفادہ میں دیوبندی طبقہ ان سے کسی طرح پیچھے نہیں رہا ہے اور انھیں مادی مصلحتوں کے پیش نظر کچھ لوگ ہندستان کے اہلحدیث اور عرب ممالک کے سلفیوں کے درمیان فرق کرتے ہیں حالانکہ اصل کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔

پس چہ باید کرد

امت میں اختلاف ہمیشہ سے پایا جاتا رہا ہے اور یہ اختلاف کبھی ختم نہیں ہوسکتا جب ایک گھر کے مختصر سے کنبہ میں افراد خانہ کے نظریات الگ الگ ہوسکتے ہیں تو یہ تو اتنی بڑی امت ہے، نقطہ نظر میں اختلاف صحابہ کرام کے دور سے ہی چلا آرہا ہے ان کے بعد آئمہ عظام میں یہ اختلاف پایا جاتا رہا ہے اسکے باوجود بھی وہ اپنے اپنے طریقہ پر عمل  پیرا رہے  اور امت کے شیرازے کو بکھر نے سے روکا، دیوبندی طبقہ کو چاہئے کہ جس طرح انھوں نے شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کو تسلیم کیا ہے اسی طرح جماعت اہل حدیث کوبھی جماعتِ حق تسلیم کرے کیونکہ ان کے ساتھ ان کے اختلافات کی نوعیت بھی وہی ہے جو دوسرے مسالک کے ساتھ ہے، ساتھ ہی  فتوی بازی بند کرے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو ہمالیائی مسئلہ نہ بنائے اور فرقوں کے بجائے پوری امت کے بارے میں سوچے۔

اسی طرح سلفی جماعت کو بھی سمجھنا چاہئے کہ چند فقہی وعقائدی مسائل کا جھنڈا اٹھا لینے سے امت سر بلند نہیں ہوجائے گی، کرنے کے کام بہت سے ہیں، اپنے جمود کو توڑیں، اپنے اصل روح کی طرف واپس ہوں ، پھراس تحریک کے تنِ مردہ میں روح پھونکیں اور ‘رجوع الی اللکتاب والسنۃ’ کے شعار  کو بلند کریں، کسی ایک امام یا مسلک کی مخالفت نہ کریں بلکہ حق جس کے ساتھ بھی ہو اسکے ساتھ کھڑے ہوں، قومی سطح پر سیاسی وسماجی مسائل میں اپنے وجود کا احساس دلائیں اور امت کو متحد کرنے کے بارے میں سوچیں، اور یاد رکھیں کہ اختلافات کبھی مٹ نہیں سکتے اسلئے ان اختلافات کے ساتھ جینا سیکھیں اور امت کی کشتی کے پتوار بنیں اور مل جل کر اسکی نیّا پار لگائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔