اردو شاعری اور شہیدِ کربلا

علی یاسرؔ

 کربلا آسمانِ دہر پر چمکتا ہوا ایسا خورشیدِ درخشاں ہے جو محبانِ محمد و آلِ محمد کے لیے تابانیٔ ایمان اور دشمنوں کے لیے آتشِ جہنم برسا رہا ہے۔ حق و باطل کے اس عظیم ترین معرکے میں نواسۂ رسولؐ نے قربانی کی لا زوال مثالیں پیش کرکے دینِ اسلام کو بقائے دوام بخشی۔ امام حسینؑ کو محسنِ انسانیت اور امامِ مظلوم کا وہ مرتبہ حاصل ہے جو صرف ان کا ہی اختصاص ہے۔ جہل اور گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو انصاف اور صداقت سے مستفید کرنے اور شریعتِ محمدی کے اطلاق و احیا کے لیے امام نے قیام کیا۔ آج اگر دنیا میں دینِ اسلام اپنے نظامِ فکر، فلسفۂ قرآن و حدیث اور اساسِ عدل کے ساتھ موجود ہے تو اس کے لیے صرف امام حسینؑ کو محافظِ اسلام کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اپنے آبا و اجداد کی طرح انھوں نے بھی حق پر راہِ شہادت کا سفر اختیار کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جیسے اصحاب امامؑ کو میسر آئے ایسے نہ کسی نبی اور نہ ہی کسی امام کو نصیب ہوئے۔ امام کے قیام و قربانی نے نہ صرف اسلامی دنیا میں ایک مینارۂ نور کی حیثیت حاصل کی ہے بلکہ دنیا بھر کے اہل مذاہب امام کے عزم و ایثار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کربلا میں امام کی قربانیاں ان کے وارثِ رسولؐ و علیؑ ہونے کے باعث اور آغوشِ فاطمہؑ کے پروردہ ہونے کے سبب حق و باطل کے درمیان ایک امتیاز کا استعارہ ہیں۔

جب سے واقعۂ کربلا رونما ہوا ہے تب سے قیامت تک امامؑ کو خراجِ عقیدت اور مدحت و مودت کے نذرانے پیش کیے جاتے رہیں گے۔ دنیا بھر کی زبانوں اور ادب میں امامؑ کو اور واقعہ کربلا کو نمایاں انداز میں جگہ دی گئی ہے۔ ہمشیرۂ امام حضرت زینبؑ نے واقعۂ کربلا اور قربانیِ شہدا کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے لیے ذکر و مجالس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ خانوادۂ رسول کے مَردوں نے شہادت کے جام نوش فرمائے اور خواتینِ اہلِ بیتؑ نے ان قربانیوں کے مقاصداور فکرِ حسینی کے فروغ کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔

عربی اور فارسی ادب میں واقعۂ کربلا اور قربانیِ شبیرؑ کے موضوع پر قدیم زمانے سے شعر و ادب میں واضح طور پر فلسفۂ حق و باطل کو بیان کیا گیا ہے۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے نواسۂ رسولؐ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ دانش وروں اور شاعروں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ اردو شعر و نثر میں کربلا کو حق و باطل کا ایک اہم استعارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہمیشہ کے لیے حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد ہے۔

اردو کی ابتدائی شاعری میں صوفیہ کرام ہوں یا بہمنی، قطب شاہی یا عادل شاہی حکمران سبھی محمدؐ و آلِ محمدؑ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں شیعہ مذہب کی حامل تھیں۔ عزائے حسینی اور ولائے پنجتن کا شہرہ ہر جگہ تھا۔ شعر و ادب میں بادشاہ خود طاق تھے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے دربار سے وابستہ شعرا بھی کربلا و امام حسینؑ کے حوالے سے اشعار موزوں کرتے تھے۔ امام حسینؑ کا مقصد توحید، رسالت، امامت، شریعت،انسانی  مساوات، انصاف اور عظمتِ انسان کی حفاظت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ حق کو مٹانے آئے تھے وہی صفحۂ ہستی سے مٹ گئے اورامام حق شہادت کے درجے سے فیض یاب ہو کر ہمیشہ کے لیے غالب قرار پائے۔ فسق و فجور کے اصنام اپنی موت آپ مر گئے۔ اردو شاعری میں سرکارِ دوعالم کی نعت، حضرت علیؑ کی منقبت اور امام حسینؑ کی سلام گزاری کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔ حضرت علیؑ کے حوالے سے صرف میر، غالب اور بیدم شاہ وارثی کے تین تین اشعار پیش خدمت ہیں۔

میں علیؑ کو خدا نہیں جانا

پر خدا سے جدا نہیں جانا

جو معتقد نہیں ہے علی کے کمال کا

ہر بال اس کے تن پہ ہے موجب وبال کا

ہمت دے بادِ تند کو ایسی کہ بعدِ مرگ

مشتِ غبارِ میرؔ نجف پہنچے یا علیؑ

(میرؔ)

مشکیں لباسِ کعبہ علیؑ کے قدم سے جان

نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغولِ حق ہوں بندگیٔ بوترابؑ میں

کس سے ہو سکتی ہے مداحیٔ ممدوحِ خدا

کس سے ہو سکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں

(غالبؔ)

دستِ الٰہ کیوں نہ ہوں شیرِ خدا علیؑ

مقصود ہل اتیٰ ہیں شہِ لافتیٰ علیؑ

جس طرح ایک ذاتِ محمدؐ ہے بے مثال

پیدا ہوا نہ ہوگا کوئی دوسرا علیؑ

بیدمؔ یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات

خیرالنساؑ، حسینؑ و حسنؑ، مصطفیؐ، علیؑ

(بیدمؔ شاہ وارثی)

اس مختصر مضمون میں ہمارا مقصد صرف مختصر اشعار کا انتخاب پیش کرنا ہی ہے۔ ہمارے پیشِ نظر اردو کے قدیم و جدیدد شعرا کے وہ اشعار ہیں جو انتہائی معروف ہیں۔ یقینا لاکھوں شاعروں اور اشعار میں سے اکثر کا ذکر نہیں ہو سکتا لیکن پھر بھی اپنی سی کوشش کی گئی ہے۔ وقت گزرنے کے باوجود اساتذہ کے اشعار کو پڑھا، سنا اور سنایا جاتا ہے۔ مجالس و مراثی کی محافل نے شاعری کے ذریعے فلسفۂ کربلا کو عام کیا۔ اردو کے ابتدائی شعرا سے لے کر آج تک کے شاعر سبھی اپنے قلم کو آبِ مودت سے نم کیے ہوئے ہیں۔ تاریخی طور پر کربلا کو حق و باطل کے عظیم معرکے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ واقعۂ کربلا کے محرکات ماضی سے جڑے ہوئے تھے اور شیرِ خدا مولا علیؑ کی تلوار سے مٹنے والے باطل کی باقیات نے واقعہ کربلا اور نسلِ رسول کو مٹانے کا ناکام اور ناپاک عزم کیا۔ کربلا حق و باطل کا ایک معرکہ ہے اور حق ہمیشہ سے حسینؑ اور ان کے آبا کے ساتھ رہا ہے۔ اردو شعرائے کرام کی اکثریت مودتِ امام و خانوادۂ امامؑ سے سرشار تھی۔ حق و باطل کے حوالے سے شعرائے اردو نے انتہائی تاثیر اور برکت کے حامل اشعار تخلیق کیے۔ شعرا نے کربلا کو علامتِ حق اور فضیلتِ آلِ نبی کا مخزن قرار دیا۔

دشمن جو ہو حسین علیہ السلام کا

آتشؔ نہ کم سمجھ اسے ابنِ زیاد سے

(آتش)

جو کربلا میں شاہِ شہیداں سے پھِر گئے

کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھِر گئے

(امیر مینائی)

ڈوب کر پار اتر گیا اسلام

آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے

(یگانہ)

حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری

بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

 (اقبال)

دشت میں خونِ حسین ابن علی بہہ جائے

بیعتِ حاکمِ کفار نہ ہونے پائے

(مصطفی زیدی)

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

(افتخار عارف)

خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری

ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت ہے

(پروین شاکر)

تو نے صداقتوں کا نہ سودا کیا حسینؑ

باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی

(اقبال ساجد)

صبر کی ڈھال تیغ کو کرتی ہے کُند کس طرح

کوئی اگر یہ سن سکے کہتی ہے کربلا کہ یوں

(شکیل جاذب)

حسین دیکھ رہے تھے ذرا بجھا کے چراغ

کہیں بجھے تو نہیں دشت میں وفا کے چراغ

(نصرت مسعود)

 اسلامی تعلیمات میں فقر اور خاکساری کا حکم دیا گیا ہے۔ بلا شبہ محمد و آلِ محمد کی حیاتِ طیبہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی زندگی احکامِ الٰہی کی پاسداری، فقر اور سادگی میں بسر ہوئی۔ شعرائے اردو نے بھی فقر اور خاکساری کو منصبِ انسان کے لیے لازمی قرار دیا۔ اردو کے شعرا نے فقر و درویشی کو عطائے امام حسینؑ و خانوادۂ نبوی قرار دیا۔

انیس عمر بسر کر دو خاکساری میں

کہے نہ کوئی غلامِ ابوتراب نہیں

(انیس)

اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری

میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری

(اقبال)

ساحل تمام گردِ ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

(شکیب جلالی)

امام حسینؑ اور ان کے جانثار رفقائے شہادت کے لیے ذکر، غم، گریہ و ماتم کو ثواب و نجات کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ شعرائے کرام نے بھی اس موضوع پر انتہائی عمدہ اشعار تخلیق کیے۔ قدیم و جدید شعرائے کرام نے امام ؑ کے لیے آنسو بہانا، ماتم کرنا، سوگ منانا اور خود کو ملول کرنا لازمی قرار دیا۔شعرا نے اپنی وابستگیِ حق اور آبا کے چلن پر فخر کیا ہے۔ تلمیحِ اسیرانِ کربلا کی آہ و بکا سے زنداں کی دیواریں لرزنے کا بیان بھی خوب ہوا۔ اگر دل میں اہلِ بیتِ عظام کی محبت ہو تو پھر کسی چیز کا خوف نہیں بلکہ خود ان کی شفاعت کو صاحبانِ امر پہنچیں گے۔

حاتمؔ تمام عمر توُ رونے سے منہ نہ پھیر

ماتم ہے دوستوں کو شہ کربلا کا فرض

(حاتم)

تمھارے ساتھ میاں مصحفیؔ ہیں جوق کے جوق

مگر تم آئے ہو مجلس سے مرثیہ پڑھ کر

(مصحفی)

گلشنِ دہر بھی ہے کوئی سرائے ماتم

شبنم اس باغ میں جب آئے تو گریاں آئے

غمِ شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز

کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں

(غالب)

سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اُٹھے

کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے

(مومن)

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

(انیس)

اسیرانِ بلا نے آہ کچھ اس درد سے کھینچی

نگہباں چیخ اٹھے ہل گئی دیوار زنداں کی

(حسرت)

دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشقِ اہلِ بیتؑ

ڈھونڈتا پھرتا ہے ظلِ دامنِ حیدر مجھے

رونے والا ہوں شہیدِ کربلا کے غم میں ، میں

کیا دُرِ مقصد نہ دیں گے ساقیٔ کوثر مجھے

(اقبال)

اے ماتمیٔ پورِ مہِ شامِ غریباں

کچھ چارۂ بے چارگیٔ دل زدگاں ہو

(خالد احمد)

وراثتوں میں تری، تیرا خانوادہ بھی تھا

میں جان سکتا ہوں اے شافعِ امم ترا غم

اچھال دیتا جو پہلے فراتِ وقت ہمیں

سنبھالتے تری مشکیں ، ترا علم، ترا غم

(احسان اکبر)

گلی گلی سے صدائے علی علی آئے

بہ فیضِ ماتمیاں شورِ کوُ بہ کوُ کو سلام

(سید سلمان رضوی)

بیٹیاں ہوں درِ زہراؑ کی کنیزی کے لیے

اور ہم ماتمِ شہ کے لیے بیٹے مانگیں

(انجم خلیق)

دو چھلکتی ہوئی آنکھوں کے کٹورے لے کر

آج پیاسوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے ہیں

(ثاقب اکبر)

میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو

سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے

(عباس تابش)

سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوئی سینے میں

دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے

(فرحت عباس شاہ)

کلام کرتا ہے روشنی کا سفیر بن کر جو میرا آنسو

جلال ہے اس میں تیرے غم کا جمال کی آب و تاب تُو ہے

(شہاب صفدر)

کربلا سے شعرا نے بے خوفی، حق پرستی، جبر کے خلاف مزاحمت اور جذبۂ شہادت کشید کیا ہے۔ یہاں خود کو فنا کرکے بقائے دوام کو شہادت میں پوشیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ بے خوفی اور انکارِ باطل مقصدِ حیاتِ حق پرست ہے۔ امام کی قربانیوں کے ثمر کے طور پر اللہ نے انھیں عظمتِ دوام عطا کی۔ سوارِ دوشِ پیمبر، سردارِ جناں اور لختِ جگرِ مرتضیٰ امام حسین ؑ نے کارِ انبیا و آئمہ کو احسن انداز میں اپنے خون کی ندی بہا کر مکمل کیا۔ کربلا کے تاریخی واقعے کے بعد دنیا میں یزیدیت ایک گالی بن گئی۔ جبر و ستم کے پہاڑ توڑنے والے اہلِ حق و صداقت کے عزم کے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئے۔

حق و باطل کی ہے پیکار ہمیشہ جاری

جو نہ باطل سے ڈریں ہیں وہی شیعانِ حسین

(محمد علی جوہر)

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے

(فیض)

دلوں کو غسلِ طہارت کے واسطے جا کر

کہیں سے خونِ شہیدانِ نینوا لائو

(مصطفی زیدی)

حسین ابنِ علی کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

(شہریار)

کتنے یزید و شمر ہیں کوثر کی گھات میں

پانی حسین کو نہیں ملتا فرات کا

(صبا اکبر آبادی)

چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے

خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے

(منظر حنفی)

فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ

جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے

(افتخار عارف)

رنگین رہا دشت شہیدوں کے لہو سے

بہتا ہی رہا خون کا دریا، لبِ دریا

(سید نصیر الدین نصیر)

سلام ان پہ جنھیں دائمی حیات ملی

سلام ان پہ ہوئی موت جن سے شرمندہ

(حمیدہ شاہین)

  شعرائے اردو نے اپنے اپنے زمانے میں صبر کو ذریعۂ نجات قرار دیا۔ صبر ِ حسینؑ بے مثل اور بے لوث ہے۔ صبر وراثتِ انبیا ہے۔ ظلم و ستم کے سامنے انبیا و اوصیا نے ہمیشہ صبر و استقلال سے کام لیتے ہوئے حکمِ خداوندی پر ہر کام انجام دیا۔ صبر کے نتیجے میں عظیم لوگوں کو طرح طرح کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور شہادت کا جامِ شیریں انھیں حیاتِ جاوداں سے سرفراز رکھتا ہے۔ اردو کے شعرائے کرام نے صبرِ حسین کو ایک شعری استعارے کی صورت میں کربلا سے وابستہ کرتے ہوئے روشنی بخش موضوعات تحریر کیے۔

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق

نہ ملی ایک بوند پانی کی

ہم کشتۂ عشق ہیں ہمارا

میدان کی خاک ہی کفن ہے

(میر)

ستمگرو! نہ ستم کرتے کرتے تھک جانا

ہمارے صبر کی حد جنگِ کربلا تک ہے

(دبیر سیتا پوری)

کیا کیا گہر لٹے سرِ میدانِ کربلا

ہے یاد آسماں کو سخاوت حسینؑ کی

(خورشید رضوی)

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے

زخمی تھا بہت پائوں ، مسافت بھی بہت تھی

(پروین شاکر)

سلام ان پہ تہہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا

جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

(مجید امجد)

کیسی نجات، مل نہ سکے گی پناہ تک

اب تیر آ رہے ہیں مری خیمہ گاہ تک

(رئیس امروہوی)

اللہ رے تشنگانِ شہادت کا مرتبہ

اے بحرؔ آب خون ہوا ہے فرات میں

(بحر لکھنوی)

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

یہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

(عرفان صدیقی)

نکھارتا رہے گا نفسِ مطمئن

پکارتا رہے گا آدمی حسینؑ

(سلیم کوثر)

اعظمؔ اس شاہ پر کروڑوں سلام

جس کا غم ہے نجات کا ساماں

(اعظم چشتی)

حق کے لیے جاں دینے کی جو رسم چلی ہے

اس رسم کا بانی ہی حسینؑ ابنِ علیؑ ہے

(سعید اقبال سعدی)

کچھ ایسا معتبر ہے حوالہ حسین کا

بخشا ہوا ہے چاہنے والا حسین کا

(سرور حسین نقشبندی)

اردو کے شاعروں نے غزل، منقبت، سلام، مثنوی، نظم، رباعیات اور قطعات میں کربلا اور امامِ مظلومؑ کے دوام و عروج کو موضوع بنایا ہے۔ امام کو اور ان کی قربانیوں کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے مقبولیت حاصل ہے اور ان کو ایسا دوام ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔

خود نویدِ زندگی لائی قضا میرے لیے

شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے

(انیس)

جہاں پہنچے شہیدانِ وفا کے خوں کی بو آئی

قدم جس جس جگہ رکھے زمینِ کربلا پائی

(شاد عظیم آبادی)

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ

(اقبال)

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

(محمد علی جوہر)

دیکھو تو سلسلہ ادبِ مشرقین کا

دنیا کی ہر زبان پہ قبضہ حسین کا

(قیصر بارہوی)

تیغِ جفا کے سامنے آپ ہی ڈھال ہوگئے

ایسی مثال پیش کی، آپ مثال ہوگئے

(ظفر اقبال)

سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر

کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا

(افتخار عارف)

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؑ

چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؑ

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

(جوش)

یہ شہادت ہے اس انسان کی اب حشر تلک

آسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں

(احمد ندیم قاسمی)

جُز حسین ابنِ علی مرد نہ نکلا کوئی

جمع ہوتی رہی دنیا سرِ مقتل کیا کیا

(شہرت بخاری)

یا رب دکھا دے ایک جھلک اس شہید کی

جس نے لہو پہن کے محرم میں عید کی

(اقبال ساجد)

نکل کے جبر کے زنداں سے جب چلی تاریخ

نقاب اٹھاتی گئی قاتلوں کے چہروں کا

زندگی کے دیوانو، سوئے کربلا دیکھو

عشق کس سلیقے سے زندگی میں ڈھلتا ہے

سلام خانۂ زہراؑ ترے چراغوں پر

بجھے ہیں شمعِ رسالت کی روشنی کے لیے

(امید فاضلی)

جو سر اٹھے سرِ نوکِ سناں علم ہو کر

کس اوج ِ ہست پہ پہنچے وہ چند جستوں میں

(جلیل عالی)

تُو نے وہ کام کیا جس کی نہیں کوئی نظیر

فاتحِ کرب و بلا تجھ کو زمانوں کا سلام

سبھی زمانوں میں اس کی اذان بولتی ہے

جہاں جہاں ہے صداقت وہاں وہاں ہے حسینؑ

(ارشد محمود ناشاد)

یزید تُو نے تو کچھ دیر زندگانی کی

مرے حسینؑ نے صدیوں پہ حکمرانی کی

(اختر رضا سلیمی)

شعرائے اردو نے جا بجا کربلا کو سفینۂ نجات قرار دیا۔ کربلا کی تعلیمِ صبر و جرأت کی روشنی سے زندگی کو منور کرکے انسان قربتِ الٰہی کا مستحق بن سکتا ہے۔ شعرا نے کربلائی روح کی دعا بھی کی اور زمینِ کربلا کو باعثِ برکت و سرخروئی بھی قرار دیا۔وسیلۂ شاہِ کربلا اور خاکِ شفا کی بدولت مومنین کے دونوں جہان کامرانی کا عظیم نمونہ ہوں گے۔ خطۂ کربلا کو تاریخی حیثیت حاصل ہے اور امامؑ نے اسے اپنے قیام کے لیے خرید کر خود پسند فرمایا۔ اس زمین میں امامِ مظلوم اور ان کے وفادار جانبازوں کا خون شامل ہوا۔

اگر طالع کرے یاری تو مریے کربلا جا کر

عبیر اپنے کفن کی خاک ہو اُس آستانے کی

(میر)

دعائے آتشِ خستہ یہی ہے روزِ محشر کو

یہ مشتِ خاک ہوئے کربلا کی خاک سے پیدا

(آتش)

لکھوں جو میں کوئی مضمونِ ظلمِ چرخِ بریں

تو کربلا کی زمیں ہو مری غزل کی زمیں

(ذوق)

میں ڈھونڈوں ظفرؔ اور کا کیوں ظلِ حمایت

کافی ہے مجھے حیدر و شبیر کا سایہ

(بہادر شاہ ظفر)

امیرؔ اپنا دلِ پُر داغ سوئے کربلا لے چل

یہ گلدستہ ہے نذرِ روضۂ شبیر کے قابل

(امیر مینائی)

داستاں حسنِ حقیقت کی تھی رنگیں لیکن

اتنی رنگیں نہ تھی خونِ شہدا سے پہلے

سینچا ہوا لہو سے اک گلشنِ وفا ہے

عشقِ غیور تیرا آئینہ کربلا ہے

(جعفر علی خاں اثر)

اے کربلا کی خاک اِس احسان کو نہ بھول

تڑپی ہے تجھ پہ لاشِ جگر گوشۂ بتولؑ

اسلام کے لہو سے تری پیاس بجھ گئی

سیراب کر گیا تجھے خونِ رگِ رسول

(ظفر علی خان)

لے جائیں گے جنت میں منیرؔ اس کو پیمبرؐ

جو عاشقِ صادق ہے حسینؑ اور حسن ؑکا

(منیر شکوہ آبادی)

بلا کی ظلمتیں ہیں کربلا کی روشنی ہے

حسینؑ تیرے لہو میں خدا کی روشنی ہے

(علی اکبر عباس)

پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں

دشتِ بلا میں روح مجھے کربلائی دے

(پروین شاکر)

کربلا کچھ نہیں ہے جُز اک نام

نام میں روشنی حسینؑ سے ہے

(یاسمین حمید)

خاک میں شامل ہوئی خونِ ابو طالب کی باس

اور اس کا نام پھر خاکِ شفا رکھا گیا

(انجم خلیق)

یزیدِ عصر نئی کربلا کے درپے ہے

جبینِ وقت پہ شبیر لکھ دیا جائے

(ثاقب اکبر)

رکھتی ہے پاس خلقِ خدا خاکِ کربلا

کیونکہ ہے ہر مرض کی دوا خاکِ کربلا

(اسد رضوی)

عظمتِ امام حسینؑ کے حوالے سے بھی شعرا نے اپنے قلم کو جلائے تخیل بخشی۔ یقینا امام حسینؑ وہ فرزندِ رسولؐ ہیں جن کے بارے میں خود رسول اللہ نے فرمایا کہ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ شعرا نے ہر دور میں امام کی ضرورت کو ناگزیر قرار دیا۔ محشر میں ہر کسی کے اپنے امام کے ساتھ حاضر ہونے کے اسلامی حکم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شعرائے اردو نے عظمت و فضیلتِ امام کے شعور کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔

حاجت امام کی بھی ہے ناسخؔ اِسی طرح

دنیا میں جس طرح ہے پیمبر کی احتیاج

فکر کر یعنی تو ناسخؔ کا نہ غم کھا واعظا

شافع اِس کا بادشاہِ کربلا ہو جائے گا

(ناسخ)

پھر کوئی حسینؑ آئے گا اس دشتِ ستم میں

پرچم کسی زینب کی ردا ہو کے رہے گی

(شہرت بخاری)

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حسینؑ

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسینؑ

(منیر نیازی)

اک قدم کربلا سے جنت ہے

خلد کا راستا حسینؑ کا غم

(جان کاشمیری)

یہ بادشاہتِ دنیا تو آنی جانی ہے

چلے گا جنتِ فردوس میں نظامِ حسینؑ

(علی یاسر)

 شخصیاتِ سادات و اصحابِ حسینؑ کا تذکرہ بھی شعرائے اردو کا محبوب موضوع رہا ہے۔ شعرا نے غزل میں خوبصورت انداز سے ان تلمیحات کا استعمال کیا جن کا براہِ راست تعلق کربلا، سادات اور اصحابِ ذی وقارِ امام سے ہے۔ کربلا میں امام حسینؑ کے جانثاروں کا کردار مثالی اور انتہائی عظیم ہے۔ انھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ رضائے خدا کے لیے پیش کیا اور باطل کے سامنے جھُکنے کے بجائے جامِ شہادت نوش کرنا بہتر سمجھا۔ خدا و پیمبرِ خدا کے سامنے یہ لوگ ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوئے۔ امامؑ نے ان کے لیے جنت کی بشارت بھی دی۔خانوادۂ بنی ہاشم کے جانبازوں کے ساتھ ساتھ امامؑ کے عشاق اور اصحابِ باوفا کو شعرا نے انتہائی خوبصورتی سے خراجِ تحسین پیش کیا۔

چُور تھا زخموں میں اور کہتا تھا حُر

راحت اس تکلیف میں پائی بہت

(حالی)

جب کہیں قصرِ ستم آرا بنا

خون سے سادات کے گارا بنا

(صفی لکھنوی)

جانثاروں نے ترے کر دیے جنگل آباد

خاک اڑتی تھی شہیدانِ وفا سے پہلے

(نجم آفندی)

چہرۂ احمدِ مرسل کو بہ تفصیل پڑھیں

اسی تفصیل میں اکبر کی جوانی پڑھیے

(اختر حسین جعفری)

مقتول کے چہرے پر چمک تھی

تلوار کی آب سے زیادہ

(حسن اکبر کمال)

تیر سہ شعبہ ہے اور مشہور تیر انداز ہے

سامنے یہ کون کم سن عاشقِ جانباز ہے

(عزیز لکھنوی)

حُر نے شہِ مظلوم کا رستہ نہیں روکا

بھٹکا ہوا راہی تھا پتہ پوچھ رہا تھا

(اختر امام رضوی)

مرا حسینؑ ابھی کربلا نہیں پہنچا

میں حُر ہوں اور ابھی لشکرِ یزید میں ہوں

(حسن نثار)

وہ حُر ہو یا حسن رضاؔ سا شاعر کوئی

آئے اِدھر اک بار تو پھر وہ اُدھر نہیں رہتا

(حسن عباس رضا)

اسد ہے صاحبِ نہج البلاغہ کی بیٹی

علی کا لہجہ، وہ دربارِ شام، اور وہ کلام

(اختر عثمان)

کوئی بھولے گا تڑپ کیسے علی اکبر کی

سب کے سینوں میں وہ برچھی کی چبھن زندہ ہے

(خرم خلیق)

زینبؑ کی ردا میں ہیں بھرے ریت کے منظر

رکھنا مرے اشکوں کا بھرم شامِ غریباں

(نعمان منظور)

اصغر تیری پیاس گلے میں چبھتی ہے

سو میں سب روداد سنائوں آنکھوں سے

(سعید دوشی)

ہر نفس پر ہے ترے نقشِ یقیں کا پرتو

چاہے احساس کا منظر کوئی سارا دیکھے

(جنید آزر)

فوجِ یزید چھوڑ کے آیا حسینؑ تک

حُر آج اپنے اصلی ٹھکانے پہ آ گیا

(طالب حسین طالب)

راہِ حق میں وہ تری جان کی بازی غازی

ہو مبارک یہ تجھے عمر درازی غازی

جب کبھی بھی کیا جائے گا کہیں ذکرِ وفا

چار جانب سے صدا آئے گی غازی غازی

(علی یاسر)

          شعرا کو ادراک ہے کہ ان کو ولائے محمد و آلِ محمد اور شہیدِ کربلا کے عشق کے ثمر کے طور پر نجات ملے گی۔ انھیں یقینِ محکم ہے کہ وہ دوزخ کی آگ سے محفوظ  اور جنت میں آرام و سکون سے رہیں گے کیونکہ انھیں ان ہستیوں سے محبت ہے جو جنت کی مالک ہیں۔ شاعروں کے لیے مدحتِ سید الشہداؑ ایک اعزاز اور کامیابی کی کلید ہے۔ عاشقانِ حسینؑ کو حشر کا کوئی خوف نہیں اور ان کی کامرانی یقینی ہے۔ امامؑ کے محبان کو ہر وقت نجف و کربلا سے سندِ بخشش کی بادِ نسیم کے جھونکے آتے ہیں۔

گر نہ ہوتا سرخ رو اشکِ غمِ شبیر سے

حشر میں کس منہ سے ناسخؔ میں شفاعت مانگتا

گرچہ ہوں ہند میں لیکن مجھے ناسخؔ ہر دم

روضۂ حیدرِ کرار نظر آتا ہے

(ناسخ)

غمِ حسینؑ میں اٹھے گا سرخ رُو، اے داغؔ

یہ بوجھ تو نے اٹھایا علی علی کرکے

(داغ)

سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی

(عرفان صدیقی)

آخرت میں مری بخشش کی ضمانت ہوں گے

یہی آنسو جو مری آنکھ میں آئے ہوئے ہیں

(علی رضا)

میں آیا بابِ جناں پر تو یہ صدا آئی

اسے نہ روکو کہ یہ مدح خواں حسینؑ کا ہے

(علی یاسر)

          امام حسینؑ کے سجدۂ آخر کو بھی شعرائے خوش کلام نے انتہائی خوبصورت طور سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس فلسفے کو بیان کیا جس کے تحت امامؑ نے اپنی قربانیاں پیش کرنے کے بعد اپنا سر سجدۂ شکر میں کٹوا دیا۔ امام اپنے والدِ بزرگوار علیؑ کی طرح یہی فرما رہے تھے کہ ربِ کعبہ کی قسم میں اس عظیم امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ امامؑ کے اس سجدے کی بدولت دینِ خدا کو بقا ملی۔

تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح

فریادی ہوں گے مَل کے لہو کو جبیں سے ہم

بارِ سجدہ ادا کیا تہہِ تیغ

کب سے یہ بوجھ مرے سر پر تھا

(میر)

اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے

اک ضربِ ید اللہی اک سجدۂ شبیری

(وقار انبالوی)

وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

(اقبال)

رکھو سجدے میں سر اور بھول جائو

کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے

(عبید اللہ علیم)

ملی نہ جن کی جبیں کو پئے سجود جگہ

انہی کے پاک لہو سے ہے با وضو مٹی

(محسن نقوی)

یہ بچھتی جا رہی ہے ارضِ مقتل کس کے قدموں میں

ادا کس نے کیا یہ زیرِ خنجر عصر کا سجدہ

(نصرت زیدی)

نازِ بشریت ہے ترا سجدۂ آخر

رُخ پھیر دیا جس نے زمانے کی ہوا کا

(حفیظ تائب)

جو وارثِ چمن ہو بچاتا ہے وہ چمن

اسلام بن گیا تھا وراثت امامؑ کی

(علی یاسر)

          یزید نے امام حسینؑ سے بیعت کا سوال کیا تھا لیکن کبھی حق بھی باطل کے سامنے جھکتا ہے؟۔ تاریخ گواہ ہے کہ حق پرست بیعتِ باطل کے بجائے موت کا انتخاب کرتے ہیں۔ انکارِبیعت کو بھی اردو شاعری میں ایک عظیم تلازمۂ صداقت کی حیثیت حاصل ہے۔

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

(فراز)

سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت

مگر جواب وہی معتبر حسینؑ کا ہے

(افتخار عارف)

کسی سے اب کوئی بیعت طلب نہیں کرتا

کہ اہلِ تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے

(گلزار بخاری)

بیعت کا ہاتھ دوں گا نہ ہر گز یزید کو

تیری گواہی دینا ہے تیرے شہید کو

(ثاقب اکبر)

یونہی تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا

ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا

(عباس تابشؔ)

          واقعۂ کربلا کا اثر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں پر بھی ہوا۔ امامؑ کی شخصیت کو سبھی نے سلام پیش کیا۔ غیر مسلم دانش وروں اور شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں امام حسینؑ کو خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی قربانی کو تاریخ کی اہم ترین منزل قرار دیا۔ غیر مسلم شعرا میں ہندو اور سکھ شعرا نے بطورِ خاص ایسے ایسے مضامین پیش کیے جو بارگاہِ امام میں مقبول و منظور محسوس ہوتے ہیں۔ ان غیر مسلم شاعروں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن کچھ شعراکے یادگار اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں جن سے ان کی ذاتِ امامؑ اور کربلا کے فلسفے سے گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان شاعروں نے تخیل و فکر کی پرواز سے منفرد موضوعات کو واقعۂ کربلا کے آئینے میں بیان کیا۔

انسانیت حسین ترے دم کے ساتھ ہے

ماتھرؔ بھی اے حسین ترے غم کے ساتھ ہے

مسلمانوں کا منشائے عقیدت اور ہی کچھ ہے

مگر سبطِ نبی سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے

پرائے دیس میں اپنوں کی سی خو ڈھونڈ لیتے ہیں

علی والے علی والوں کی خوشبو ڈھونڈ لیتے ہیں

مسلمانوں کی نظروں کو نہ جانے کیا ہوا ماتھر

فضائل میرے مولا کے تو ہندو ڈھونڈ لیتے ہیں

غم ہے مری فطرت میں تو غم کرتا ہوں ماتھرؔ

ہندو ہوں مگر دشمنِ شبیرؑ نہیں ہوں

(منشی دیشو پرشاد ماتھر)

خمارؔ اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا

غمِ حسینؑ پہ ہم انحصار کرتے ہیں

(ست نام سنگھ خمار)

یہ معجزہ بھی پیاس جہاں کو دکھا گئی

آنکھوں میں آنسوئوں کی سبیلیں لگا گئی

کرب و بلا میں دیکھیے شبیرؑ کی ’’نہیں ‘‘

ہر دور کے یزید کو جڑ ے مٹا گئی

(سورج سنگھ سورج)

ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ

ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی

(رام پرکاش ساحر)

وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہلِ بیت کا غم

وہ پھوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں

(رائے بہادر بابو اتار دین)

قرآن اور حسین برابر ہیں شان میں

دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں

قرآں کلامِ پاک ہے شبیر نور ہے

دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے

(دلو رام کوثری)

رکھتے ہیں جو شبیر سے کاوش پنڈت

ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے

(پنڈت ایسری پرشاد دہلوی)

جے سنگھ پناہ مانگے گی مجھ سے نرگ کی آگ

 ہندو تو ہوں مگر ہوں میں شیدا حسینؑ کا

(جے سنگھ )

سلامی کیا کوئی بے کار ہے جی سے گزر جانا

حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مر جانا

نہیں آتا جنہیں راہِ حقیقت سے گزر جانا

حسین ابنِ علی سے سیکھ لیں وہ لوگ مر جانا

(حکیم چھنو مل دہلوی)

حسین ابنِ علی ہیں فرد یکتا

کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا

دیا سر آپ نے راہِ خدا میں

کِیا دینِ نبی کو دین اپنا

ولائے سبطِ پیغمبر ہے نعمت

یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا

(سرکش پرشاد)

حسینؑ حوصلۂ انقلاب دیتا  ہے

حسین شمع نہیں آفتاب دیتا ہے

(سنت درشن سنگھ)

گلشنِ صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسین

شمعِ عالم، مشعلِ دنیا، چراغِ دیں حسین

بادۂ ہستی کا ہستی سے تری ہے کیف و کم

اٹھ نہیں سکتا ترے آگے سرِ لوح و قلم

(کنور مہندر سنگھ بیدی)

رہے گا رنج زمانے میں یادگار ترا

وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا

(چکبست)

لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے

ہوا یقین کہ منزل کو پا لیا میں نے

خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسینؑ ملیں

تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے

(چرن سنگھ چرن)

ہے آج بھی زمانے میں چرچا حسینؑ کا

چلتا ہے ملک ملک میں سِکہ حسینؑ کا

بھارت میں گر وہ آتا تو بھگوان کہتے ہم

ہر ہندو نام پوجا میں جپتا حسین ؑ کا

مذہب کی کوئی بات نہیں دل کی بات ہے

ہر حق پرست دل سے ہے شیدا حسینؑ کا

مسلم تو پڑھتے آئے ہیں کلمہ رسولؐ کا

ہم ہندوئوں نے پڑھ لیا کلمہ حسینؑ کا

ساحل سے سر پٹختی ہیں پیاسوں کی یاد میں

لے لے کے نام گنگا و جمنا حسینؑ کا

اس میں نہیں کلام کہ ہم بُت پرست ہیں

آنکھوں سے اپنی چومیں گے روضہ حسینؑ کا

(دیوی روپ کماری)

           کائنات کے تمام سمندر روشنائی بن جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں پھر بھی محمد و آلِ محمد جمال و جلال الٰہی کے ایسے مظاہر ہیں کہ ان کے مکمل فضائل و مناقب رقم نہیں کیے جا سکتے۔ اس مختصر سے مضمون میں چند اشعار کے ذریعے اس رجحان کی طرف اشارا کیا گیا ہے جو شعرائے اردو کے شعری شعور کا خاصہ رہا ہے۔ کربلا اور شاہِ کربلا کا ذکر شاعروں کی عقیدت اور صداقت کا عظیم اظہار ہے۔ ازل سے ابد تک ذکرِ حسین جاری و ساری رہے گا اور شاعر اپنے کلام میں امامِ مظلومؑ کے ذکر سے تخیل کے رنگا رنگ پھول کھلاتے رہیں گے۔ آخر میں محسن نقوی شہید کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ حق کس طرح ادا ہوگا

غمِ حسین زیادہ ہے زندگی کم ہے

جن کے سجدوں سے منور ہے جبینِ آفتاب

میرے حرفوں کی عبادت ان خدا والوں کے نام

میری شہ رگ کا لہو، نذرِ شہیدانِ وفا

میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام

(محسن نقوی)

تبصرے بند ہیں۔