مطالعات، مشاہدات، تجربات

ثناء اللہ

یہ کتاب 48؍صفحات پر مشتمل ایک مختصر کتابچہ ہے۔ یہ مولانا محمد فاروق خان صاحب کے انٹرویو پر مشتمل ہے، جو ابوالاعلی سید سبحانی نے ان سے لیا اور اس سے قبل ماہنامہ رفیق منزل نئی دہلی اور سہ روزہ دعوت نئی دہلی میں کئی قسطوں میں شائع ہوچکاہے۔ اس میں مزید اضافہ کرکے یکجا کتابی شکل میں شائع کردیا گیا ہے۔

 آج جہاں علوم کا انفجار ہورہا ہے، وہیں قرآن اور بحیثیت مجموعی علوم دینیات میں قحط الرجال ہے۔ جو چند گنے چنے لوگ ہیں ان کی شناخت بھی پردۂ خفا میں ہے۔ آج اسلامیات میں علم کے حصول کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو علوم قدیم کتابوں میں درج ہیں ان کو من وعن پڑھ کر مان لیا جائے، چاہے وہ عقل میں سمائے یا نہیں ۔ یہ قدیم کتابیں اکثر دورِ زوال کی تصنیف کردہ ہیں ، آج کے علوم جدیدہ کا ساتھ کم ہی دے پاتی ہیں ، کیونکہ بہت سے حقائق پر دبیز غلاف پڑا ہوا ہے۔ کچھ تو اغیار کی سازشوں کی وجہ سے اور کچھ اپنی سادہ لوحی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے۔ پھر امت مسلمہ میں اکابر پرستی کا روگ اپنی جڑیں اس طرح جماچکا ہے کہ الامان والحفیظ!

پردۂ خفا میں مدفون علوم اسلامیہ کی تلاش وجستجو کرنے والوں کے خلاف جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے وہ انتہائی ناروا اور بعض اوقات ناقابل بیان حد تک روح فرسا ہوتا ہے۔ پھر بھی ایسے کئی لوگ منصہ شہود پر وارد ہوتے ہیں جنہوں نے اس جمود کو توڑنے میں کسی تکلیف اور ملامت کی پروا نہیں کی۔ یوں تو پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ تجدد پسندی نے بھی خوب سراٹھایا ہے۔ اس لیے کم علم والوں کے لیے بڑی مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ تجدید اور تجدد میں فرق نہیں کرپاتے۔ وہ دوست کو بھی دشمن سمجھ لیتے ہیں ۔

اللہ رب العزت نے سرزمین ہند کو احیائے علوم دینیہ کے رجال سے مالامال کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حمیدالدین فراہی، ابوالاعلی مودودی، محمد اقبال، اور حمیداللہ جیسی عبقری شخصیات کا ورود مسعود اسی سرزمین ہند سے ہوا۔ یہ فخر کا نہیں تحدیث نعمت کا مقام ہے، لیکن امت مسلمہ ہند نے ان کی قدر نہ پہچانی۔ کتنے ہی اسلامیات کے ماہرین ان کے نام تک سے واقف نہیں ۔ ان کے اپنے اپنے حضرت جی اور شیخ جی کی طویل فہرست ہے۔ بعض حضرات تو نقد وتکفیر کا فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں تاکہ خدا نے ان کو جو مقام دیا ہے اس سے ان کو محروم کردیں ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مولانا محمد فاروق خان صاحب مختلف الجہات علوم میں بڑی حد تک دسترس رکھتے ہیں ۔ خصوصی طور پر علوم قرآنی میں نمایاں دلچسپی ہے۔ مذکورہ بالا اہم علمی شخصیات کے علاوہ ملک وبیرون ملک کی جدید وقدیم شخصیات کے علوم سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں ۔ تصوف سے بھی دلچسپی ہی نہیں بلکہ بیعت واجازت کے حامل ہیں ۔ لیکن اس کو انہوں نے کاروبار نہیں بنایا۔ جاہلی تصوف سے مکمل اجتناب ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تصوف میں سے جاہلیت کو خارج کردینے کے بعد تو وہ تصوف ہی نہیں رہتا۔ تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ قرآنی تزکیہ نفس اور رجوع الی اللہ کے خالص اسلامی پہلو، جن کو اکثر آج کل نظرانداز کردیا گیا ہے، اس میں موصوف کو گہرا دخل حاصل ہے۔ دوردراز سے مسلم وغیرمسلم دانشور ان سے استفادہ کرنے آتے ہیں ۔ دوسری طرف قرب وجوار کے لوگ بھی ان سے اور ان کے مقام سے ناآشنا ہیں ۔ بزرگوں سے استفادہ اور عقیدت مندی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کی ہربات سے اتفاق ہو اور ذہنی غلامی میں آدمی گرفتار ہوجائے۔ مولانا موصوف کے اندر اس معاملے میں کافی توسع ہے۔ اپنے اکابرین کی بھی بہت سی باتوں سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی خود سے اختلاف کرنے والوں کے ساتھ بھی وہ بڑی خوش گواری سے پیش آتے ہیں ۔ ایسا توسع بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

پیش نظر انٹرویو میں مولانا کے بچپن، آبائی وطن، تعلیم وغیرہ سے متعلق مفید معلومات ہیں ۔ مولانا کی اعلی تعلیم ہندی زبان وادب میں ہوئی ہے۔ وہ خود ہندی اور اردو زبان کے شاعر بھی ہیں ۔ عربی اور فارسی کی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ تک اسکول میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں ۔ 1957ء کے آس پاس ہندی زبان میں ترجمۂ قرآن کے لیے ان کو رام پور بلایا گیا۔ مکتبہ الحسنات کے مالک ابوسلیم عبدالحی صاحب جو جماعت اسلامی کے رکن بلکہ مرکزی شخصیات میں سے تھے، انہوں نے اپنے مکتبے کے لیے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ کروایا۔ ان دنوں جماعت اسلامی کا مرکز رام پور ہی میں تھا۔ وہاں عربی زبان کے کئی ماہراساتذہ سے قرآن سمجھنے کا ان کو موقع ملا۔ قرآنی رموز اور مشکلات حل کرنے میں امام فراہیؒ کے مکتب فکر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مولانا موصوف نے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ ادب، فلسفہ، عمرانیات، جدید علوم سائنس، نفسیات وغیرہ پر ان کا بہت گہرا مطالعہ ہے۔ ہندی میں خطابت کی الگ ہی شان ہے۔ کئی ہندو اور مسلم سبھاؤں میں بڑے آدر کے ساتھ بلائے گئے۔ اپنے گہرے علم سے لوگوں کو متأثر کیا اور خراج تحسین حاصل کی۔

مرکز جماعت اسلامی ہند نے ہندی میں احادیث کے مجموعہ کا ایک جامع منصوبہ بنایااور مولانا کو یہ کام سونپا گیا۔ اس دوران مختلف ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے تحریکی اور دعوتی نقطۂ نظر سے سات جلدوں میں ’’کلام نبوت‘‘ کے نام سے اردو میں احادیث کا مجموعہ تیار کیا۔ اردو میں اس لیے تاکہ علماء کرام اس پر نظر ثانی کرسکیں ۔ پھر اسے ہندی میں ’’حدیث سوربھ‘‘ کے نام سے منتقل کیا گیا۔ آپ کا اردو ترجمہ قرآن بھی بہت مقبول ہوا۔ لیکن ہندی ترجمہ قرآن ہی مولانا کی اصلی شناخت قرار پایا۔ ابھی حال ہی میں مولانا نے ہندی میں قرآن مجید کی تفسیر بھی مکمل کرلی ہے۔ یہ تفسیر ابھی طباعت کے مرحلے میں ہے۔

قرآن وحدیث پر ان مبسوط کاموں کے علاوہ مختلف موضوعات پر چھوٹی بڑی تقریباً تین درجن کتابیں اردو اور ہندی میں مولانا نے تصنیف کیں ۔ ان کتابوں میں ادب، منطقی دلائل کی حلاوت کچھ عجیب طرح سے سمودی گئی ہے کہ قاری اس سے اثر لیے اور محظوظ ہوئے بغیر گزر نہیں سکتا۔ کتاب لکھنے والوں میں زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں جو مصنف نہیں بلکہ محض مرتب ہوتے ہیں ۔ چند کتابوں کے حوالے سے مواد جمع کیا اور ترتیب دے کر ایک کتاب تیار کردی۔ اپنی طرف سے اس میں کوئی ندرت، نئی جہت، نئی یافت، اور گرہ کشائی نہیں پائی جاتی۔ اس اعتبار سے مولانا کے یہاں کافی عرفانی، علمی، تجرباتی مواد اور ندرت پائی جاتی ہے۔ مولانا اوریجنل مصنف کی صف میں جگہ پانے کے بجا طور پر مستحق ہیں ۔ اس انٹرویو میں بھی ایسی بھرپور غذا ہے۔ خاص طور پر جہاں قرآن کا ذکر چھڑجائے تو پھر مولانا وجد میں آجاتے ہیں اور قرآنی معارف کے ہیرے جواہرات رولنے لگتے ہیں ۔ اس انٹرویو کے قارئین کو بھی قرآنی نور سے بصیرت افروز ہونے کا موقع ملے گا۔ اللہ تعالی اس انٹرویوکو جمع کرنے والے اور شائع کرنے والے (القلم پبلی کیشنز، بارہمولہ کشمیر) کو دنیا وآخرت میں بھرپور جزائے خیر دے۔ آمین

آخر میں کچھ کمیوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ صفحہ 36؍پر قرآن مجید کی آیت غلط پرنٹ ہوئی ہے، یہی آیت صفحہ 40؍پر صحیح درج ہوئی ہے۔ قارئین کو بجاطور پر مولانا موصوف کے اہل خاندان کے بارے میں بھی جاننے کا تجسس ہوگا مگر اس میں یہ سامان نہیں ہے۔ صفحہ 46؍ کی دوسری سطر میں ’فیملی آف گارڈ‘ چھپا ہے، یہاں ’گاڈ‘ (God) ہونا چاہیے۔ بحیثیت مجموعی طباعت وکتابت مناسب ہے۔ قیمت ۴۰؍روپے بھی مناسب ہے۔ ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔ کشمیر کے علاوہ دہلی کے مکتبہ ’ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس‘ سے بھی یہ کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔

مطالعات، مشاہدات، تجربات(ایک نشست، معروف اسلامی دانشور مولانا محمد فاروق خان کے ساتھ)، انٹرویو: ابوالاعلی سید سبحانی، صفحات: 48، قیمت: 40؍روپے، اشاعت: 2017ء، ناشر: القلم پبلی کیشنز، بارہمولہ۔ کشمیر، تبصرہ: ثناء اللہ، نئی دہلی۔ 25

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ماشاءاللہ..تبصرہ بھی بہت عمدہ ہے,میں تواس ریگزارعرب میں ہوں جہاں اس کتاب کی رسائی ناممکن ہے.

    مولانافاروق خاں صاحب کی یہ کتاب توپڑھنےسےتعلق رکھتی ہے.

    ویسےتحریک اسلامی کی نامورزندہ ہستیوں کےتجربات ومشاہدات پرکتاب مرتب ہونی چاہیے,جیسےکہ خرم مراد صاحب کی,,مشاہدات,,ہے.

    تحریک کی بڑی ہی قابل قدرہستیاں آئےدن جداہورہی ہیں لیکن ان کےتجربات ومشاہدات پرمبنی کتابیں نہیں آرہی غالباوجہ یہ ہوکہ کوئی صاحب ان کےتجربات ومشاہدات کوقلم بند کرنےکی فرصت نہ پاتےہوں,ویسےکچھ لوگوں یہ سلسلہ درازکرناچاہیے.

تبصرے بند ہیں۔