جمہوریت کے دعویدار!

محمد خان مصباح الدین

جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ہندوستان جیسے جُمہوری اور سیکولر ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے رہتے آئے ہیں اور ہندوستان کے تہذیبی تنوع، رنگا رنگی، دل کشی اور کثرت میں وحدت اور وسیع النظری کا نمونہ پیش کرتے ہیں ، محض امریکہ اور یورپ کی خوشنودی؛ بلکہ خوشامد میں اس ملک کو برباد اور اور اس کے وجود کو کھوکھلا کرکے اپنے مقاصد کا اڈہ بنانے چاہتے ہیں حالانکہ اسے غیرفطری اور نامعقول طریقہ پر لے جانے کی کوشش کرنا، جہاں دستور ہند کے خلاف ہے، وہیں ہندوستان کی تاریخی وتہذیبی روایت اور تقاضائے انسانیت کے بھی خلاف ہے۔

آج تقریبا 70 سال گزر جانے کے بعد بھی اس ملک کے باشندوں کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ آج تک پوری نہیں ہو سکی۔ اسکی دو اہم وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اوّل تو جمہوریت کے علمبرداروں اور اس کا خیر مقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو خود ہی نہیں سمجھا تھا۔ وہ لوگ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں رہ گئے کہ جمہوریت قائم ہوتے ہی بس ہر طرف عدل و انصاف اور آزادی و مساوات دکھنے لگے گا۔مگر یہ ایک خواب تھا جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ دوسری وجہ یہ کہ اس نظام کو قائم کرنے والوں نے صحیح معنیٰ میں جمہوری نظام قائم ہی نہیں کیا۔

ماہرین سیاسیات نے مختلف پہلو سے اس مسئلہ کا تنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہونچے کہ ابتداء سے ہی جمہوریت کا مفہوم واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی اتنی مختلف اور مبمل تعریف بیان کی گئی کہ ہر شخص نے اس کا جو مطلب چاہا سمجھ لیا اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہر فریق اپنے پسندیدہ نظام کو ہی جمہوری نظام سمجھتا اور بتاتا ہے اور اپنے آپ کو ہی جمہوریت کا حامی اور علمبردار کہتا ہے جبکہ ان میں سے ہر گروہ کے نظریات و اصول بالکل مختلف ہیں اور ہر فریق مخالف فریق کو جمہوریت کا دشمن، ملک کا دشمن، قوم کا دشمن اور آخر میں دہشت گرد قرار دے دیتا ہے۔ اگر جمہوریت اتنا وسیع المعنیٰ لفظ ہے کہ اس کا اطلاق ہر قسم کی حکومتوں اور ہر نوع کے نظام پر ہو سکتا ہے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ یہ ایک ایسا لیبل ہے جو جب اور جہاں چاہیں چسپاں کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کے نام پر اختلافات، بحثیں ، تصادم، خوں ریزیاں اور قربانیاں کیوں ؟

قارئین کرام!

حاکمیتِ عوام، مساوات اور انفرادی آزادی جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں ۔ انہی عناصرِ ثلاثہ سے مل کرجمہوریت کا پیکر بناہے۔ اگر ان میں سے ایک عنصر بھی غائب ہوجائے تو اس سے جمہوریت کا حسن مجروح ہوگا، اور اگر تینوں ہی عناصر موجود نہ ہوں تو پھر وہ جمہوریت نہیں آمریت اور ملوکیت ہے۔

ہمارے ملک کی جمہوریت برائے نام ہے اس لیے کہ ہندوستان کا ہر وہ شخص جو کمزور اور اقلیت کہلاتا ہے وہ مجبور ہے پریشان ہے اور جمہوریت کے بنیادی حقوق سے بے بھی کچھ حد تک بے دخل ہے مگر یہ ساری کمزوری خود کی پیداوار ہے. کیونکہ مسلمانوں نے آپس میں اتنا تفرقہ پھیلا رکھا ہے کہ انہیں اپنے بچوں اور اپنے مستقبل کا ذرا بھی خیال نہیں میں مانتا ہوں کہ مسلک میں اتحاد نہیں ہوسکتا۔  عقائد میں بھی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہمارے مسائل مشترک ہیں اس لئے ان اہم اور سنگین مسائل کے حل کیلئے ہمیں متحدہ طورپر جدوجہد کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ باہم متحد رہیں ۔  کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ملک میں ہم مسلمان جب بھی اتحاد کی بات کرتے ہیں تو فرقہ پرست طاقتیں خائف ہوجاتی ہیں اورسوچنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ آخر مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی بات کیوں ہورہی ہے۔  انہیں پتہ ہے کہ اگر ملک میں مسلمان متحد ہوجائیں گے تو ان کی ساری سازشیں ناکام ہوجائیں گی لیکن ہمارا اتحاد ملک میں جمہوریت کی حفاظت کیلئے ہونا ہے ہم خواہ کسی بھی مسلک اور مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہوں لیکن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

اور ہمیں ایک ساتھ مل کر اس بات کو ہمیشہ اپنی زبان پر رکھنا ہوگا کہ ہندوستان وہ طبقہ اکثریت کہلاتا ہے آئین سے ہٹ کر کبھی ہمارے خلاف سازش نہ کرے کیونکہ ہندوستان کی مٹی ہمیں بہت عزیز ہے اور اسکے لیے ہم نے پہلے بھی اسکی آزادی اور تقدس کے لیے خون بہایا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم پھر بہائینگے مگر اس ملک کی حالت کو بگڑنے نہیں دینگے

  اس لیے ہم حکومتِ وقت سے صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ: اگر ہندوستان کا کوئی دستور ہے تو اس کا احترام ضروری ہے، یہ ملک سیکولر اسٹیٹ ہے اور جمہوری ہونے کا دعویدار ہے تو دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کا کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر حکومت ان حقوق کے سلب پر مصر ہے تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم وجبر کی تاریخ دراز نہیں ہوا کرتی ہے، اور کاعذ کی کشتی تادیر نہیں چلتی

دین ومذہب کی آزادی انسان کے بنیادی حقوق میں سے ہے، دنیا کی ہر مہذب اورانصاف پسند حکومت اس حق کا پاس ولحاظ رکھتی ہے، خود ہمارے ملک میں جونوع بہ نوع مذاہب اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے شخصی دورِ سلطنت میں مذہبی آزادی کی کس قدر پاس داری کی جاتی تھی، اس کا اندازہ ”بھارت کے انگریزی راج“ کے مصنف پنڈت سندرلال الہ آبادی کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے، وہ عہد مغلیہ میں مذہبی آزادی پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور ان کے بعد اورنگ زیب کے تمام جانشینوں کے زمانہ میں ہندومسلم یکساں رہتے تھے، دونوں مذاہب کی یکساں توقیر کی جاتی تھی، اور مذہب کے لیے کسی کے ساتھ کسی قسم کی جانب داری نہیں کی جاتی تھی۔“ (روشن مستقبل،ص:24)

مذاہب عالم کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آزادیِ مذہب کا مسئلہ اس درجہ حسّاس اور جذباتی ہے کہ جب بھی کسی حاکم یا حکومت کی جانب سے اس پر قدغن لگانے کی غیرشریفانہ حرکت کی گئی تو عوام نے اسے برداشت نہیں کیا ہے؛ بلکہ بیشتر حالات میں حکومتوں کا یہی بے جا رویہ بغاوت انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا ہے، آزادیِ ہند کی تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ برطانوی اقتدار کے خلاف 1857/ کی تاریخی شورش کا اہم ترین محرک مسلمانوں اور ہندوؤں کا یہ اندیشہ تھا کہ ان کے مذہب میں رخنہ اندازی اور اسے خراب کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ جنگِ آزادی کے نامور مجاہد اور سرگرم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله عليہ نے ایک موقع پر برطانوی راج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:

”اسلام کے احکام کوئی راز نہیں جن تک گورنمنٹ کی رسائی نہ ہو، وہ کتابوں کی شکل میں مرتب ہیں ، اور مدرسوں کے اندر شب وروز اس کا درس دیتے ہیں ، پس گورنمنٹ کو چاہیے کہ صرف اس بات کی جانچ کرے کہ واقعی اسلام کے شرعی احکام ایسے ہیں یا نہیں !! اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایسا ہی ہے تو پھر صرف دو ہی راہیں گورنمنٹ کے سامنے ہونی چاہئیں ، یا مسلمانوں کے لیے ان کے مذہب کو چھوڑدے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے ان کے مذہب میں مداخلت ہو، پھر اعلان کردے کہ حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی امور کی کوئی پرواہ نہیں ہے، نہ اس پالیسی پر قائم ہے کہ ”ان کے مذہب میں مداخلت نہیں ہوگی“ اس کے بعد مسلمانوں کے لیے نہایت آسانی ہوجائے گی کہ وہ اپنا وقت بے سود شوروفغاں میں ضائع نہ کریں اور برٹش گورنمنٹ اور اسلام ان دونوں میں سے کوئی ایک بات اپنے لیے پسند کرلیں ۔“ (مسئلہٴ خلافت وجزیرئہ عرب، ص:204)

 میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک کو پاکستان، چین یا دیگر کسی پڑوسی ممالک سے زیادہ خطرہ اس ملک میں پنپ رہے انتہا پسندی سے ہے، اسلئے ضروری ہیکہ ملک میں پنپ رہی انتہا پسندی کو روکا جائے، اس ملک کو ملک بنایا جائے، شہریوں میں دستوری اداروں کے تئیں اعتماد پیدا کیا جائے، ان کے اندر موجود خوف و عدم اطمینان کو دور کیا جائے۔ عدلیہ، انتظامیہ، پولس اور حکومت کو یہ یاد دلایا جائے کہ انہوں نے کسی مخصوص مذہب کا حلف نہیں لیا ہے بلکہ انہوں نے دستور کا حلف لیا ہے اسلئے ہر حال میں دستوری احکامات کے پابند ہوں ۔

ایک طرف ملک سے محبت کا دعویٰ کرنا اور دوسری طرف علی الاعلان دستور ی اقدار کی دھجیاں اڑانا، جب تک ختم نہیں ہوگا اس وقت تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔