شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات!
حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ، استاذ ِحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کا شمار عالم ِ اسلام کے ممتاز اور مایہ ناز علماء میں ہوتا ہے، زبان وخطابت کی سحر انگیزی، جادوبیانی، جرأت وبیباکی، حق گوئی وحقائق کی منظر کشی،سلاست وفصاحت میں آپ کی منفرد حیثیت اورنمایاں شان ہے، علم وفضل، فراست وبصیرت میں نہایت اونچا مقام ومرتبہ ہے۔عالم اسلام کی صورت ِ حال اوراسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر گہری نگاہ رکھنے والے معدودے چند علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ملت ِ اسلامیہ کے لئے دل ِ دردمند رکھنے والے اور انہیں حالات و زمانہ سے باخبرکرنے والے، یہودونصاری کے مکر وفریب سے آگاہ کرنے والے، اور اپنے بیان وخطاب میں ایک پیغام اور دعوت ِ فکر وعمل دینے والے بے مثال خطیب ہیں ۔پوری دنیا میں آپ کا بیان بہت شوق سے سنا جاتا ہے اور آپ کے بیان سے لوگ ایمان کی حرارت میں اضافہ اور جذبہ ٔ عمل میں نیا ولولولہ اور نئی تازگی محسوس کرتے ہیں ۔
چناں چہ 5 فروری کو حید رآباد میں منعقد صفا بیت المال انڈیا کے سالانہ پروگرام کے اجلاس ِ خصوصی اور عمومی میں آپ نے بحیثیت ِ مہمان ِ خصوصی شرکت کی اور اپنے ایمان اور بصیرت افروز بیان سے مستفید فرمایا۔آپ نے خدمت ِ خلق کا کام انجام دینے والے ذمہ داران کی خصوصی تربیتی نشست میں اہم ہدایات بھی دیں اور حالات کے تقاضوں کو بھی بتایا،اور عمومی جلسہ ٔ عام میں ہزاروں کے مجمع میں اتحادِ ملت اور خدمت ِ خلق کے عنوان پر نہایت جامع، پرُمغز اور ایمان افروز بیان فرمایا،ان بیانات کا خلاصہ اختصارکے ساتھ ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں ۔
اتحادِ ملت اور خدمت ِ خلق یہ دونوں ایسے عنوانات ہیں جسے باربار کہنے اور سننے کی ضرورت ہے، اس کے متعلق سیمینار ہونے چاہیے، ان کا لائحہ ٔ عمل مرتب کیا جائے اور اس کو زندگی مین نافذ کیا جائے،کیوں کہ بہت ہی اہم ترین اور بنیادی موضوعات ہیں ۔ امت میں جنتے موضوعات چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے،ان میں اتحاد ِملت کا موضوع بڑی اہمیت و اولیت رکھتا ہے، اگرچہ ہماری زندگی سے یہ دونوں موضوعات بڑی حدتک خارج ہوگئے ہیں ،ہماری سب سے اہم ترین عبادت جس کے ذریعہ ہم عقیدہ ٔ توحید کا اظہار کرتے ہیں اور رسالت و تعلیمات کا مظاہر ہ کرتے ہیں یعنی نماز،نماز اتحادِ ملت کے لئے ہے، نماز اتحادِ امت کے لئے ہے،نماز مسلمانوں کی اجتماعیت کے لئے ہے،اور اسی بنیاد پر نماز کے لئے جماعت کولازم کیا گیاورنہ محض اگر اللہ کا ذکر مقصو د ہوتا تو خلوت خانوں میں ہونا چاہیے، نفلوں کے لئے مستحب یہ ہے کہ آدمی اپنے خلوت خانہ میں نفلیں پڑھے،گھر میں پڑھے، کمرہ میں پڑھے،جتنا زیادہ اخفاء ہو اتنا ہی بہتر ہے،لیکن جماعت کے ساتھ فرض نمازوں کو اداکرنا لازم کردیا گیا۔استثنائی حالت میں ، بیماری وغیرہ میں الگ ہے، لیکن دن و رات میں پانچ مرتبہ جن کی تربیت ہورہی ہے وہی منتشر ہو کتنے تعجب کی بات ہے ؟
جن کا دن میں پانچ مرتبہ نماز کے ذریعہ جمع ہونا ہو اور وہی پراگندہ ہو، بکھرے ے ہوئے ہو اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو کس قدر تعجب کی بات ہے ؟ آج مسلمانوں نے اس کو بھلادیا، نماز کی صفوں میں کھڑے ہوئے ہیں اور دلوں میں کینہ، بغض، نفرت اور عداوت بھری ہوئی ہے۔مسلمان ایک جماعت کا نام ہے، بکھرے ہوئے افراد کانام نہیں ہے، فرقوں کا نام نہیں ہے، فرقوں سے متعلق جو حدیث حضور ﷺ سے مروی ہے وہ تنبیہ کے لئے ہے،خطرہ سے آگاہ کرنے کے لئے ہے،اس لئے نہیں ہے کہ اسی کو تسلیم کرکے فرقے بانٹے جائیں ،نبی ﷺ سے آئندہ دور کے فتنوں سے، جنگوں سے، خطروں سے، دجالوں سے آگاہ کیا تھا اس مقصد کے خاطر کہ ان خطروں سے بچا جائے، ان فتنوں سے بچا جائے، ان دجالوں سے مقابلہ کیا جائے،اس لئے نہیں کہ ان دجالوں کو تسلیم کیا جائے،ایسے ہی آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی تھی کہ:’’ افترقت الیہود والنصاری ثنتین وسبعین فرقۃ وستفترق امتی۔ ۔الخ‘‘اس امت کے تہتر فرقوں کا تذکرہ کیا متنبہ کرنے کے لئے،خطرے سے آگاہ کرنے کے لئے، جیسے یہ فرمایا تھا :’’سیکون بعدی ثلاثون دجالا۔۔۔۔الخ ‘‘کہ میرے بعد تیس دجال ہوں گے،جن میں سے ہر دجال یہ دعوی کرے گاکہ وہ نبی ہے،لیکن وہ دجال ہو گا، اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے دجال نبیو ں سے بچنا، سب مفتری، مکار اور جھوٹے لوگ ہوں گے۔آج ضرورت ہے کہ مسلمان متحد ہوں ، چند مسلمان کو کنارہ پررکھ کر آپسی اتحاد کا ثبوت دیں ،کیا ہم دین کے لئے، اسلام کی سربلندی کے لئے آپس میں مل نہیں سکتے، چند مسائل کو بہانہ بناکر ایک دوسرے کے خلاف پڑے ہوئے ہیں ، ہم نے مسلمانوں کو یہودو نصاری سے بڑھ اپنا دشمن بنالیا ہے، اس لئے اس کو ختم کرکے اتحاد کا ثبوت دینے کی سخت ضرورت ہے۔
اسی طرح خدمت ِخلق یہ وہ عظیم الشان کام ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نبیوں سے نبوت عطاکرنے سے قبل لیا ہے،اور ہر نبی کو پہلے خدمت ِ خلق کے مرحلہ سے گزارا ہے، خود ہمارے نبی رحمت ِ عالم ﷺ کا تعارف قبل ِ نبوت یہ تھااور بعد نبوت بھی نبی ﷺ نے اس کام کو انجام دیا کہ وہ یتیموں کے سر پر دست ِ شفقت رکھنے والے، بیواؤں کی خدمت کرنے والے، حق کے معاملہ میں لوگوں کی مددکرنے والے، مہمانوں کا اکرام کرنے والے، صلہ رحمی اور قرابت والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والے تھے،لوگ آپ کو’’ صادق‘‘و’’امین‘‘ کہاکرتے اور اپنی امانتوں کو لاکر آپ کے پاس جمع کرواتے اور آپ کی ہر بات کی تصدیق کرتے تھے۔جب پہلی وحی کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ گھبراکر گھر تشریف لائے اور کچھ دیر بعد پورا واقعہ حضرت خدیجہ ؓ کو بیان کیا تو ۱۵ سال آپ کی صحبت میں زندگی گزارنے والی اور بہت قریب سے آپ کے اخلاق وکردار کو دیکھنے والی بیوی نے جن الفاظ کے ذریعہ آپ کو تسلی دی، ہمت دلائی وہ یہ ہے جسے امام بخاری نے ’’باب بدء الوحی‘‘ میں حضرت عائشہ ؓ نے روایت کیاہے:کلا واللہ ما یخزیک ا للہ ابدا،انک لتصل الرحم، وتحمل الکل، وتکسب المعدوم، وتقری الضیف، وتعین علی نوائب الحق۔ہر گز نہیں آپ مطمئن رہیے،اللہ کی قسم !اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا،آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ،بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ،ناداروں کی مدد کرتے ہیں ،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے راستے میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں ۔
خدمت ِ خلق کے کام کو پوری وسعت کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے، پوری دنیا میں بلالحاظ مذہب وملت،مسلک اور نگ ونسل، ذات وپات کے اس کام کو انجام دینے کی ضرورت ہے، خدمت ِ خلق کسی ایک تنظیم یاجماعت کا کام نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت ِ خلق کے کام کو انجام دے، جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر ان آیتوں اور احادیث کی لگانے کی ضرورت ہے جس میں خدمت ِ خلق کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ ہر ایک کی نظر سے گزرے کہ اسلام نے خدمت ِ خلق کی کتنی بہتری تعلیمات دی ہیں ،بڑے بڑے ہورڈنکس پر ان آیتوں کو اور احادیث کو لکھ کر لگادیجے کہ لوگ چلتے پھرتے اس کو دیکھتے رہیں ۔ اپنے گھروں کے سامنے لکھ کرلگادیں اور ہرگلی وکوچہ میں اس پیغام کو عام کریں کہ اسلام انسانیت نوازی کا پیغام دیتا ہے، وہ بلاتفریق بھلائی کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
عیسائیوں نے پوری دنیا میں صلیب کے نشان کو علامت بناکر رفاہی اور فلاحی خدمات انجام دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم ہی خدمت کا کام کرتے ہیں ، مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ’’ہلال ِ احمر ‘‘ کو علامت بناکر خدمت کرنے والے بنیں ، ڈاکٹرس اپنی گاڑیوں پر، اپنے کلینک پر ہر جگہ ہلال ِ احمر کی علامت لگائیں تاکہ معلوم ہو کہ ہم اسلامی رفاہی خدمات انجام دینے والے ہیں ، وہ کچھ وقت کے لئے بلا معاوضہ ضرورت مندوں کی تشخیص کرے اور صرف خدمت ِ خلق کے جذبہ کے ساتھ ضرورت مندانسانوں سے پیسے لئے بغیر علاج ومعالجہ کریں ، اسی طرح وکیل ہے تو وہ بھی مجبور،ضرورت مند، مستحق مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے فیس لئے بغیر مقدمہ لڑے،مال دار اپنی شادیوں میں فضول خرچی اور اسراف بند کردیں اور ایک شادی میں جو لاکھوں روپئے ضائع کرتے ہیں وہ ان پیسوں کو ضرورت مند لڑکیوں کی شادی میں استعمال کریں ، اسکول کھولیں ، کالج بنائیں ، دینی کتب کو شائع کریں ، سیرت کی کتابوں کوعام کرنے میں لگائیں ، ہر فرد اپنے دائرہ میں رہ کر خدمت ِ خلق کے کام کو انجام دینے والا بنے، آج مسلمان شادیوں میں لاکھوں روپئے ضائع کررہا ہے، ایسی شادیاں جس میں فضول خرچی اور اسراف ہو یہ شادیاں برکتوں سے محروم ہوجائیں گی،ان جوڑوں میں خوشی اور محبت نہیں آسکتی جس میں نبی ﷺ کی تعلیمات کو روندا گیا ہوا،اسلام کا مذاق اڑا یا گیا ہو،فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ، جس شادی میں فضول خرچی ہو مسلمان وہاں قرآن کی آیت ’’ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ‘‘۔کا بیانر لے کر کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ تم شیطان کے بھائی بن رہے ہو۔اپنے پیسوں کو اسلام کی سربلندی کے لئے استعمال کیجیے اور خدمت ِ خلق کا ایسا کام کیجیے کہ پوری دنیا پکار اٹھی کہ یہ مسلمان بہت اچھے اور خیر خواہ ہوتے ہیں ، کوئی اگر ہمیں دہشت گرد کہے تو پھر یہ غیر مسلم گواہی دیں گے مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتے وہ بڑے نیک اور چھے انسان ہوتے ہیں ، انسانوں کی بھلائی میں جیتے ہیں ، عورتیں گھروں سے نکل کر مسلمانوں کے حق میں گواہی دیں گے۔
لیکن آج مسلمانوں نے اپنا یہ امتیاز بنالیا کہ یہ مسلمان دھوکہ باز، جھوٹ بولنے والا، اسراف کرنے والا ہوتا ہے۔آج مسلمانوں نے اپنی حقیقت کو بد ل دیا اور اسلام کی صحیح تصویر نہیں پیش کرسکے۔مدرسوں میں بچوں کو خدمت ِ خلق کے تحت تیار کریں ، جہاں ان کو کتاب الطہارۃ، کتاب الصلوۃ،کتاب الزکوۃ وغیرہ پر محنت کرواتے ہیں وہیں ، ابواب البر والصلۃ، کتاب الاستیذان،کتاب الرقاق پر محنت کروائیں ، ان کی عملی مشق کروائیں ، مدرسے والے خدمت ِ خلق کے لئے ایک الگ بجٹ بنوائیں اور اس کو اس میں صرف کریں ، ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عظیم کام کو انجام دے، پھر حالات بدلیں گے، انقلاب برپا ہوگا، اور لوگ اسلام کی عظمت کو سمجھ پائیں گے اور مسلمانوں کے حقیقی کردار سے متاثر ہوں گے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔