قومیت، پہچان، وطن پرستی یا کچھ اور؟
کسی بھی شہری کے لیے وطن نہ صرف اس کی پہچان ہے اور نہ ہی قابل پرستش معبود، بلکہ وہ اس کی جان ہے. جس طرح یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس کی پوجا کریں اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ ہم اس کو کسی دوسرے ملک کے مقابلے یا بلا مقابلہ بھی کم تر سمجھیں. وطن ہماری پہچان کے ساتھ ہماری اور ہماری نسلوں کا سرچشمئہ حیات بھی ہے اور باعزت ٹھکانہ بھی. دیدئہ عبرت نگاہ ہو تو میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی دربدری اور شام کے مسلمانوں کی خانہ خرابی ہم سب کے لیے عبرت نشان اور شکر کا سامان ہیں. ایک طرف بنگلہ دیش میں مقیم اپنی شناخت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مہاجرین قائد اعظم انتظار میں تین نسلیں کھپا چکے ہیں اور دوسری طرف میانمار کے روہنگیا مسلمان ترکی کے امیر المؤمنین کے انتظار میں چشم بہ راہ ہیں، لیکن اب وہ حضرت بھی کیا کریں کہ ان کی آنکھ کا سارا آنسو جو کہ ان کا اثاثہ تھا اسرائیل کی آگ بجھانے کے کام آ چکا ہے. خیال رہے کہ ملی اخوت اور اسلامی حمیت کے جتنے چاہیں نعرے لگالیں، ہم کسی بھی مسلم ملک میں حسب صلاحیت نوکر بن کر تو رہ سکتے ہیں، مالک بن کر اگر کسی خطئہ ارض میں جی سکتے ہیں تو وہ یقینا ہندوستان ہی ہے. سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔