ذرّہ کو آفتاب بنانے کا شکریہ

حفیظ نعمانی
کل کی رات کس نے کیسے گذاری یہ بات وہ جانتا ہوگا یا پروردگار؟لیکن میری رات کا زیادہ حصہ ندامت، محبت کے بوجھ سے دبا ہوا اور پاک پروردگار کے شکر میں گذری جو گدھے کو بھی خشکہ کھلادیتا ہے۔ 3 یا 4 دسمبر کی بات ہے کہ ڈھائی بجے کھانے کی میز سے اٹھ کر باہر آیا تو ایک بچی نے کہا کہ کوئی صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ انہیں آپ کے کمرہ میں بٹھلادیا ہے۔ کمرہ میں آکر سامنا ہوا تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کو پہچان نہیں رہا ہوں۔ انھوں نے کاکاری کوٹھی کے خاندان سے رشتہ بتایا تو وہ تو جیسے اپنے عزیز نکلے۔
تشریف آوری کا مقصد معلوم کیا تو علوی صاحب نے بتایا کہ اتوار کے دن شام کو 6؍ بجے سے 9؍ بجے تک جے شنکر پرساد ہال میں ایک سمینار ’’سرسیدؒ اور اردو صحافت‘‘ کے عنوان سے مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی طرف سے ہورہا ہے۔ اس میں آپ کو دعوت دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مسلم یونیورسٹی سے ہر مسلمان کی طرح یوں بھی محبت تھی لیکن 1965میں جو کچھ یونیورسٹی میں ہوا اور شاستری جی، چھاگلا جی اور علی یاور جنگ نے جو کرنا چاہا وہ اس نازک گھڑی میں ایک اخبار ندائے ملت جیسا مقبول اپنے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے جو فرض سمجھ کر ادا کیا اس سے ہر علیگ کے دل میں محبت کا جذبہ پیدا ہوا اور قاضی عدیل عباسی جیسے بزرگوں نے جیسا نوازا اس کے بعد تو رگ رگ میں مسلم یونیورسٹی اور اس کے بانی کی محبت دوڑنے لگی۔ میں اپنی معذوریوں کی وجہ سے 10 برس سے خانہ قید جیسی زندگی گذار رہا ہوں لیکن یہ ہال قریب ہے، انشاء اللہ حاضر ہوجاؤں گا۔
جس وقت اور جس دن یہ عہد و پیمان ہوئے نہ موسم ایسا تھا اور نہ راتیں کہر آلود تھیں لیکن اگلے دن سے ہی ہر رات قیامت کی رات میرے جیسے مریض کے لیے بنتی گئی۔ ۶؍ دسمبر کو محترم شکیل احمد قدوائی صاحب کا ایک مکتوب گرامی کوئی صاحب دروازہ پر دیکر چلے گئے۔ جس میں ذرّہ نوازی اور شرمندہ کردینے والے الفاظ سے ابتدا کرنے کے بعد لکھا تھا کہ:
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لکھنؤ کی جانب سے فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی اترپردیش کے اشتراک سے ایک سمینار بعنوان ’’سرسید اور اردو صحافت‘‘ بتاریخ11؍ دسمبر بروز اتوار بوقت شام ۶؍ بجے سے ۹؍ بجے کے درمیان بمقام جے شنکر پرساد ہال قیصر باغ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
آ پ سے بصد خلوص و احترام شرکت کی درخواست ہے اور اس موضوع پر آپ کے بصیرانہ بیان کے خواہاں ہیں۔ امید ہے آپ دعوت قبول فرمائیں گے۔
آپ کا۔۔۔۔۔۔
شکیل احمد قدوائی
یہ دو دعوت نامے مل چکے تھے میرے لیے یہ بھی تعجب کی بات تھی کہ جس ہال میں سمینار منعقد ہورہا تھا وہ مہنگا نہیں بلکہ سب سے سستا ہے اور یہ سمینار کوئی دو تین دن بھی نہیں چلنا تھا اور نہ اس میں دوسرے صوبوں یا شہروں کے اولڈ بوائے یا صحافی بلائے گئے تھے۔ پھر اس کے لیے فخر الدین علی احمد کمیٹی کے تعاون کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ ان چار دنوں یا اسی دن کسی اخبار میں کوئی اشتہار بھی نہیں تھا جس میں اشارہ ہوتا کہ کسی کو صحافت ایوارڈ بھی دینے کا کوئی ارادہ ہے۔
میرے پاس دن میں جس کا بھی ٹیلی فون آیا کہ کیا ارادہ ہے’ میں نے دکھ کے ساتھ کہہ دیا کہ جی تو چاہتا تھا لیکن مجھے سہارا کے ڈاکٹر ایس این گپتا کی سخت ہدایت ہے کہ آلودگی، کہرے اور ٹھنڈی ہواؤں سے اپنے کو بچانا۔ میرے بیٹے نے اسپتال سے واپس آکر میرے کمرہ کا اے سی بدلوا دیا تھا اور وہ اے سی لگوادیا جو سردیوں میں کمرے کو گرم رکھ سکے۔ 11؍ کو ساڑھے۶بجے دو محترم دوست تشریف لائے ، حکم ہوا کہ آپ کو لینے آئے ہیں۔ میں نے اپنا حال دکھایا اور سنایا۔ تب بھی کسی نے نہیں کہا کہ تمہارا آنا اس لیے ضروری ہے کہ ایسوسی ایشن صحافت ایوارڈ شروع کررہی ہے اور آج پہلا ایوارڈ تمہارے نام کی شیلڈ کے ساتھ ہال میں رکھا ہے۔ کم از کم میری ذات کی حد تک بھی اشارہ نہ کرنا شاید اس کی مصلحت کوئی سمجھ سکے؟ اگر آخری وقت بھی یہ اشارہ کردیا ہوتا تو دولہا بننے کے لیے نہیں بلکہ اس محبت اور ذرّہ کو آفتاب بنانے پر احتجاج کرنے ہی جاتا مگر ضرور جاتا اور صحت پر جو بھی گذرتی جاتا کیوں کہ جنھوں نے یہ فیصلہ کیا تھا وہ اس ناچیز سے ہر اعتبار سے لائق و فائق اور بلند تر ہیں۔ اور ایسے کرم گستروں کی دل شکنی پر میری جیسی ایک درجن جانیں قربان۔
اب تک غلط فہمی کا شکار ہو کر دس سے زیادہ ادارے اعزاز سے نواز چکے ہیں۔ آ ج شیما رضوی مرحومہ ہوگئیں۔ انھوں نے اردو اکادمی کا اعزاز دینا چاہا تو شاید ان کی والدہ ماجدہ کو یاد ہو کہ میں نے اتنا انکار کیا تھا کہ اس نے میرے عزیز دوست اعزاز رضوی سے کہلا یا اور بعد میں کہا کہ چچا میں نے آپ کا نام دے دیا ہے اب میں روئی تو کیا آپ برداشت کریں گے؟ اس کے بعد وہ ہوا کہ آج تک اس کا ملال ہے۔ اس لیے کہ میں ا کادمی کے ہی خلاف ہوں۔
میں نے لاری صاحب کی زندگی پر جو مضمون لکھا ہے اس میں ذکر ہے کہ رات کو ان کا فون آیا کہ میراکادمی نے آپ کو میر قلم کا اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کی اجازت کے لیے فون کررہا ہوں۔ میں نے جواب دیا تھا کہ میرا آپ کا تعلق ایسا ہے کہ آپ فیصلہ کرکے مطلع فرمادیتے تو کیا میں انکار کرسکتا تھا۔ اس کے جواب میں پھر انھوں نے کہا کہ مگر آپ کی اجازت ضروری ہے۔
پھر یہ کیا ہوا کہ جس شیلڈ پر میرا نام چسپاں کرکے اور جو شال ناپ کر ہال میں لا کر رکھ دی گئی تھی اس پر اتنے دبیز پردے پڑے رہے کہ ساڑھے دس بجے رات میں ایک درجن سے زیادہ محسنوں اور میری بیٹیوں جیسی بیبیوں کے ساتھ بغیر کسی اطلاع کے غریب خانہ پر تشریف لائے اور میں جو اپنے گرم کمرہ میں اپنی معذوری کی وجہ سے کھانا کھارہا تھا مجھے آدبوچا اور شیلڈ پکڑا کر فوٹو، شال اڑھا کر فوٹو، اور گلے سے لگ کر فوٹو لے لئے اور میں منہ میٹھا یا چائے تو کیا پانی بھی نہ پلا سکا اور ہر کوئی کھڑے کھڑے ہی محبت کے پھول برسا کر چلا گیا۔ اور مجھے رات بھر رونے کے لیے چھوڑ گیا۔ اتوار کا دن صرف ایسا ہوتا ہے کہ میری دونوں بہوئیں دوپہر بعد اپنے عزیزوں کے پاس چلی جاتی ہیں اور میرا انتظام کرکے جاتی ہیں۔ اگر ذرا سا بھی اشارہ مل جاتا تو کوئی کہیں نہ جاتا اور گھر پر ہی سمینار کا اختتام ہوتا۔ میرے لرزتے ہوئے ہاتھ اس خوبصورت شیلڈ کا اور میرے 84 برس کے بوڑھے شانے اس شال کا بوجھ کیسے اٹھا پائیں گے جس میں مسلم یونیورسٹی کے سیکڑوں فرزندوں کی محبت جگمگا رہی ہے۔ اور جس شال کے ہر تار میں عنایت اور نوازش کی خوشبو بسی ہے۔ مجھے دکھ سب سے زیادہ اس کا ہے کہ عمر کے جو چند دن رہ گئے ہیں ان میں کیسے میں اس مقام تک پہنچ سکوں گا جو سرسیدؒ اور اردو صحافت کا پہلا اعزاز دے کر میرے سامنے کھڑا کردیا ہے؟ بس میں دعا ہی کرسکتا ہوں کہ پروردگار مجھے ان سے شرمندہ نہ کرے جنھوں نے میرے بارے میں ایک رائے بنائی ہے اور مجھے وہاں بٹھا دیا ہے جس کا میں کسی اعتبار سے بھی مستحق نہیں ہوں۔ اللہ جانتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو میرے چاہنے والے سمجھ رہے ہیں لیکن میں نے کسی سے نہیں کہا کہ آپ کیا کریں؟اس کے بعد بھی وہ کرتے ہیں توقادر مطلق جانے اور وہ۔
محبتوں کا درد بھی کہاں سبھی کو راس ہے
یہ چاندنی تو دوستو کسی کسی کے پاس ہے
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔