قومیت، پہچان، وطن پرستی یا کچھ اور؟

وقار احمد ندوی
تحریک آزادی کے دوران جواہر لال نہرو متحدہ ہندوستان کے طول وعرض میں بڑے بڑے عوامی جلسوں کو خطاب کرنے جاتے تو جذبئہ آزادی سے سرشار عوام ” بھارت ماتا کی جے” کا نعرہ لگایا کرتے تھے. ایسے ہی کسی جلسہ میں نہرو نے حاضرین سے سوال کیا کہ بھارت ماتا کون ہے؟ مجمع سے کسی جاٹ باشندے نے جواب دیا کہ وطن کی پیاری دھرتی بھارت ماتا ہے. نہرو جی نے پوچھا؛ وہ دھرتی تمہارے گاؤں کی ہے، شہر کی ہے یا پورے صوبہ کی؟ مجمع میں موجود ہر شخص حیران وپریشان ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا تبھی نہرو جی نے کہا بے شک وطن کی زمین، دریا، پہاڑ اور جنگل سب محترم ہیں لیکن ان سب سے بڑھ کر قابل احترام اور با معنی وجود بھی اس دھرتی پر ہے اور وہ تم لوگ ہو. درحقیقت ہندوستان کے عوام ہی بھارت ماتا ہیں، اگر تم خوشحال رہوگے تو بھارت بھی زندہ باد رہے گا.  یہ سننے کے بعد عوام کی آنکھیں خوشی سے روشن ہوگئیں اور ایسا لگا جیسے سربستہ راز حیات کو انہوں نے پا لیا ہو.
جائے سکونت کے اعتبار سے انسان کی پہلی شناخت اس کا گاؤں ہوتا ہے، اس کے بعد اس کا شہر، پھر صوبہ اور اس کے بعد ملک. ہم جب اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہماری شناخت ایک ہندوستانی کی حیثیت سے ہوتی ہے اور کبھی ہمیں دوسرے براعظم کے باشندے ایشیا کا شہری بھی کہتے ہیں. آنے والی صدی تک اگر مریخ پر انسانی بستیاں آباد ہو گئیں تو ایک اور شناخت کا اضافہ ہو جائے گا اور مریخ والے ہمیں زمین کا باشندہ کہیں گے اور ہم ان کو مریخ کا. جائے سکونت سے متعلق انسانی شناخت انسانی فکر کی آفاقیت اور انسانی وجود کی عظمت کے سامنے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیشہ ہیچ ثابت ہوئی ہے. ابتدائے آفرینش سے تا حال ہزاروں صدیوں پر محیط ہجرت کے واقعات کا تسلسل ناقابل تردید حجت کی حیثیت رکھتا ہے. بیشتر بہتر معیشت کے لیے اور بسا اوقات اپنے افکار وعقائد کی حفاظت اور نشرو اشاعت کے لیے انسان نے اپنے مولد ومسکن سے دور، بہت دور دراز مقامات کی طرف ہجرت کی، اسے اپنا مسکن بنایا اور وہیں کے ہو کر رہ گئے. ہندوستان میں آریاؤں اور مسلمانوں کی آمد اسی تاریخی ہجرت کے تسلسل کی ایک کڑی ہے اور حالیہ زمانوں میں امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کی ترقی یافتہ ریاستوں کی طرف ہندوستان کے بشمول ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے باشندوں کی ہجرت بھی اسی تسلسل کا ایک باب ہے. واقعاتی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ پورے کا پورا کرہ ارض انسانوں کے لیے تخلیق ہوا ہے انسان کرہ ارض کے کسی خاص ٹکڑے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے.
ہرگز ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک ہمارے ملک یا کسی بھی دوسرے ملک سے انسانی بستی ہونے کی حیثیت میں  کمتر ہوتے ہیں. کسی بھی انسان کو اس کا ملک اس لیے عزیز ہوتا ہے کہ وہ وہاں پیدا ہوا، پروان چڑھا اور تعلیم وتربیت حاصل کی ہوتی ہے. وہاں کا ماحول اور اس کی آب وہوا اس کے حسب حال ہوتے ہیں. وہاں اس کے بزرگوں کی یادیں آباد ہوتی ہیں. اس ملک کی تعمیر وترقی میں اس کے آباء واجداد کی قربانیاں شامل ہوتی ہیں. اسی لیے وہ اس پر اپنا جائز حق بھی سمجھتا ہے اور اپنی رہائش کے لیے زیادہ محفوظ بھی، جس کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کے لیے اسے مزید خوشحال اور محفوظ تر بنانے کی کوشش میں جان عزیز کو قربان کرنے سے بھی دریغ نییں کرتا. یہ ایک فطری عمل ہے. دین دھرم بھی اس طرز فکر وعمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے. بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان بے جا تفاخر کا شکار ہوکر اپنی دھرتی کو پاک اور روئے زمین کے دوسرے حصوں کو ناپاک سمجنھے کی غلطی کر بیٹھتا ہے. اپنے ملک کے تئیں اس کے دوہرے روییے کی انتہا تب ہوتی ہے جب وہ خود اپنے اور اپنی آل اولاد کے لیے یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ حسب ضرورت عبادت کی حد تک محترم دھرتی کو چھوڑ کر جب چاہے ترقی یافتہ ممالک کی طرف معیشت وتجارت کی بہتری کے لیے عازم سفر ہو لیکن اسے یہ گوارا نہیں ہوتا کہ اسی ملک میں صدیوں سے آباد دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی اولاد اس پاک و پوتر دھرتی پر تمام تر انسانی مساوات واحترام کے ساتھ زندگی گزار سکیں.مسلمان قاری اسے صرف ہندوستان کے پس منظر میں دیکھنے کی غلطی نہ کریں. وطن پرستی کے اس دوہرے پیمانے کی بیماری ہندووں کی اکثریت والے ہندوستان کی حد میں ہی محدود نہیں ہے. بالکل یہی حال اسلام کا قلعہ اور محبط وحی کہی جانے والی ریاستوں اور خدا کے خود ساختہ بیٹوں کی مملکتوں کی اکثریت کا بھی ہے. وہاں بھی مذہبی، لسانی، تہذیبی اور منطقہ جاتی اقلیتوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے. مذکورہ دوہرے معاشرتی رویے کا نقصان کسی بھی مملکت میں یہ ہوتا ہے کہ محروم ومجبور اقلیتیں اپنے ملک کی سرحد سے باہر اپنے لیے خوشی اور طاقت کے سرچشموں کی تلاش میں لگ جاتی ہیں. ایسے میں بیشتر مذہبی نسبتیں  زیادہ پر کشش ہوتی ہیں. ہندوستان کے مسلمانوں، پاکستان، بنگلہ دیش کے ہندووں، ایران کے سنیوں اور بعض عرب ممالک کے شیعوں کے دلوں میں اپنی ہم مذہب  ریاستوں اور حکمرانوں کے لیے بے پناہ جذبات کی صورت میں ہم شب وروز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں. ہندوستان پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے وقت  جو حالات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اسی زمرے میں آئیں گے، یہ صرف کھیل اور کھلاڑی کی پسند اور ناپسند کا معاملہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات ناروا مذبی جنون اس کے پس پردہ کارفرما ہوتا ہے. بعض وقت طبقاتی اقلیتیں اپنی محرومیوں کے سبب ایسی قوتوں کی طرف امید کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں جو گر چہ ان کے ہم مذہب نہیں ہوتیں لیکن ان کے لیے ہمدردی کے جذبات کا اظہار کرتی ہیں. اس کی مثال مارکسزم، ماؤزم اور ہندوستان کے آدی واسیوں کے درمیان رشتوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں.
 یہ حقیقت جاں گزیں ہونی چاہیے کہ دھرتی کبھی بھی کسی کے لیے قابل پرستش نہ تھی اور نہ ہی ہو سکتی ہے، جی ہاں ان کے لیے بھی جو ایسا مانتے ہیں اور دوسروں سے منوانا چاہتے ہیں. اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی بھی دوسرے ملک یا براعظم میں کڑوروں کی تعداد میں نہ جا بستے کہ اپنے معبود کو کوئی صرف روزی روٹی کے لیے کم ہی چھوڑتا ہے. نیز دھرتی کی پرستش کرنے والوں کے ہاتھوں بارہا جغرافیائی سرحدیں بھی بدلتی رہی ہیں، ملک بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں جبکہ معبود نہ کبھی بدلتا ہے، نہ بنتا ہے اور نہ ہی ٹوٹتا ہے.

کسی بھی شہری کے لیے وطن نہ صرف اس کی پہچان ہے اور نہ ہی قابل پرستش معبود، بلکہ وہ اس کی جان ہے. جس طرح یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس کی پوجا کریں اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ ہم اس کو کسی دوسرے ملک کے مقابلے یا بلا مقابلہ بھی کم تر سمجھیں. وطن ہماری پہچان کے ساتھ ہماری اور ہماری نسلوں کا سرچشمئہ حیات بھی ہے اور باعزت ٹھکانہ بھی. دیدئہ عبرت نگاہ ہو تو میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی دربدری اور شام کے مسلمانوں کی خانہ خرابی  ہم سب کے لیے عبرت نشان اور شکر کا سامان ہیں. ایک طرف بنگلہ دیش میں مقیم اپنی شناخت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مہاجرین قائد اعظم انتظار میں تین نسلیں کھپا چکے ہیں اور دوسری طرف میانمار کے روہنگیا مسلمان ترکی کے امیر المؤمنین کے انتظار میں چشم بہ راہ ہیں، لیکن اب وہ حضرت بھی کیا کریں کہ ان کی آنکھ کا سارا آنسو جو کہ ان کا اثاثہ تھا اسرائیل کی آگ بجھانے کے کام آ چکا ہے. خیال رہے کہ ملی اخوت اور اسلامی حمیت کے جتنے چاہیں نعرے لگالیں، ہم کسی بھی مسلم ملک میں حسب صلاحیت نوکر بن کر تو رہ سکتے ہیں، مالک بن کر اگر کسی خطئہ ارض میں جی سکتے ہیں تو وہ یقینا ہندوستان ہی ہے. سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔