سنجے گاندھی کی’ نس بندی‘ اور نریندر مودی کی ’نوٹ بندی‘

عبدالعزیز
محترمہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں دو چیزیں بہت زیادہ مشہور ہوئی تھیں، ایک سنسر شپ اور دوسری نس بندی۔ سنسر شپ سے حکومت دلچسپی لیتی تھی جو بھی حکومت یا اندرا گاندھی یا ایمرجنسی کے خلاف لکھتا تھا یا ذرا بھی منہ کھولتا تھا اس کو میسیٰ جیسے قانون لگاکر پس زنداں کر دیا جاتا تھا۔ نس بندی سے زیادہ دلچسپی سنجے گاندھی کو تھی۔ سنجے گاندھی شہزادہ بنے ہوئے تھے۔ جو وہ چاہتے تھے کر گزرتے تھے۔ ان کو ضرورت سے زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ نس بندی کا سلسلہ زوروں پر شروع ہوگیا تھا۔ راستہ، بازار یا مکان جہاں بھی نس بندی والے عملے چاہتے تھے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر نس بندی کر دیتے تھے ۔ نوجوان یا عورتیں گھرں کے باہر سونا پسند کرتی تھیں۔ ملک بھر میں ہاہا کار مچا ہوا تھا۔ اس وقت بھی کچھ لوگ کہتے تھے کہ ٹھیک ہورہا ہے لیکن جب ایمرجنسی کے خاتمہ کے بعد لوک سبھا کا الیکشن ہوا تو ایمرجنسی کی سختیوں اور نس بندی کی زیادتیوں کی وجہ سے کانگریس کا صفا ہوگیا۔ یہاں تک کہ مسز اندرا گاندھی رائے بریلی کی اپنی سیٹ بھی بچانے سے قاصر رہیں۔ کانگریس کی کراری شکست سے اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی سیاست کے پردہ کے پیچھے چلے گئے۔
اس وقت نریندر مودی کی نوٹ بندی نے جو پورے ملک کے لوگوں پر قہر ڈھایا ہے وہ نس بندی کے قہر و غضب سے بالکل ملتی جلتی چیز نظر آرہی ہے۔ ملک کے 80 فیصد افراد اپنی رقم حاصل کرنے کیلئے گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے ہیں۔ دن بھر کی مشقت و ریاضت کے باوجود بسا اوقات انھیں بینک کے عملہ اعلان کر دیتے ہیں کہ رقم نہیں ہے۔ اے ٹی ایم کا بھی یہی حال ہے۔ کہیں مشین خراب ہے تو کہیں رقم ندارد ہے۔ اب تک سو سے زیادہ افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مودی حکومت لوگوں کی تکلیفوں کا ایک طرح سے مذاق اڑا رہی ہے۔یہ کہہ کر کہ تھوڑا سا درد محسوس کرلیجئے، تھوڑی سی تکلیف برداشت کرلیجئے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ڈھائی سال سے یہ مودی حکومت یہی کہتی چلی آرہی ہے مگر اچھے دن کے بجائے بد سے بدتر دن آرہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مودی جی برے دن ہی لوٹا دیجئے۔ ملک پر یہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
جس دن مودی جی نے نوٹ بندی کا اعلان کیا اس دن کہا کہ دس پندرہ دن میں حالات معمول پر آجائیں گے۔ اب 30 دسمبر کی تاریخ بتا رہے ہیں کہ سب کچھ معمول پر آجائے گا اور اچھے دن نظر آنے لگیں گے۔ نریندر مودی اور ان کے آدمیوں کو نہ لوگوں کا مرنا نظر آرہا ہے اور نہ قطاروں میں کھڑے لوگ دکھائی دے رہے ہیں ۔ مودی اور ان کی حکومت سے تعلق والوں کیلئے نہ کوئی مصیبت ہے اور نہ ہی کوئی تکلیف اور نہ انھیں قطار میں کھڑا ہونا پڑرہا ہے اور نہ موت سے دوچار ہورہے ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا معاملہ ہے اس نے تو 8 نومبر سے پہلے پہلے اپنی ساری رقمیں بینکوں میں کروڑوں کی تعدا دمیں جمع کرا دی تھیں۔ اس کے لوگوں کو پرانے نوٹوں پر پابندی کی خبر پہلے ہی ہوچکی تھی۔ بی جے پی کے بڑے پونجی پتیوں کو بھی بی جے پی والے با خبر کر چکے تھے، لہٰذا انھوں نے بھی اپنا کام کرلیا تھا۔
مودی جی نقلی نوٹ باہر کرنا چاہتے تھے وہ اس نوٹ بندی سے کہیں نظر نہیں آیا۔ کالا دھن باہر کرنا چاہتے تھے، اس میں بھی کہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ دہشت گردوں پر انگشت لگانا چاہتے تھے وہ بھی نہیں ہوا۔ سرحد پر دہشت کا ماحول قائم ہے اور کشمیر ایک طرح سے جل رہا ہے۔ چھوٹے بچے سڑکوں پر آگئے ہیں۔ کشمیر کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہے۔ بہت سے کارخانے بند ہیں۔ بے شمار لوگ بے روزگار ہیں۔ بہت سے کاروباری اداروں کے ملازمین کو گھر بیٹھنے کو کہہ دیا گیا ہے۔ ماہر معاشیات کی بڑی تعداد جو مودی پرستوں سے دور ہے اسے معاشیات کی ابتری نظر آرہی ہے۔ من موہن سنگھ نے اسے ملک کا سب سے بڑا گھوٹالہ بتایا ہے اور کہا ہے کہ لوٹ مچی ہوئی ہے۔ معیشت بالکل بیٹھی جارہی ہے۔ لوگوں کی پریشانیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ تیس دسمبر میں بھی سترہ اٹھارہ دن رہ چکے ہیں۔ ایسے کوئی آثار و امکان نہیں ہیں کہ ملک کی حالت معمول پر آجائے گی۔ کچھ مقامات پر شورش ہوئی مگر 30 دسمبر کے بعد اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہر کاروبار پر اور ہر کاروباری پر اثر پڑا ہے۔ مودی جی کا میڈیا بندوبست (Media management)ایمرجنسی کی سنسر شپ کی طرح ہے۔ لوگ یا تو خرید لئے گئے ہیں یا ان میں ڈر پیدا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ایک دو نیوز چینلوں اور ایک دو بڑے میڈیا کے اداروں کے سوا کسی میں جرأت نہیں ہے کہ حالات کی عکاسی کرے۔ سب کی زبان بند ہے۔ اگر کھل رہی ہے تو مودی اور مودی سرکار کی تعریف و ستائش میں۔ مودی جی نے اتر پردیش اور 2019ء کے لوک سبھا الیکشن کو سامنے رکھ کر یہ کھیل کھیلا ہے۔ اتر پردیش میں الیکشن آئندہ سال کے فروری یا مارچ میں ہوسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی اور نوٹ بندی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی ایمرجنسی اور سنجے گاندھی کی نس بندی ثابت ہوگی؟
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔