رسولؐ رافت ورحمت

تحریر: ڈاکٹر محمد یوسف۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
’’رؤف رحیم‘‘ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام ہے۔ نبی کریمؐ کا یہ اسم مبارک اللہ تعالیٰ کا تجویز کردہ ہے۔ اس کا ذکر قرآن حکیم کی سورۃ التوبہ کی آیت 128میں ہے۔ یہ دوصفات پر مشتمل ہے۔ ایک ’’رؤف‘‘ دوسرے ’’رحیم‘‘ جن کا ترجمہ ہے نہایت شفقت کرنے والا مہربان۔ لغت میں رؤف رافت سے بناہے۔رافت اشدالرحمت ہے۔ یعنی شدید رحمت۔ ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا ہے کہ رافت رحمت سے زیادہ رقیق ہوتی ہے۔ رحیم رحمت سے بنا ہے۔ رحمن بھی رحمت سے ہے۔ رحمن رحمت عامہ کرنے والا اور رحیم رحمت خاصہ کرنے والا ہے۔ رحمن صرف اللہ کی صفت ہے۔ لسان العرب کے مطابق اللہ کی رحمت ہر شئے پر محیط ہے اور وہ سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہے۔ جہاں تک الرحیم کا تعلق ہے اس کا ذکر رحمن کے بعد آتا ہے ۔ الرحمن کی صفت اللہ کے لئے مخصوص ہے جبکہ الرحیم اس کے علاوہ کے لئے صفت ہے۔ اس لئے قرآن میں جس جگہ نبی کریم کی یہ صفت بیان ہوئی ہے وہاں ’’بالمومنین رؤف رحیم‘‘ کہا گیا ہے۔ مومنین کے ساتھ نہایت شفقت کرنے والے مہربان اور جہاں اللہ کی صفت’’رؤف رحیم‘‘ بیان ہوئی ہے وہاں بالناس رؤف رحیم‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ انسانوں پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ نبی کریم’’بالمومنین‘‘ اور اللہ تعالیٰ ’’بالناس‘‘ شفقت ومہربانی کرنے والے ہیں۔ قرآن میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا ذکر آیا ہے۔ وہاں آپ کو ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ (جہانوں کیلئے رحمت) کہاگیا ہے۔ آپ کے عزوشرف کی انتہا ہے کہ ’’رؤف رحیم‘‘ کی صفت میں آپ کے دونام اس ترکیب کے ساتھ آئے جس ترکیب کے ساتھ خود ذات باری تعالیٰ کی صفت ’’رؤف رحیم‘‘ بیان ہوئی ہے۔ رافت، رحمت سے زیادہ رقیق اور باریک صفت ہے۔ آپؐ دونوں سے متصف تھے۔ آپؐ ’’رؤف رحیم‘‘ کہلائے۔ صحابہ کرامؓنے اسوہ رسولؐ بیان کیا ہے جو ان کے ذاتی علم ، تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت صحیحین میں مروی ہے کہ رسول اکرمؐ دیر بعد ہمیں وعظ فرماتے۔ اس اندیشہ سے کہ روزانہ وعظ کا سننا ہم پر گراں نہ گزرے۔ حدیث بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرمؐ کئی کئی دن کے وقفہ کے بعد وعظ فرماتے۔ آپ کو مسلسل اور لمبا وعظ پسند نہ تھا، مبادا کہ وہ ہم پر گراں گزرے۔ حضرت انسؓ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرمؐ فرمایا کرتے’’لوگوں کو سہولت دو، انہیں تنگی نہ دو، لوگوں کو خوشی کی باتیں سناؤ، ان میں تنفر پیدا نہ کرو۔‘‘ایک حدیث نبوی ہے’’دین آسان ہے‘‘ صحابہ کرامؓ نے جو سیرت بیان کی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ شفقت ورافت آپ کی زندگی کا مستقل اصول تھا۔ آپ ہر شعبہ حیات میں رحمت ومہربانی کا پہلو پسند کرتے تھے۔ آپ کسی بھی معاملے میں جبر واکراہ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ آپ کی عادت تھی کہ سامعین جس قدر بھی سنیں نشاط طبع اور حضور قلب سے سنیں اورآئندہ کیلئے شوق باقی رہے۔ آپؐ کے اس اصول پر آج کے واعظین کو پرکھا جائے تو وہ اس پر پورا نہیں اترتے۔ وہ کئی کئی گھنٹے وعظ کرکے سامعین کو اکتا دیتے ہیں جس سے تنفر اور بے زاری پیدا ہوتی ہے پھر ان کے وعظ میں یسر(آسانی)اور بشارت(خوش خبری) بھی کم ہوتی ہے۔ اس کی جگہ عسر(تنگی، تنگ نظری) اور تنفروبیزاری زیادہ ہوتی ہے۔ نبی پاکؐ کے وعظ میں رافت ورحمت کا عنصر سنن ابوداؤد کی اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ:
’’رسول اکرمؐ جمعہ کے روز طول طویل اور لمبا وعظ نہیں فرماتے تھے۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ یہ آپ کا دائمی معمول تھا ۔ آپ لوگوں کی سہولت اور آرام کا خیال کرتے ہوئے کبھی لمبا خطبہ نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی لمبا وعظ کرتے تھے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپ کی عادت تھی کہ جب نماز کی حالت میں کسی بچے کے رونے کی آواز سن لیتے تو نماز ہلکی فرمادیتے تاکہ ماں بچے کو جلد سنبھال سکے۔ آپ کا یہ نمونہ ہمارے خطیبوں اور اماموں کے لئے رہبر ورہنما ہے۔ لمبے وعظ اور تقریر یں مفید ہونے کی بجائے غیر مفید ، موثر ہونے کی بجائے غیر موثر ہوتی ہیں۔اسی طرح لمبی قرات وتلاوت بوڑھے، کمزور، بیمار مردوں اور عورتوں پر گراں گزرتی ہے۔لمبے وقت کے وعظ وتلاوت سے بھر گریز کرنا چاہئے، لاؤڈ اسپیکروں کے شور سے بھی لوگوں کاآرام وسکون برباد ہوتا ہے۔مطالعہ وتوجہ اور معاشرتی وثقافتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہے جس سے نیکی برباد اور گناہ لازم آتا ہے پھر تبلیغ اسلام کا یہ طریقہ رافت ورحمت سے بھی عاری ہے۔
نبی کریمؐ کی سیرت یہ تھی کہ آپؐ سوار ہوکر کسی کو اپنے ہم رکاب پیدل چلنے کی اجازت نہ فرماتے تھے اگرچہ آپؐ کے فدائی اس کی تمنا رکھتے تھے۔ آپؐ انہیں یا تو اپنے ساتھ سوار کرالیتے تھے یا واپس لوٹا دیتے تھے۔ یہی آیت جس میں آپؐ کی صفت ’’رؤف رحیم‘‘ بیان ہوئی ہے۔ اس میں آپؐ کی ایک صفت’’عزیز علیہ ماعنتم‘‘ بیان ہوئی ہے جس کا مطلب ہے ’’تمہاری تکلیف آپؐ کو شاق گزرتی ہے‘‘ قرآن وسنت کی تعلیمات سے ثابت ہے کہ آپؐ کی یہ صفت مسلمانوں اور کافروں دونوں کے حق میں تھی۔ آپ لوگوں کو کفروشرک میں دیکھتے اور ان کے انجام بدکاخیال فرماتے تو آپؐ کو ان پر رحم آتااور ان کی یہ حالت آپؐ پر گراں گزرتی۔ آپ انہیں دینوی ہلاکت اور نار جہنم سے بچانے کی کوشش کرتے مگر وہ آپؐ کا مذاق اڑاتے۔سورہ یٰسین میں اللہ نے فرمایا ہے : آپ ان کی باتوں سے جی برانہ کریں‘‘ سورہ آل عمران میں ہے ’’کفر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں کی حالت پر آپ غمگین نہ ہوں‘‘۔
آپ کی رافت ورحمت اس درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی کہ آپ اپنے مخالفین اور قرآن کے معاندین سے بھی بے حد رحم کا سلوک کرتے۔ انہیں ہلاکت سے بچانے کی خاطر اتنا غم کرتے کہ شاید ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں۔ آپ کی اس حالت کی قرآن نے شہادت دی ہے۔ ’’(اے پیغمبر)اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید آپ ان کے پیچھے رنج کرکے اپنے آپ کو ہلاک کردیں گے۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت ہم آپؐ کی سیرت سے کتنے ہٹ چکے ہیں۔ ہمارے اندر دوسروں کے لئے محبت کے جذبات ماند پڑچکے ہیں جبکہ ہمارے رسولؐ کی سیرت تھی کہ آپ کافروں اور مشرکوں کے ساتھ رافت ورحمت کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاک کرنے پر آمادہ تھے۔ کیا مسلمان اپنی تنگ نظری،تنگ فکری، تعصب، تشدد پر غور کرنے کیلئے تیار ہے؟ کیا اس کا فرض نہیں کہ وہ جغرافیائی، علاقائی، لسانی ودیگر تعصبات کو اسوہ رسولؐ کی روشنی میں ختم کرکے رافت ورحمت کے دامن میں پناہ لے۔ نبی کریمؐ کو مسلم وغیر مسلم کسی کی بھی تکلیف برداشت نہ ہوتی تھی۔غزوہ بدر کے قیدی مشکوں میں بندھے ہوئے رات کو کراہ رہے تھے، ان میںآپ کے چچا عباس بھی تھے۔آپؐ کو نیند نہ آئی انصارکو معلوم ہوا وہ چپکے سے اٹھا۔ اس نے آپ کے چچا عباس کی مشک بندی کھول دی۔ انہیں آرام ملا وہ سوگئے۔
آپؐ نے پوچھا ۔ اب عباس کی آواز کیوں نہیں آئی۔ انصاری نے بتایا میں نے ان کے بندھن کھول دئیے ہیں۔ فرمایا جاؤ، سب قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرو۔ جب آپؐ کو اطلاع دی گئی کہ سب قیدی اب آرام سے ہیں تب آپ کا اضطراب دور ہوا اور آپؐ نے آرام فرمایا۔منتقم مزاج لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ یہ قیدی وہ لوگ تھے جنہوں نے ۱۳ سال متواتر آپ کو اور آپؐ کے اصحاب کو ستایا تھا، کسی کو آگ پر لٹایا، کسی کو خون میں نہلایا، کسی کو بھاری پتھروں کے نیچے دبایا، کسی کو سخت اذیتوں کے بعد خاک وخون میں سلایا۔ اس کے باوجود جب وہ جنگ ہار گئے ، قید ہوئے اور مشکوں میں بندھے تو آپؐ نے ان سے یہ سلوک کیا۔ کیا مسلمان آپؐ کے اس اسوہ پر عمل کے لئے آمادہ ہیں ؟ اگر آمادہ ہوجائیں تو وہ بھی اس طرح کامیاب ہوں گے جس طرح ہمارے نبی بدلہ لینے کی بجائے معاف کرکے کامیاب ہوئے تھے۔
نبیؐ اہل طائف کو تبلیغ کرنے تشریف لے گئے۔ کفار نے اوباش لڑکوں کو اکسا کر آپ پر سخت پتھراؤ کرایا۔ آپؐ لہولہان ہوگئے۔ آپؐ ایک درخت کے نیچے پڑے تھے کہ جبریلؑ آئے اور کہا کہ آپؐ اجازت دیں تو اہل طائف کو بستی کے پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے۔ اس حالت میں بھی آپؐ کی رافت ورحمت نے جوش مارا اور آپؐ نے اہل طائف کے لئے دعا کی ۔ اللہم اہد قومی فانہم لایعلمون(اے اللہ ، میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ جانتے نہیں)۔ اہل مکہ آپؐ کے جانی دشمن تھے۔وہ شاید قحط کا شکار ہوگئے۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابوسفیان آپ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوا۔ احسان اور صلہ رحمی کے واسطے سے التجا کی کہ حضور شدید قحط سے نجات میں مدد کیجئے۔ آپؐ نے ثمامہ بن اثال سردار نجد کو جو مسلمان ہوچکا تھا حکم بھیج دیا کہ اہل مکہ کو فوراً غلہ بھیج کر ان کی مدد کرو۔اس نے غلہ صرف اس لئے روک رکھا تھا اور منفعت کو نظر انداز کردیا تھا کہ اہل مکہ دشمنان رسولؐ ہیں۔ اب آپؐ کے حکم کی تعمیل میں فوراً غلہ بھیج دیا جس سے اہل مکہ کی جانب میں جان آئی۔
ہم عاشقانِ رسول اور محبان نبیؐ ہیں۔ اس عشق وعقیدت کا تقاضہ ہے کہ آپ اسوہ حسنہ کو اپنا کرآپس کی کدورتیں دور کریں۔ فرقہ وارانہ ودیگر تعصبات کو ختم کریں، غیرمسلموں کے لئے نرم گوشہ پیداکریں۔ ان میں نبیؐ کریم کے دامن رحمت میں سکون قلب حاصل کرنے کی توفیق پیدا کریں۔ رافت وورحمت دلوں کو نرم کرنے ، اپنے مشن کو مقبول بنانے اور غیر کو اپنا رفیق وہمدرد بنانے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ جو لوگ اپنے نصب العین سے محبت رکھتے ہیں وہ ہمیشہ اس ذریعہ کو اپناتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔غزوات بدر، احد، خندق اور فتح مکہ کے بعد جب اہل مکہ پوری طرح مفتوح ومغلوب ہوگئے اور آپ کے سامنے اپنے مظالم کا فیصلہ سننے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا۔’’تمہیں معلوم ہے، میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘ وہ اگرچہ ظالم اور بے رحم تھے مگر مزاج شناس تھے۔پکار اٹھے’’آپ رحیم وکریم بھائی اور رحیم وکریم بھائی کے بیٹے ہیں ، آپ سے رافت ورحمت کی امید ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’جاؤ تم آزاد ہو۔ آج تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا‘‘۔ رافت ورحمت کا یہ اعلیٰ نمونہ ہے۔ عشق وعقیدت رسولؐ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان دل وجان سے اس نمونے کو اپنائیں۔

تبصرے بند ہیں۔