محترم نانا جان !مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ-ایک نظر میں

اسامہ شعیب علیگ

میرانانا جان سے تعلق بس اتنا ہی رہا کہ میں نے ان کو اپنی زندگی میں صرف تین بار دیکھا ۔میں اپنی عمر کی اس منزل میں تھا جس میں میرا شعور ابھی بہت بیدار نہیں ہوا تھالیکن مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے جب غالباً اگست 1990ءمیں نانا جان تھوڑی دیر کے لیے گھر پر (بلریاگنج،اعظم گڑھ،یوپی،ہندوستان) تشریف لائے اور انہوں نے مجھ پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور دعاوں سے نوازا۔دوسرا منظر وہ ہے جب نانا جان امیر جماعت اسلامی ہندکے منصب سے سبکدوش ہو کر چاند پٹی آچکے تھے اور اپنی وفات سے کچھ دن قبل علالت کی وجہ سے اعظم گڑھ کے ایچ- ایم ہاسپٹل میں داخل تھے ۔میں اپنے والد محترم کے ساتھ ان کے پاس تھا،وہ لیٹے ہوئے تھے اور اسی حالت میں انہوں نے نماز ادا کی تھی۔تیسرا منظروہ ہے جب ناناجان کا انتقال ہو چکا تھا اوران کے آبائی وطن چاندپٹی ،اعظم گڑھ میں انہیں گھر کے برآمدے میں ایک چارپائی پر رکھا گیا تھا۔گھر میں اعزہ و اقارب جمع تھے۔ اس کے بعد سے اب تک میں والدین،اعزہ و اقارب،مختلف اساتذہ کرام اور نانا جان کے قریبی دوستوں وغیرہ سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر گفتگو سنتا رہا ہوں اور ان پر لکھے گئے مختلف مضامین کا مطالعہ کیا ہے۔جن کی مدد سے میں نے مولانا کی شخصیت پر ایک عموی نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
مولانا ابواللیث اصلاحی 15فروری 1913ءمیں اعظم گڑھ سے 22 یا 23 کلومیٹر دور ایک گاوں چاند پٹی (سینسز(Census) 2011ءکے مطابق چاندپٹی198.29ہیکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔اس کی آبادی 8289ہے اور تعلیمی شرح 76.42فیصد ہے)میں پیدا ہوئے۔آپ دو بھائی اور پانچ بہن تھے۔بڑے بھائی کا نام عباس تھا اورچھوٹے خود مولانا تھے۔مولانا کے والد محترم کا نام توجہ حسین تھاجن کا شمار گاوں کے باوقار زمین داروں میں ہوا کرتا تھا اور والدہ محترمہ کا نام صفوحت صاحبہ تھا جو رسول پور،اعظم گڑھ کی رہنے والی تھیں۔آپ کا پہلا نام شیر محمد رکھا گیالیکن پھر بعد میں ابواللیث ہو گیا۔اس سلسلے میں دو روایتیں ملتی ہیں۔اول یہ کہ مولانا امین احسن اصلاحی یہ نام آپ کے لیے تجویز کیااور مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اسے پسند فرمایا۔دوم مولانا احمد محمود اصلاحی کے مطابق مراکش کے مشہور عالم دین علامہ تقی الدین ہلالی نے آپ کا نام بدل کر ابواللیث رکھا اور پھر یہی نام معروف ہوا۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم چاند پٹی اور محمد آباد گوہنہ،اعظم گڑھ میں ہوئی۔اس دوران مولانا کی تعلیم و تربیت میں مولوی محمد یوسف اور مولوی محمد واحد کا اہم کردار رہا۔ 6اگست 1925ءکو آپ نے مدرسة الاصلاح،اعظم گڑھ کے درجہ عربی اول میں داخلہ لیا.یہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے 1931ءمیں ندوة العلماءکا رخ کیا اور 1932ءمیں فراغت حاصل کی۔1934ءمیں وہیں استاذ مقرر ہوئے ۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنے مضمون ’مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ‘میں مولانا کی ندوہ آمد کا سن31-1930 لکھاہے:
”وہ غالباً 31-1930میں دارالعلوم میں آئے،تین چار سال آخری درجوں میں تعلیم پانے کے بعد جس میں درجے کی اگرچہ رفاقت نہیں رہی مگر طبعی مناسبت اور مزاج و ذوق کے اشتراک کی بنا پر بہت قرب و موانست رہی۔یہ وہ دور ہے جب مولانا مسعود عالم ندوی،مولانا محمد ناظم ندوی،مولانا عبدالسلام قدوائی،مولانا حافظ محمد عمران خان ندوی اور مولانا محمد اویس ندوی ،ہم سب ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور دارالعلوم کی مجلسوں اور سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔پھر جب ہم سب کے استاذ امام عربیت اور فاضل یگانہ علامہ شیخ تقی الدین الہلالی المراکشی، صدر شعبہ ادب عربی کی حیثیت سے لکھنومیں مقیم اوردارالعلوم ندوة العلماءمیں استاذ ومربی ہوئے ،تو ان سے استفادہ کرنے والوں میں جو نوجوان پیش پیش تھے ان میں مولانا ابواللیث صاحب بھی تھے۔شیخ کو بھی ان سے آخر تک سرپرستانہ و مشفقانہ تعلق رہا اور وہ عراق و مغرب منتقل ہونے کے بعد بھی ان کو نہیں بھولے۔اس کے بعد جب میں1934ءمیں دارالعلوم کے اساتذہ کی سلک سے منسلک ہوا تو مولانا ابواللیث صاحب کا بھی قریبی زمانہ میں بحیثیت استاذ کے تقرر ہوا۔“(سید ابوالحسن علی ندوی،مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ،تعمیر حیات،مجلس صحافت و نشریات،دارالعلوم، ندوة العلماء،لکھنو،شمارہ 4،جلد28،25دسمبر 1990،ص9
مولاناابواللیثؒ کے اساتذہ کرام میں مولانا امین احسن اصلاحی،اختر احسن اصلاحی،مولانا سید سلیمان ندوی،مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا تقی الدین الہلالی المراکشی وغیرہ جیسی مشہور شخصیتوں کے نام آتے ہیں۔اصلاح وندوہ کی تعلیم و تربیت کے بعد بھی مولانا کا شوقِ قرآن فہمی پورا نہ ہوا تووہ صوبہ بہار،ضلع نالندہ کے ایک گاوں ’گیلان‘ پہنچے اور وہاں چھ ماہ رہ کر مولانا مناظر احسن گیلانی،جنہیں مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے ’ندوة العلم‘ لکھا کرتے تھے،کی صحبت میں رہ کر اپنا شوق قرآن فہمی پورا کیا۔(مولانا حاذق ضیائی سہسرامی،مولانا ابواللیث کی فکری و عملی زندگی پر ایک نظر،رفیق منزل،ابوالفضل انکلیو،جامعہ نگر ،اوکھلا،نئی دہلی،اکتوبر1991،شمارہ 11،جلد 4،ص47) شاگردوں میں مولانا ابوبکر اصلاحی،مولانا نظام الدین اصلاحی اور مولانا عبدالحسیب اصلاحی وغیرہ ہیں۔
1946ءمیں مولانا کو سرائے میر کا امیر مقامی منتخب کیا گیا ۔دین کی اشاعت وتبلیغ کے نتیجے میں آپ کو حکومت کی طرف سے مختلف اوقات میں گرفتار بھی کیا گیا۔آپ 54-1953ءمیں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے اور ایک سال نظر بند رہے ۔1965ءمیں دوبارہ چار (4) مہینہ کے لیے گرفتار ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد 16اپریل1948ءکو الہ آباد کے ایک نمائندہ اجتماع میں اتفاق رائے سے امیر جماعت اسلامی ہندبنائے گئے ۔اس منصب پر آپ مسلسل چوبیس(24)سال(1948-1972)تک فائز رہے ۔1975ءمیں ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے کی وجہ سے آپ کو بھی گرفتار کیا گیا اور تقریباً 19 مہینہ جیل میں رکھا گیا۔اکتوبر1981ءمیں آپ کو دوبارہ جماعت اسلامی ہندکا امیر بنایا گیا اور اس منصب پر مارچ 1990ءتک رہے۔اس طرح سے آپ کی کل مدتِ امارت بتیس (32 )سال ہوتی ہے۔28جولائی 1990ءمیں آپ منصبِ امارت سے سبکدوش ہو کردہلی سے واپس چاند پٹی تشریف لے آئے۔5دسمبر1990ءکو آپ کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔نانی جان کا نام طیبہ خاتون (م1981) تھا،جن سے چھ بیٹیاں (بالترتیب محترمہ صفیہ صاحبہ،محترمہ رضیہ صاحبہ،محترمہ عطیہ صاحبہ،محترمہ راشدہ صاحبہ،محترمہ ساجدہ صاحبہ اور محترمہ صالحہ صاحبہ )اور ایک بیٹا (محترم ابوسعید صاحب )ہیں۔
مولانا کی بعض نمایاںخصوصیات
دنیا سے دوری و بے رغبتی،سادگی و قناعت اور خداترسی وتقویٰ مولانا ابواللیث اصلاحی کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں۔چناں چہ حضرت سید ابو الحسن علی ندویؒ اپنے مضمون” مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ“‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”مولانا ابواللیث اصلاحی ایک عظیم و موقر جماعت کے امیر ہونے کے باوجود ان کی سادگی تواضع اور عالمانہ و مدرسانہ طرزِ زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا،وہ اپنے قدیم دوستوں سے اسی بے تکلفی اور اخلاص سے ملتے تھے جیسے اپنے زمانہ طالب علمی وتدریس میں ملتے تھے اور مشائخ و علماءسے بھی ان کے روابط قائم رہے۔“(سید ابوالحسن علی ندوی،مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ،تعمیر حیات،مجلس صحافت و نشریات،دارالعلوم، ندوة العلماء،لکھنو،شمارہ 4،جلد28،25دسمبر 1990،ص9
سادگی مولانا کی فطرت کا حصہ تھی۔ مولانا سید صباح الدین عبدالرحمٰن،ناظم دار المصنفین،اعظم گڑھ،ڈاکٹر ذاکر حسین ،صدر جمہوریہ ہند کا قول نقل کیاکرتے تھے کہ مولانا ابواللیث ندوی ؒکودیکھ کر قرون اولیٰ کے صحابہ یاد آجاتے ہیں۔سلفی مکتب فکر کے اصحاب مولانا کو ’سلمان فارسی‘ کہتے اور مولانا کی سادگی کا کریڈٹ سلفی مسلک کے مشہور مبلغ اور شہرہ آفاق عالم دین علامہ تقی الدین ہلالی المراکشی کو دیتے تھے کہ مولانا ابواللیث ندوی پر اپنے عرب استاذ ہلالی کا بہت ہی اثر ہے۔(مائل خیرآبادی،مولانا ابواللیث ندویؒ،رفیق منزل،ابوالفضل انکلیو،جامعہ نگر ، اوکھلا،نئی دہلی،اکتوبر1991،شمارہ 11،جلد 4،ص39
عمومی طور سے انسان حقوق العباد میں کمزور نظر آتا ہے لیکن اس میں بھی مولانا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت رہی،چناں چہ وہ اپنے تمام ہی ذوی القربیٰ،عزیز اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔انہوں نے ہمیشہ رشتہ داروں کو دینے کی کوشش کی ،کبھی لینا نہیں پسند فرمایا۔ موجودہ دور میںاکثریت نے لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے سے غفلت برتتی ہے،لیکن مولانا نے اپنی بہن(ختم النساءمرحومہ)کو ان کاحصہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی،جب وہ اس پر کسی طرح سے بھی راضی نہ ہوئیں تو ان سے تین بارعہد لیا کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس نہیں مانگیں گی۔اس کے بعد ہی آپ مطمئن ہوئے۔
آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ بھی رہا کہ باوجود امیر جماعت ہونے اور مختلف بڑی ذمہ داریوں کے بوجھ سنبھالنے کے بعد بھی کبھی اپنے گھریلو معاملات سے غافل نہیں ہوئے۔انہوں نے نانی جان (طیبہ خاتون ،اہلیہ ،مولانا ابواللیث صاحب )کی وفات کے بعد نہ صرف گھر کو سنبھالا بلکہ اولاد کو بھی کسی طرح کی کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی۔میری خالہ (محترمہ صفیہ صاحبہ،مولانا کی سب سے بڑی بیٹی)نے مجھے بتایا کہ وہ ایک بار دس دنوں تک ہاسپٹل میں داخل تھیں تو اس دوران والد محترم(مولانا)باوجود اپنی مصروفیات کے بذات خودان کے لیے کھانا وغیرہ روزانہ لے کر آتے تھے۔
مولانا ابواللیث صاحب نے جماعتی سرگرمیوںو دیگر مصروفیات کے باوجوداولاد کی تربیت کا بھی خصوصی خیال رکھا۔ آپ کا اندازِ تربیت حکماً ،وعظ و نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ والا نہیں تھا،بلکہ آپ ان کے سامنے عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔میں نے اپنی تمام خالاوں مع والدہ محترمہ سے پوچھا کہ کیا ان کو کبھی نانا جان (مولانا)نے کسی بات پر ناراض ہو کر مارا یا ڈانٹاتھا؟سب کا جواب’ نہیں ‘میں تھا۔
مولانا کے اندازِ تربیت کے سوال پر خالہ جان (محترمہ عطیہ صاحبہ،مولانا کی تیسری بیٹی)نے بتایا کہ ایک بار والدمرحوم(مولانا)اور والدہ مرحومہ دونوں نے ایک ساتھ پانی کے لیے آواز لگائی۔وہ جب پانی لے کر گئیں تو والد محترم نے فرمایا کہ پہلے اپنی والدہ کو پانی پلاوکیوں کہ ماں کا حق زیادہ ہے۔حالاں کہ مردوں کے لیے یہ ناگوار گزرتا ہے کہ اس پر عورت کو ترجیح دی جائے،لیکن مولانا نے اس حدیث نبوی کو سامنے رکھتے ہوئے تربیت کی جس میں ماں کا حق باپ کے حق سے تین گنا زیادہ بتایا گیا ہے۔مولانا نے اپنی اولادوں کو سلام کرنے کی خصوصی تاکیدکی اور اس پر سختی بھی کی۔مجھے خالہ جان(محترمہ راشدہ صاحبہ،مولانا کی چوتھی بیٹی)نے بتایا کہ ایک بار وہ گھر میں بنا سلام کیے ہی داخل ہو گئیں تو والد محترم(مولانا)نے انہیں واپس جانے اور سلام کرتے ہوئے آنے کا حکم دیا۔
مولانااپنی اولاد کی تعلیم کے سلسلے میں بھی کبھی غافل نہ رہے۔سب سے بڑی بیٹی (محترمہ صفیہ صاحبہ)کو انہوں نے جامعة الصالحات، رام پور میں داخلہ دلایا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ اسکول اپنے ابتدائی دور میں درجہ پانچ یا چھ ہی تک تھا۔ محترمہ راشدہ صاحبہ(مولانا کی چوتھی بیٹی)کو مولانا نے بذات خود گھر پر عربی اور انگریزی وغیرہ پڑھائی اور پھر پرائیوٹ امتحان کلیة البنات،بلریاگنج،اعظم گڑھ سے دلایا۔والدہ محترمہ، ساجدہ ابواللیث فلاحی( مولانا کی پانچویں بیٹی)کو مولانا نے کلیة البنات، جامعة الفلاح،بلریاگنج،اعظم گڑھ میں داخلہ دلایا۔اسی وقت جامعة الفلاح میں لڑکیوں کاشعبہ قائم ہو اتھا،اس طرح سے موصوفہ کا شمار کلیة البنات کے پہلے بیج کی فارغہ میں ہوتا ہے۔محترمہ صالحہ تبسم(مولانا کی چھٹی بیٹی)جامعة الصالحات ،رام پورکی فارغہ ہیں۔
مولانا کی علمی خدمات
مولانا ابواللیث صاحب شروع سے ہی پڑھنے لکھنے میں بہت ذہین تھے۔آپ کو پانچ زبانوں(عربی،اردو،فارسی،ہندی اور انگریزی)سے واقفیت تھی،لیکن تحریریں اردو اور عربی میں ہیں۔عربی زبان میںپڑھنے،لکھنے اور بولنے پر بہترین قدرت رکھتے تھے۔ان کا اصلی میدان تصنیف و تحقیق خصوصاً قرآن کی تفہیم و اشاعت ہی تھا،لیکن اللہ تعالیٰ کو آپ سے دوسرا ہی کا م لینا تھا اس لیے آپ کو تحقیق و تصنیف چھوڑ کر قیادت ورہ نمائی کے میدان آنا پڑا۔پھر بھی مولانا نے مختلف موضوعات پر مضامین لکھے جو الضیاء،مدینہ،فاران،ترجمان القرآن، الاصلاح اور زندگی نو وغیرہ میں شائع ہوئے۔ مولانا کی تصانیف سترہ(17) ہیں ،جو کتاب،کتابچے اور تقاریر وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ جن میں ’ تشکیل جماعت اسلامی ہند-کیوں اور کیسے؟،جماعت اسلامی کا مقصد اور طریقہ کار،جماعت اسلامی ہند-حقائق اور الزامات،داعی اور دعوت،مغرب میں اسلام کی دعوت،ملک و ملت کے مسائل اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں،امت مسلمہ اور جدید تہذیبی مسائل،دعوتِ اسلامی ہندوستان میں‘ وغیرہ اہم ہیں۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔آمین۔

تبصرے بند ہیں۔