موجودہ ملکی حالات اور ہماری ذمہ داریاں

 محمد شاہ نواز عالم ندوی

نہ اتنا چھیڑ کر اے وقت دیوانہ بنا ہم کو
ہوئے دیوانے تو ہم سب کو دیوانہ بنادیں گے

ایک واقعہ:۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی دور کے واقعات میں سیرت نگاروں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ طفیل بن عمرو الدوسیؓ جو قبیلہ دوس کے سردار ہیں، زمانہ جہالت کے رسم ورواج کے مطابق حج بیت اللہ اور یہاں موجود معبودان باطلہ سے برکت حاصل کرنے کے ارادہ سے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ حالات اتنے حساس اور نازک ہیں کہ معدود چند افراد نے اسلام قبول کیا ہے،ان پر بھی مظالم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ ہر چہارجانب محمد رسول اللہؐ کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر حربہ رسول اکرمؐ اور مسلمانوں کے خلاف آزمایا جارہاہے۔ ایسے حالات میں دشمنان اسلام، کفار قریش نے جب دیکھا کہ کوئی حربہ کارگر ثابت نہیں ہورہاہے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی کو محمد سے ملنے ہی نہ دیا جائے، تاکہ کوئی نیا شخص داخل اسلام نہ ہو، جب کوئی مسلمان نہ ہوگا تو ان کی تعداد جوں کی توں رہے گی۔ افرادی قوت جو کسی قوم وملت کے سب سے بڑی قوت ہے ان کو حاصل نہ ہوگی۔ اس سازش کے تحت انہوں نے طفیل بن عمرو الدوسیؓ کے کان بھرنے شروع کردیئے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ان کا مکہ کی وادی میں استقبال کیا، ان کی خوب آہ وبھگت کی، ان کے احترام واکرام میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ پھر ان سے درخواست کی کہ دیکھیں آپ اس شہر میں ابھی ابھی آئے ہیں، آپ کو حالات کو صحیح علم نہیں ہے، یہاں ہمارے شہر میں ایک محمد نامی شخص ہے جن کو جادو سے بھری زبان ، گفتگو کا ملکہ، ساحرانہ وشاعرانہ تاثیر وقوت حاصل ہے۔ انہوں نے ہمارے معاشرہ کو بکھیرکررکھ دیاہے۔ مختصر یہ کہ ایک فساد یہاں برپا ہے۔ اس لئے آپ ان سے دور رہیں۔ ان کی باتیں نہ سنیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی ان کی باتوں میں آکر اپنا وقار بیٹھیں گے۔ قومی کی سرداری بھی جاتی رہے گی۔
میں نے اپنی بات ایک شعر اور ایک واقعہ سے شروع کی ہے۔ واقعہ کیوں بیان کیا ہے اس سے کیا حاصل ہے یہ تو آئندہ سطور میں آئے گا۔ فی الوقت میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کررہاہوں کہ اس وقت ملک (ہندوستان) وطن عزیز ایک ناگفتہ بہ حالت سے دوچار ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر چہارجانب ہو کا سا عالم ہے۔ خصوصاً امت مسلمہ ہندیہ کو تو بندشوں اور پابندیوں میں جکڑ دیا گیاہے۔ وطن عزیز اپنی وسعت کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوچکی ہے۔ علوم وفنون، سائنس وٹکنالوجی کی ہمہ جہت ترقی کے اس دور میں بھی مسلمانوں تاریک گلیاروں میں بھٹک رہے ہیں۔ اپنوں کے درمیان اختلاف کی جنگ میں برسو ں سے جل بھن رہے ہیں۔ اتنے نڈھال اور زخمی ہوچکے ہیں کہ کھڑے ہونے کی قوت بھی تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ایسے میں سیاسی مار اور مخالف قوتوں کی تلوار سر پر لٹک پڑی ہے۔ ہماری دین سے دوری، دین بیزاری سے اللہ نے اپنی رحمت ، مددونصرت چھین کر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیاہے۔ یہی کیا کم تھا کہ صاحب اقتدار اپنے اقتدار کا فائدہ اٹھاکر ہم سے ہمارے ناکردہ گناہوں کا بدلہ لے رہاہے، کہ ’’جس پہ تھا تکیہ وہی پتے ہوادینے لگے‘‘ کے مصداق امید کی آخری کرن، ایک مینارۂ امید عدالت عظمیٰ نے بھی ہماری کمر توڑنے کے لئے عیارانہ ومکارانہ چالیں چلنی شروع کردی ہیں۔
ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کرکے چھوڑوں گا
لہو رو روکے محفل کو گلستان کرکے چھوڑوں گا
قانون کے محافظ پولیس فورس، سکیورٹی اور تحفظات کے لئے نامزد افراد بھی مسلم دشمنی پر کمربستہ ہے۔ کبھی دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو قید تنہائی میں ڈالا جاتاہے تو کبھی جیل سے فرار اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے کی کوشش کے نام پر انکاؤنٹر کے ذریعہ قتل عام کیا جاتاہے۔ یہ وہ حالات و منظرنامہ ہے جس سے ایک طرف اگر مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کیا جارہاہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی قوت کو پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن یہ ہوکیوں رہاہے، اس کے پیچھے کیا ہے، کون پس پردہ بیٹھا ہے، کیا ہے جس کے سبب یہ سب کارفرما ہیں؟ یہ اہم ترین سوالات ہیں جن کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔
ماضی کی یادیں، اس کے حالات کسی قوم کے لئے تازیانۂ عبرت ہوتے ہیں۔ مذکورہ ملکی و قومی حالات کا تجزیہ اگر ماضی سے کیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب جب اس امت نے اپنے سرچشمۂ حیات سے اپنا رشتہ توڑا ہے۔ اللہ کی عبادت اور اس کی خوشامد سے اعراض کیا ہے، رسول اکرمؐ کی سنتوں کو پامال کیا ہے یا ہوتے ہوئے خاموش تماشا دیکھا ہے، اپنے اخلاق وکردار کو اسلام کے آئینہ میں دیکھنے کی بجائے غیراسلامی آئینہ کے سامنے رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے تو تنازعات کا شکار ہوکر مختلف ٹکروں میں تقسیم ہوئی ہے۔ علماء ومصلحین امت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا ہے تو خود اپنے وجود کو کھودیا ہے۔ دین اور دیندار طبقہ سے دوری اور علماء سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو ذلالت ورسوائی کے عمیق غار میں ڈھکیل دی گئی ہے۔ میں تاریخ کا زیادہ طویل سفر نہیں کروں گا اور نہ ہی آپ کو زیادہ تھکانے کی کوشش کروں گا بس ایک اچٹتی ہوئی نہیں ڈالتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتا ہوں کہ انقلاب ایران کے وقت یہی کچھ ہوا تھا۔ انقلاب مصر کے وقت یہی کچھ ہوا۔ اندلس الاسلامیہ کو انہی اسباب وجوہات پر تخت وتاراج کردیا گیا۔ اسپین سے مسلمانوں کا اخراج اور ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کا قتل، لاکھوں نادرونایاب کتابوں پر مشتمل مسلمانوں اور علماء امت ومصلحین امت ، محدیث عظام، ومفسرین کرام کی محنت وکاوش کی یادگار کو انہی دین بیزاری، دین سے دوری، علماء سے اختلاف کے نتیجہ میں جلاکر خاکستر اور دریا برد کردیاگیا اور جب مسلمان ہوش میں آئے اور گہری نیند سے بیدار ہوئے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ سب کچھ لٹ چکا تھا۔ آج یہاں وہاں، قومی وبین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی حالت کچھ اسی طرح کی ہے۔ علماء ومصلحین امت، مفکرین، حاملین شریعت، عالمین قرآن وسنت کو کبھی دقیانوسی کا طعنہ دے کر ان پر اپنی تجدد پسندی اور بے جا اور آزادانہ خیالات کی روشنی نہیں بلکہ تاریکی میں ان کی صفوں سے عوام الناس کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کبھی ان پر دنیا پرستی کا الزام لگاکر عوام الناس کو ان سے بیزار کیا جارہاہے۔ نتیجتاً عوام نے اپنی راہ الگ کرلی ہے۔ علماء سے ان کا دور رشتہ نہیں رہاہے۔ علماء اپنی دنیا میں مگن ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ (معذرت کے ساتھ) ہمارے درمیان چند نام نہاد علماء بھی تو ایسے ہیں جن کردار مشکوک، جن کے اعمال خراباں، دنیا کی لالچ میں دین کے سودائی، بے قیمت سامان دنیا کے لئے بیش قیمت وبے بدل دینی علم کے ہرجائی بنے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ایسے ہی ضمیر فروشوں کی دشمن عناصر کو تلاش رہتی ہے۔ جن کے کندھے پر بندوق رکھ ہم کو نشانہ بناتے ہیں۔پھر ہماری اجتماعی قوت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ ہم پھسل جاتے ہیں، ہماری ہوا اکھڑی جاتی ہے۔
میں نےاپنی بات کی ابتدا ایک واقعہ سے کی تھی اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ وقت کا میڈیا کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس نے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلی ہو۔ لیکن حق یہ ہے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوئی ہے، اسلام کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولا ہے اور بولے گا، کیوں کہ ’’اسلام کو سرپرستی کے لئے آیا ہے۔ اس پر کسی کو سرپرستی کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔‘‘ واقعہ کا آخری حصہ جو میں نے طوالت سے گریز کرتے ہوئے بیان نہیں کیا وہ یہی تو ہے کہ طفیل عمرو الدوسی نے زبان رسالت مآبؐ سے نکلا ہوا کلمہ سنا اور ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کے مصداق اثر کرگیا۔ خود بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور پوری قوم کو اسلام کی جھولی میں ڈال دیا۔اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کی جیت ہوگی، اسلام کا جادو سرچڑھ کر بولے گا۔ لیکن بس ایک شرط ہے کہ موجودہ حالات میں مسلم رہنماؤں (سیاسی، ملی، سماجی) کی عمومی اور علماء ومصلحین کی خصوصی طور پر اپنی اپنی ایک اینٹ کی مسجد کو مسماراور اپنے اپنے انا کے دیوتاؤں کو توڑ کر ایک فلیٹ فارم پرآنا ہوگا۔ اپنے اندر اخلاص وللہیت پیداکرنی ہوگی، نیت کو درست کرنا ہوگا۔ آج پورے مسلم معاشرہ میں عموماً (ایک تجزیہ کے مطابق) یہ دیکھا جارہاہے کہ ہر فرد جس کو سیاست میں کوئی وقار حاصل ہے اس نے اپنی امارت کی بقاء کی جنگ لڑرہاہے۔ دوسروں کی عزت آبرو سے کھیل رہاہے۔ کسی کو اپنے سے آگے تو دور کی بات ہے اپنے برابر بھی پھٹکنے نہیں دے رہاہے۔ اگر کوئی کوشش کرتاہے تو اس کی کوشش کے ساتھ اس کو کچل دیا جاتاہے۔ ایک طرف تو یہ ہورہاہے، دوسری طرف امراء روساء کی ایک بڑی جماعت ہے جس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مالداری، ثروت ودولت اس کی میراث ہے، اس پر کسی کا کوئی حق نہیں ، جو غریب ہیں وہ غریب ہی رہیں۔ ان کو ہمارے گلیارے قدم رکھنے اور ہماری گلی میں آنے کے لئے سوچنا بھی زیب نہیں۔ تیسری طرف علم دین کا ایک میدان ہے جہاں کا ہر مرد میدان نے اپنی دنیا الگ آباد کر رکھی ہے، ہر ایک کا ایک علاحدہ مکتبہ فکر ہے، ہر فرد اپنے دسترس والے علاقہ کا امیر بنا ہواہے۔ وہی قائد ودینی وعلمی رہنما ہے۔ وہ دوسروں سے اختلاف ہی نہیں بلکہ دشمنانہ چپقلش رکھتاہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اسی سے اس کی دکان چل سکتی ہے۔ اسی طرح اس کی بقاء ممکن ہے۔ لیکن
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
بس اس انانیت کے کھول سے نکل کر ہم کی بے پناہ وسعتوں آنا ہوگا، ایک متحدہ ومجتمعہ قوت بنانی ہوگی، قانونی جنگ کے لئے علم ودانش کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا۔ مسلکی، علاقائی، زبانی، تعصب کو بالائے طاق رکھ کر حکومت وقت کو چیلنج کرنا ہوگا۔ قاتل کی آنکھوں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنی ہوگی۔ حالات کتنے ہی ناگفتہ بہ کیوں نہ ہوں ان سے مقابلہ کی ہمت وجرات کرنی ہوگی۔ یہ سوچنا ہوگا کہ جو کچھ ہواہے اور جو کچھ ہوگا وہ سب اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ سے غفلت اور اس سے مایوسی کفر وناکامی ہے۔ بس ہمیں یہ کوشش کرنی ہوگی کہ ہماری نیتیں درست ہوجائیں،آپسی چپقلش کو بھول کر ایک ہوجائیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہم کو اس کی توفیق دے۔ آمین
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید ومبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔