قوم عاد اور قرآن مجید

تحریر: علامہ سید سلیمان ندویؒ ۔۔۔ ترتیب:عبدالعزیز
( آخری قسط ۔۔۔)
(1 غرور قوت عاد کو اپنی قوتِ بازو پر ناز تھا اور اسی طرح ہر قوم جو مجد و تفوق پر قابض ہوتی ہے، اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی اپنی قوت پر مغرور رہتی ہے۔
متکبرین عاد نے کہا : اے ہود! ہمیں کس سے ڈراتے ہو۔
مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً (حٓمٓ السجدہ 15041)۔’’قوت و زور میں ہم سے کون بڑا ہے؟‘‘
حضرت ہودؑ نے کہا تمہاری قوت مسلم لیکن اگر صلاح و تقویٰ کی دعوت قبول کروگے۔
یَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ (ہود 52:11) ’’تو خدا تمہاری قوت کو اور قوت بخشے گا۔
لیکن وہ نہ سمجھے: ’’کیا وہ نہ سمجھے کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا وہ ان سے بھی زیادہ قوی ہے‘‘ (حٓمٓ السجدہ15:41)۔
ان کو نہ صرف اپنی فوجی و سیاسی قوت پر ناز تھا بلکہ اپنے افراد کی تعداد اور اپنی مواشی کی کثرت اور اپنے باغوں کی بہتات پر بھی ناز تھا جو اس عہد کی سب سے بڑی دولت تھی۔
حضرت ہودؑ نے کہاکہ یہ شکر کی بات ہے نہ استکبار کی: ’’اور اس خدا کا خیال کرو جس نے تم کو وہ چیزیں عنایت کیں جن کو تم جانتے ہو؛ مواشی، اولاد، باغ اور چشمے‘‘ (الشعراء:132 تا 134)۔
’’اور تم کو خلق میں وسعت عطا کی‘‘ (الاعراف 69:7)
(2 ظلم و جور، قوم کی حاکمانہ زندگی کیلئے سب سے زیادہ زہر قاتل،ظلم اور جور و ستم ہے اور اقوام کی تاریخ اس دعویٰ پر بہترین شاہد ہے، عاد اپنے ممالک مقبوضہ میں اکڑتے پھرتے تھے، بغیر کسی استحقاق کے قوموں کو چھیڑتے تھے، جیسا کہ ہر عہد کے عاد زمین کے ہر قطعہ پر اکڑتے پھرتے ہیں اور معصوم قوموں کو چھیڑ چھیڑ کر فنا کرتے رہے ہیں۔
’’لیکن عاد نے زمین میں بلا استحقاق غرور کیا اور کہاکہ کون ہم سے زور و قوت میں بڑا ہے‘‘ (حٓمٓ السجدہ:15-41)۔
عاد کی اس جباری اورستمگری کا ثبوت مصر کی مفتوح اقوام کی زبان سے بھی ملتا ہے:
’’خدا ہم سے ناراض تھا، ایک عجیب طریقہ سے اطراف مشرق سے شریر الخلقت لوگ چلے آئے، وہ اس قدر قوی تھے کہ ہمارے ملک میں گھس گئے اور بزور نہایت آسانی سے اس کو مسخر کرلیا۔۔۔ جب انھوں نے ہمارے سرداروں کو گرفتار کرلیا ۔۔۔ ہمارے شہروں کو جلا دیا، ہمارے دیوتاؤں کے مندر گرا دیئے اور تمام باشندوں کے ساتھ وحشیانہ طریقہ سے سلوک کیا اور نہ صرف یہ بلکہ بعض ہتھیاروں سے مار ڈالا اور ان کی بیوی بچوں کو غلام بنایا‘‘۔
(3 سب سے آخری چیز جو انتہائے بربادی عالم ہے، خدائے واحد کا انکار اور معبودانِ باطل کی پرستش ہے، ہود علیہ السلام نے کہا:
’’بھائیو! خدا کو پوجو، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، کیا پرہیزگار نہیں بنتے‘‘ (الاعراف:65:7)۔
’’بھائیو! خدا کو پوجو؛ اس کے سوا کوئی خدا نہیں، دوسرے خداؤں کا نام تمہارا افترا ہے‘‘ (ہود:50-11)۔
جواب وہی ملا جو اکثر ملتا ہے: ’’اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی حجت نہیں لائے، صرف تمہارے کہنے سے تو ہم اپنے دیوتاؤں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تم پر ایمان لانے والے ہیں‘‘ (ہود: 53-11)۔
ہود علیہ السلام نے اب خدا کا آخری پیغام پہنچایا:
’’اگر اعراض کیا تو میں نے تم کو جو پیغام دے کر بھیجا تھا، خدا تمہارے سوا کسی اورکو حکومت دے گا‘‘ (سورہ ہود:57-11)۔
’’میں تم پر بڑے عذاب کے دن سے ڈرتا ہوں‘‘ (الاحقاف:21-46)۔
آخر وہ دن آگیا جب سنت الٰہی نے اپنی زمین کیلئے ایک دوسری قوم کا انتخاب کیا اور اس شریر قوم کو احقاف کے باہر تلوار سے اور احقاف کے اندر ہوا اور ریگ کے طوفان سے برباد کیا کہ یہ سب اس کے ہتھیار ہیں، اس کا ہاتھ انسانوں کے ہاتھ میں بھی ویسا ہی کام کرتا ہے جس طرح ہوا، پانی اور آگ ہیں:
’’ہم نے ان پر منحوس دنوں میں باد صر صر بھیجا تا کہ ہم ان کو عذاب ذلت کا اسی زندگی میں مزہ چکھائیں اور عذاب اخروی سب سے زیادہ ذلت والا ہے‘‘ (حٓمٓ السجدہ: 16-41)۔
’’جب ان کو باد صر صر کا عذاب ایک بادل کی صورت میں جس کا رخ ان وادیوں کی طرف تھا نظر آیا تو بولے یہ ہم کو سیراب کرنے والا بادل ہے، نہیں بلکہ یہ وہ ہے جس کی اے گنہگارو! تم کو جلدی تھی، یہ ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے، اپنے خدا کے حکم سے ہر شے کو برباد کر دیتی ہے پھر وہ ایسے نیست و نابود کر دیئے گئے کہ ان کے گھروں کے سوا اور کچھ باقی نہ رہا۔ لیکن عاد تو وہ تند باد صرصر سے تباہ کر دیئے گئے، خدا نے جڑ کاٹنے والی سات رات اور آٹھ دن تک ان پر اس ہوا کو لگا دیا، تم دیکھتے ہو اس ہوا نے اس قوم کو افتادہ جیسے وہ کھوکھلے درخت کی جڑ تھے، کیا اب ان میں کا کوئی تم کو زندہ نظر آتا ہے‘‘ (الحاقۃ 69: 6تا 8)۔
’’اور عاد میں عبرتیں ہیں جب ہم نے بے فائدہ بخش ہوا کو بھیجا جو ایسی تھی کہ جس شے پر اس کا گزر ہوجاتا اس کو بوسیدہ ہڈی کی طرح کر چھوڑتی‘‘ (الذاریات:41-51 تا 42)۔
اور ملکوں میں پانی کا دریا ہے جس میں کبھی کبھی طوفان آتا ہے، عرب اور افریقہ میں ریگستان کا دریا ہے، کوسوں تک ریگستان ہے، احقاف وہ عظیم الشان ریگستان ہے جو سیکڑوں میل تک وسیع ہے اور اب اس کو الربع الخالی کہتے ہیں، اس میں جب تیز ہوا چلتی ہے تو زندگی دشوار ہوجاتی ہے، ریگ کے پہاڑ کے پہاڑ ہوا پر اڑتے پھرتے ہیں اور جہاں وہ تھمتے ہیں اس کو دبا کر دفن کر دیتے ہیں۔ قافلہ کا قافلہ، گاؤں کا گاؤں اس کے نیچے دب کر موت سے پہلے مدفون ہوجاتا ہے، پھر اتفاق سے جب یہاں سے ریگ ہٹتی ہے تو ہڈیوں کا قلعہ نظر آتا ہے۔ ایک انگریز سیاح جس نے اس طوفان سموم کا عرب میں نمونہ دیکھا ہے اس کی کیفیت یوں بیان کرتا ہے:
’’دوپہر تھی، جنوب کی طرف دفعتہ لُو کے جھونکے آنے لگے، ہوا کی تیزی رفتہ رفتہ بڑھتی گئی۔۔۔ میرے عرب رفیقوں نے اپنے چہروں کو کپڑے سے لپیٹ لیا اور اونٹوں کو مار مار کر تیز کرنے لگے لیکن اونٹ بار بار بیٹھ جانے کی کوشش کرتے تھے، میں نے رفیقوں سے واقعہ دریافت کیا لیکن نہایت گھبراہٹ کے ساتھ صرف یہ کہا کہ سامنے کے خیمے میں اگر پہنچ گئے تو جان بچ جائے گی‘‘۔ اس اثناء میں ہوا اور زیادہ تند و تیز ہوگئی، گرمی کی یہ شدت ہوگئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ آسمان سے دوزخ اتر آئی ہے، بالآخر کوشش کرکے ہم خیمے تک پہنچ گئے، وہاں ایک عورت منہ لپیٹے اوندھی پڑی تھی، ہمارے اونٹ ہوا کے رخ سے منہ پھیر کر ناک کو ریت میں گاڑ کر مردے کی طرح پڑگئے۔
ہم بھی خیمہ میں جاکر منہ لپیٹ کر اوندھے پڑگئے، تاریکی اتنی شدید تھی کہ رات معلوم ہوتی تھی، دس منٹ تک تقریباً یہی حالت رہی، پھر ہوا اور گرمی میں تخفیف ہوئی، جب ہم اٹھے تو ہمارے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی‘‘۔
تنبیہات: حضرت ہودؑ کو عام طور سے ’’عابر‘‘ سمجھا جاتا ہے جو از روئے توراۃ تمام تر عبرانیوں کا باپ تھا، بظاہر ہم اس اتحاد کی کوئی وجہ نہیں سمجھ سکتے، گو نصرانی مصنّفین جو آبائے توراۃ کا تاریخی ثبوت ڈھونڈتے ہیں اور ایک ایک ذرہ کو جو ان کے موافق ہو پہاڑ ماننے کو تیار رہتے ہیں لیکن اپنی مخالفت میں پہاڑ کو ذرہ ماننے پر بھی آمادہ نہیں، بدل و جان اس اتحاد کے موئید ہیں۔
عدن کے پاس عاد ثانیہ کا ایک کتبہ ملا ہے، اس میں ہودؑ کا نام بھی مذکور ہے۔ عام طور سے مشہور ہے کہ حضر موت کے دامن کوہ میں حضرت ہودؑ کی قبر شریف ہے اور اب تک لوگ اس کی زیارت کو آتے جاتے رہتے ہیں۔
قوم عاد کی نسبت عام طور سے نہایت لغو باتیں مشہور ہیں،مثلاً یہ کہ ان کا قد کئی کئی گز کا ہوتا تھا، یہ شبہ اس لئے ہوا کہ قرآن نے ان کو ذات العماد (ستونوں والے) کہا ہے، اس سے وہ سمجھے کہ ان کا قد ستونوں کی طرح تھا، حالانکہ ’’ستونوں والے‘‘ سے مقصود عمارتوں والے‘‘ ہے۔
دوسری جگہ قرآن میں ان کی نسبت ہے: ’’خدا نے تم کو خلق میں زیادتی بخشی ہے‘‘ (الاعراف:69-7)۔
بصطۃً سے مقصود زور و قوت ہے، یعنی خدانے تمہارے بدن میں زور و قوت بخشا ہے، یہی محاورہ دوسری جگہ حضرت طالوتؑ کی نسبت مستعمل ہوا ہے۔ وزادہ بصطۃ فی العلم والجسم (البقرہ2: 248)، اس سے یہ معنی کون سمجھ سکتا ہے کہ طالوت بڑے قد آور تھے بلکہ یہ مقصود ہے کہ صاحب قوت تھے، یہ بھی عام طور پر مشہور ہے کہ عذاب کے بعد قوم عاد میں پھر کوئی زندہ نہ بچا، یہ غلط خیال قرآن کی ان آیتوں سے سمجھا گیا ہے:
’’اور وہ اس طرح ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘‘ (الاحقاف:25-46)۔
’’اس ہوا میں یہ قوم اس طرح افتادہ تھی جیسے کھوکھلے درخت کی جڑ ہو، کیا ان میں سے اب کوئی زندہ نظر آتا ہے‘‘ (الحاقۃ69:8-7) ۔
لیکن یہ تو زمانہ نزول قرآن کا حال بیان کیا گیا ہے، اس سے دو ہزار برس پہلے کا حال کیا تھا، خود قرآن کہتا ہے:
’’ہم نے ہودؑ کو اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت سے نجات دی اور جنھوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی ان کی جڑ کاٹ دی‘‘ (الاعراف72:7)۔
’’اور جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے ہودؑ کو اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے، اپنی رحمت سے نجات دی اور ہاں ہم نے ان کو بڑے عذاب سے نجات دی‘‘ (ہود 58:11)۔
اور تیسری جگہ قرآن نے تفصیل کر دی ہے اور ان ہلاک ہونے والوں کو ’’عاد اولیٰ‘‘ کہا ہے:
’’اور اس خدا نے عاد اولیٰ کو ہلاک کردیا‘‘ (النجم 50:53)۔
اس آیت سے خود بخود یہ سمجھنا چاہئے کہ نجات پانے والوں کا عاد ثانیہ نام ہے۔ ابن ہشام کلبی نے ’’عاد اولیٰ و عاد ثانیہ‘‘ کے حال میں ایک کتاب لکھی تھی لیکن اب کہاں ملتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔