ماہ صفر کے توہمات اور اسلامی تعلیمات

اظہرشاہ ستوریانی

صفر اسلامی مہینوں کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے، جس کے لفظی اعتبار سے متعدد معانی ہے خالی معدہ کا ہونا،  بیماری وغیرہ کا متعدی ہونا اس دوسرے معنی کی مناسبت سے  عرب زمانہ جاہلیت میں اس مہینے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے، اور اسے صفر المکان یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے، کیوں کہ وہ تین پے در پے حرمت والے مہینوں کے بعد اس مہینے میں  گھروں کو خالی کرکے لڑائی اور قتل وقتال کے لیے میدان کارزار کی طرف نکل پڑتے تھے،اور جنگ وجدال میں مصروف ہوجاتے تھے، ماہ صفر کے حوالے چند ضروری باتیں مندرجہ ذیل ہے۔

1- ماہ صفر دور جاہلیت میں

 اسلام سے قبل دور جاہلیت میں عرب  جس طرح بہت توہمات اور خرافات کے شکار تھے اسی طرح وہ اس ماہ صفر کو بھی منحوس اور بھوت پریت کا مہینہ تصور کیا کرتےتھے،جس طرح  کسی کام یا سفر شروع کرنے سے پہلے پرندے کو اڑایا کرتے تھے اگر پرندہ دائیں جانب اڑتا تو اس کام یا سفر کو اچھا جان کر شروع کر دیتے تھے اور اگر پرندہ بائیں جانب اڑتا تو اس کام اور سفر کو منحوس خیال کر کے ترک کردیتے تھے، اسی طرح  اس مہینے کو منحوس اور بھوت پریت کا مہینہ کہتے تھے تین پے در پے حرمت والے مہینوں کے بعد یہ مہینہ جنگ وجدال اور قتل وقتال کا پہلا مہینہ ہوتا تھا جس میں سارا عرب معاشرہ اپنے اپنے گھروں کو خالی کر کے سارے ساز وسامان اور اہل وعیال کا ایک قافلہ لیکر میدان کارزار میں جمع ہوتے تھے اور اپنے نام و نمود، حسب و نسب اور انتقامی جنگوں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ اس لیئے عرب اسے صفر المکان یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے۔ اس مہینے میں لڑائی جھگڑوں اور قتل وقتال کی زیادتی کی وجہ سے بہت سے قتل ہوجاتے تھے اس وجہ سے عرب اس مہینے کو منحوس اور بدبخت مہینہ تصور کرتے تھے، مشہور محدث اور تاریخ دان سخاوی اپنی کتاب ” المشہور فی اسماء الایام و الشہور” میں عربوں کے ہاں  صفر کے منحوسیت کا وجہ تسمیہ یہی بیان کرتے ہیں، کہ عربوں نے جب دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوجاتے ہیں اور گھر برباد و خالی ہوجاتے ہیں تو انہوں نے اس مہینے کو اپنے لیئے منحوس قرار دیا۔ اور گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ کی طرف توجہ نہ دی اور نہ ہی اپنے غلط کاموں کا احساس کیا، لڑائی جھگڑوں، جنگ و جدل سے کنارہ کشی نہ کی بلکہ اس مہینے کو اپنے لیے منحوس قرار دیا، جس کی وجہ سے انہوں نے اس مہینے میں مختلف قسم توہمات اور خرافات  ایجاد کیئے، اور کہا کہ ان کے ذریعے ہم اس مہینے کے شر اور نحوست سے بچتے رہینگے، مگر حقیقت میں نہ اس مہینے میں نحوست و مصیبت ہے اور نہ ہی یہ بدبختی اور بھوت پریت کا مہینہ ہے بلکہ ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے وہ مصائب و آفات میں مبتلا ہو جاتے تھے، اور اپنی جہالت کی وجہ سے اس مہینے کو منحوس اور بھوت پریت کا مہینہ تصور کرتے تھے۔

2- ماہ صفر کے من گھڑت بدعات۔

     جس طرح زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر کو منحوس جانا جاتا تھا اور اس کے شر و بلاوں سے بچنے کیلئے مختلف قسم کے خودساختہ خرافات گھڑ لیے تھے، اسی طرح آج کل کے معاشرے میں بھی ماہ صفر میں بدعات و خرافات رواج پذیر ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتےجارہے ہیں، ماہ صفر کے پہلے تیرہ دنوں کو منحوس قرار دیا جاتا ہے، اس میں شادی وغیرہ سے اجتناب کیا جاتا ہے، کہ ماہ صفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات مبتلاء ہوگئے تھیے اور ان تیرہ دنوں میں مرض وفات میں شدّت آگئی تھی، جس کی وجہ سے ان دنوں کو منحوس خیال کرکے خوشی، شادی بیاہ سے اجتناب کیا جاتاہے۔ اس کے علاوہ اس مہینے میں چنے ابال کر  محلے میں تقسیم کئے جاتے ہیں تاکہ اس مہینے کے مصائب و آفات سے   خلاصی ہو، آٹے کی 365 گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالے جاتے ہیں، تاکہ اس مہینے میں آنے والی بلائیں ٹل جائے۔ آسمانی بلاؤں، جنات اور مصیبتوں کے بھگانے کیلئے درودیوار کو ڈنڈوں سے مارا جاتا ہے، تاکہ گھر سے بلائیں، جنات اور مصیبتیں نکل جائے۔ اس مہینے کی آخری بدھ کو گھی، چینی اور گڑھ کی روٹیاں بنا کر تقسیم کئے جاتے ہیں، اور سیر وتفریح کی غرض سے گھروں سے نکل پارکوں کا رخ کیا جاتا ہے، کہ آخری بدھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض وفات سے افاقہ ہوا تھا اور غسل صحت فرمایا تھا، جب کہ تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صفر کے آخر  بدھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات میں کمی کے بجائے مزید شدت پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے علاؤہ اس مہینے کو مردوں کے لیے بھاری تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سب خرافات اور توہمات ہیں حقیقت کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے، اسلام نے واضح کیا کہ جیسے اعمال ہونگے ویسے ہی نتائج نکلیں گے، کوئی لمحہ، کوئی دن ہمارے لیئے منحوس نہیں ہے ہماری بد اعمالیاں ضرور ہمارے لیئے منحوس ثابت ہوتی ہیں، جو قومیں دین فطرت اسلام سے اعرض کرتی ہے وہ اسی طرح توہمات اور بدشگونیوں کا شکار ہوجاتی ہے پھر انہیں ہر کام ہر چیز منحوس نظر آتی ہے، یہ توہمات اور بدشگونیاں انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہے، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا کامل و اکمل یقین انسان کو مضبوط اور مستحکم بنادیتا ہے، پھر انسان کسی دن کسی ہفتے یا مہینے کو منحوس نہیں کہتا بلکہ وہ ہر خیر و شرکا اللہ کے طرف سے ہونے کا یقین رکھتا ہے۔

3۔ ماہ صفر کے اہم واقعات۔

     اس ماہ میں مختلف اہم اور تاریخی حالات و  واقعات کے ساتھ ساتھ غزوات و سرایا کی تعداد بھی بہت زیادہ ہیں۔ جیسا کہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے، اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر اسی مہینے میں لڑی گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اس غزوہ میں شرکت کی، اور مسلمانوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود کفار کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔  غزوہ ابواء اور بئر معونہ بھی اسی مہینے میں واقع ہوئی، جب کہ اسلام کی تاریخی فتح فتح خیبر بھی اسی مہینے میں ہوئی، جس سے اسلام کو بہت تقویت ملی۔ اسی طرح اس مہینے کی 9 تاریخ کو قبیلہ خثعم کی جانب قطبہ بن عامر کی قیادت میں سریہ روانہ ہوا  اور فتح ان کا مقدر بنا۔ دین اسلام کے اہم رکن کفار کی اصلاح اور مسلمانوں کی دفاع کا اہم ذریعہ  جہاد کا حکم بھی اسی مہینے میں نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری لشکر  27 صفر کو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں روانہ فرمایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کی شدت اور پھر وصال کی وجہ سے مدینہ کے قریب ایک میدان میں ٹھرا رہا، اور بعد میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روانہ فرمایا۔ ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے نکاح اور رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی، حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہ کا نکاح بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مہینے میں ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینے میں مرض وفات میں مبتلا ہوئے۔

4۔ ماہ صفر کی شرعی حیثیت۔

     حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد جس طرح جہالت و ظلمت، کفر و شرک کی بیخ کنی کی اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اسی طرح مختلف من گھڑت رسومات و خرافات اور خود ساختہ توہمات کا بھی خاتمہ کیا۔ صفر وہ مہینہ ہے جس میں اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادات کے علاؤہ کوئی خاص عبادت  نہ کی اور نہ ہمیں کرنے کا حکم دیا، مگر کسی خاص بلا یا مصیبت و پریشانی سے بچنے یا اس کے لیے کسی تدبیر کا بھی حکم نہیں دیا، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماہ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا، )مسلم شریف (۔

      انسان کی نحوست کا تعلق اس کے اعمال کے ساتھ ہے جب کہ وہ سمجھتا ہے کہ نحوست باہر سے آتی ہیں، جس کی وجہ سے کبھی کسی انسان، کبھی کسی جانور، کبھی کسی دن اور رات کبھی کسی مہینہ اور سال کو منحوس قرار دیتا ہے۔  نحوست اور بدبختی انسان کی بدفالی اور بدشگونیوں سے ہوتی ہے جیسے اس آیت مبارکہ میں ذکر ہے، ترجمہ- اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک کتاب اس کے لیے نکال لیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا، پڑھ  اپنا اعمال نامہ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے، )سورہ بنی اسرائیل (۔  اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی نحوست اور بدبختی کا تعلق اس کے اعمال اور اس کے بدفالی اور بدشگونی سے ہوتا ہے نہ کہ کسی دن یا مہینہ یا سال سے، بدشگونی اور بدفالی تو سراسر شرک ہے جیسے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو بدشگونی کسی کام سے روک دے تو یقیناً اس نے شرک کیا۔

      اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بدشگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو کہتے کہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے مثلاً موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بارے میں بتایا، ترجمہ- پس جب انہیں کوئی چیز ملتی تو کہتے ہیں ہم ہی اسی کے حقدار ہے اور اگر ان کا کوئی نقصان ہوجاتا تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے بدشگونی لیتے ہیں حالانکہ ان کی شومئی قسمت تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے لیکن ان میں اکثر لوگ نہیں جانتے، )سورہ الاعراف (۔ اسی لیے کسی چیز یا کسی دن میں یا مہینے میں کوئی بدبختی اور بھوت پریت نہیں ہے بلکہ ہمارے اعمال کی نحوست ہے، دن اور رات، سال اور مہینے اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ہے اس میں کوئی بھی دن یا رات مہینہ یا سال نحوست زدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ان بےبنیاد خرافات اور من گھڑت رسومات سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔