تصوف وسلوک کی حقیقت !

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

”تصوف“ اصل میں اخلاق کی پاکیزگی، باطن کی صفائی، آخرت کی فکر، قلب کی طہارت اور دنیاسے بےرغبتی کا نام ہے؛ انہی پاکیزہ صفات سےاپنے آپ کو متصف کر نا احادیث کی اصطلاح میں احسان کہلاتاہے، جومذہب سے الگ کوئی نئی چیز نہیں ؛بلکہ مذہب ہی کی اصل روح ہے اور جس طرح جسم وجسد، روح کے بغیر بےجان، مردہ لاش تصور کئےجاتےہیں، اسی طرح تمام نیک اعمال وعبادات بھی اخلاص نیت اورباطنی طہارت کے بغیربے قدروقیمت تصور کی جاتی ہیں۔

 تصوف بندہ کے دل میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتاہے، وہیں تحمل، برداشت، حسن اخلاق، رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو راغب کرتا ہے۔

تصوف کے کئی نام ہیں : (1)علم القلب (2)علم الاخلاق (3) احسان وسلوک (4) تزکیہ و طریقت وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے زیادہ تر ”احسان“ کا لفظ استعمال ہوا ہے؛لیکن ان تمام ناموں کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے نفس کو”اخلاق حمیدہ“ سے مزین کرنا اور” اخلاقِ رذیلہ“سے پاک و صاف کرنا۔

تصوف کیا ہے :

تصوف کا اصل مادہ صوف ہے، جس کا معنی ہے اون۔ اور تصوف کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا، جیسے تقمص کامعنی ہے قمیص پہننا۔ (کشف المحجوب)

لیکن صوفیاء کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں : اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں ا وررذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔(تاریخ تصوف)

صوفیا، ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے باطن کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں تک اسی کی دعوت پہونچاتے ہیں۔ اب لفظ صوفیا، اپنے لغوی معنی ( اون کا لباس پہننے والے )میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندرون کی صفائی کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے ؛لیکن چوں کہ ابتدا میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا، اس وجہ سے ان پر یہ نام پڑ گیا، اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا۔(الرسالۃ القشیریہ)

ضرورتِ تزکیہ :

 بہت سے افعال و اعمال جس طرح ہمارے ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہوتے ہیں  اسی طرح ہمارے باطن (قلب ) سے بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ ظاہرہ“ جب کہ باطنی اعضاءو جوارح ( قلب) سے صادر ہونے والے افعال کو ”اعمالِ باطنہ “ کہا جاتا ہے۔ نیز جس طرح ہمارے ظاہری افعال و اعمال شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض،  واجب،  مباح، مستحب اور بعض ناپسندیدہ،  مکروہ اور حرام قسم کے ہیں اسی طرح ہمارے باطنی افعال و اعمال بھی شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض، واجب اور مستحب ہیں ( جیسے تقویٰ و طہارت،  خشیت و للہیت،  صبر و شکر،  عاجزی و انکساری،  سخاوت و فیاضی وغیرہ) اور بعض ناپسندیدہ،  مکروہ اور حرام قسم کےہیں (جیسے تکبر و غرور،  ریاءو دکھلاوا، حسد،  کینہ، بغض،  بخل،  بزدلی اور لالچ وغیرہ  )

لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے یا برے افعال کے صدور کا تمام تر تعلق قلبی احوال اور نفس کی اندرونی کیفیتوں کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اگر غور سے دیکھاجائے تو صاف طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہی قلبی احوال اور اندرونی کیفیتیں در حقیقت ہمارے تمام ظاہری افعال و اعمال کی بنیاد اور ان کی اساس ہیں۔ ظاہری اعضاءو جوارح سے ہم اچھا یا برا جو بھی کام کرتے ہیں ؛وہ در حقیقت انہیں قلبی احوال اور اندرونی کیفیتوں کا نتیجہ ہوتاہے۔چنانچہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت وغیرہ قلب کی اندرونی کیفیتیں ہیں ؛لیکن ان کا اثر ہمارے تمام ظاہری اعمال پر براہِ راست پڑتا ہے۔ بلاشبہ ہماری ہر ایک عبادت:نماز،  روزہ،  حج،  زکوۃ وغیرہ کا مصدر و منبع یہی باطنی کیفیتیں اور قلبی احوال ہیں۔ اسی طرح اگر ہم شیطانی اور نفسانی خواہشات اور تقاضوں کے باوجود بدنظری،  لڑائی جھگڑے اور جھوٹ وغیرہ جیسے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں تو اس کا اصل محرک بھی یہی باطنی اور قلبی تقویٰ و طہارت اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہی کا کرشمہ ہے۔

الغرض ہمارے تمام تر ظاہری افعال و اعمال کا حسن و قبح اور عند اللہ ان کا مقبول یا مردود ہونا ہمارے ”اعمالِ باطنیہ“ پر ہی موقوف ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے،  رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : ”تمام اعمال( کے ثواب) کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ “

( مشکوٰۃ) یعنی اگر کوئی عمل کرتے وقت نیت اچھی ہوئی تو اس عمل پر ثواب ملے گا اور اگر نیت خراب ہوئی تو اس عمل پر گناہ ہوگا۔

اورتقریباً یہی حال تمام باطنی فضائل و رذائل کا بھی ہے کہ ہمارے ظاہری افعال و اعمال کے حسن و قبح،  ردّ و قبول اور اجر و ثواب بلکہ بہت سے اعمال کا وجود بھی انہیں کا رہین منت ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی نشان دہی رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد میں فرمائی ہے کہ : ”خبردار! بدن میں گوشت کا ایک ایساٹکڑا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے،  ہوشیار رہو کہ وہ ”دل“ ہے۔“(بخاری)

بلاشبہ دل کی پاکی،  روح کی صفائی اور نفس کی طہارت ہر  مذہب کی جان اور تمام انبیاءکا شیوہ رہا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں نبی پاک کی بعثت کے جو چار بنیادی مقاصد بیان کیے گئے ہیں ان میں دوسرا مقصد یہی ہے کہ : ” آپ مسلمانوں ( کے اخلاق و اعمال ) کا تزکیہ فرماتےہیں۔ “ قرآن مجید نے ہر ایک انسان کی کام یابی و ناکامی کا دار و مدار اسی ” تزکیۂ نفس“ کی کسوٹی پر رکھا ہے۔

 چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ”یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اور وہ شخص ناکام ہوا جس نے اسے (رذائل) میں دھنسا دیا۔“ ( الشمس)

ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ” تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی،  بلاشبہ جو لوگ یہ( گناہ) کر رہے ہیں عنقریب ان کو ان کے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔“ (الانعام)

معلوم ہواکہ گناہوں کا صدورصرف ظاہری اعضاءہی سے نہیں ہوتا بلکہ باطن (قلب) سے بھی ہوتا ہے ؛ اس لیے دونوں سے بچنا ضروری ہے۔

تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی؟:عہد صحابہ میں تصوف کی روح اور حقیقت، یعنی زہد وتقویٰ انابت الی اللہ، عاجزی وانکساری وغیرہ روحانی اور باطنی صفات تو پائے جاتے تھے، لیکن اس لفظ کا استعمال عہد صحابہ تک نہیں تھا، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے ابو الحسن بوشنجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ تصوف موجودہ زمانے میں صرف ایک نام ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور گذشتہ زمانے میں ایک حقیقت تھی جس کا کوئی (مخصوص) نام نہ تھا، یعنی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے وقت میں لفظ صوفی تو بے شک نہیں تھا ؛لیکن اس کی حقیقی صفات ان میں سے ہر ایک میں موجود تھیں اور آج کل یہ نام تو موجود ہے ؛لیکن اس کے معنی موجود نہیں،  اُس زمانے میں معاملات تصوف سے آگاہی کے باوجود لوگ اس کے مدعی نہ ہوتے تھے؛لیکن اب دعوی ہے، مگر معاملات تصوف سے آگاہی مفقود ہے۔(گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب 74)

شیخ ہجویری کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تصوف کی حقیقت موجود تھی، لوگوں میں زہد وتقوی، خشوع وخضوع،  فکر آخرت اور خوف خدا جیسی صفات تھیں اور ان صفات کے متصف حضرات عابد اور زاہد کہلاتے تھے، لیکن تصوف کا لفظ اس وقت رائج نہیں ہوا تھا، مولانا جامی نے نفحات الانس میں لکھا ہے کہ پہلا شخص، جو صوفی کہلایا، ابو ہاشم تھا، جن کا انتقال 150ھ میں ہوا اور انہی کے رفقاء کے لیے فلسطین کے مقام رملہ میں ایک پہاڑی پر صوفیہ کی پہلی خانقاہ تعمیر ہوئی جو ایک  آتش پرست امیر کی فیاضی کانتیجہ تھی۔ (نفحات الانس 31)

کیا تصوف ایک باطل مذہب ہے ؟؟:

بعض لوگ تصوف کواسلام کے مقابل اورمخالف ایک الگ مذهب تصور کرتے هیں تصوف کو کفر شرک وبدعت سمجھتے هیں اور بڑے زورشور سے تمام ذرائع نشر واشاعت استعمال کرکے لوگوں کویه باورکراتے هیں که صوفیه اورتصوف کا سلسله ایک شرکیه، کفریه، بدعیه اور خرافات پر مبنی سلسله هے اورصوفیه کرام دین اسلام کے دشمن اور باطل عقائد رکھنے والےہیں ؛جب کہ تصوف وسلوک ایک حقیت ہے ؛جس سےکوئی بھی منصف مزاج اور سلیم الفطرت شحص انکار نہیں کر سکتا۔علم سلوک کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلم ہے کہ امت میں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اسکو اختیار کیا، اور اس دور سے پہلے امت میں کوئی ایسا گروہ پیدا نہیں ہوا، جو مطلق تصوف کا انکاری ہو، مگر اس قحط الرجال کے دور میں ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو نہ صرف احسان وسلوک کے منکر ہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔

تصوف و سلوک یا تزکیہ و احسان کے حوالے سے مفکر اسلام علی میاں ندوی ؔؒ تحریر فرماتےہیں :

دنیا میں بہت سی چیزیں بعض خاص اسباب کی بناء پر بغیر علمی تنقید وتحقیق کے تسلیم کر لی جاتی ہیں اور ان کو ایسی شہرت ومقبولیت حاصل ہو جاتی ہے کہ اگرچہ ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی؛مگر خواص بھی ان کو زبان وقلم سے بے تکلف دہرانے لگتے ہیں۔

انہیں مشہور اور بے اصل چیزوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ”تصوف، تعطل وبے عملی، حالات سے شکست خوردگی اور میدان جدوجہد سے فرار” کا نام ہے؛ لیکن عقلی ونفسیاتی طور پر بھی اور عملی اور تاریخی حیثیت سے بھی ہمیں اس دعوے کے خلاف مسلسل طریقہ پر داخلی وخارجی شہادتیں ملتی ہیں۔

” سیرت سید احمد شہید ؒ“میں تزکیہ واصلاح باطن کے عنوان کے ماتحت خاکسار راقم نے حسب ذیل الفاظ لکھے تھے، جس میں آج بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور اس حقیقت پر پہلے سے زیادہ یقین پیدا ہو گیا ہے۔

”یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سر فروشی، وجاں بازی،  جہاد وقربانی اورتجدید وانقلاب وفتح وتسخیر کے لیے جس روحانی وقلبی قوت، جس وجاہت وشخصیت، جس اخلاق وللٰہیت،  جس جذب وکشش اور جس حوصلہ وہمت کی ضرورت ہے،  وہ بسااوقات روحانی ترقی،  صفائی باطن،  تہذیب نفس، ریاضت وعبادت کے بغیر نہیں پیدا ہوتی، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ جنہوں نے اسلام میں مجددانہ کارنامے انجام دیے ہیں،  ان میں سے اکثر افراد روحانی حیثیت سے بلند مقام رکھتے تھے، ان آخری صدیوں پر نظر ڈالیے، امیر عبدالقادر الجزائری، (مجاہد جزائر)، محمد احمد السوڈانی( مہدی سوڈانی)، سید احمد شریف السنوسی ( امام سنوسی) کو آپ اس میدان کا مرد پائیں گے، حضرت سید احمد ایک مجاہد قائد کے علاوہ اس سے پہلے ایک عزیز القدرروحانی پیشوا اور بے مثل شیخ الطریقت تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ مجاہدات وریاضات،  تزکیہ نفس اور قرب الہیٰ سے عشق الہٰی اور جذب وشوق کا جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے،  اس میں ہر رونگٹے سے یہی آواز آتی ہے   ؎

ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پر

مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں

اس لیے روحانی ترقی او رکمال باطنی کا آخری لازمی نتیجہ شوق شہادت ہے او رمجاہدے کی تکمیل جہا دہے۔ “ ( سیرت سید احمد شہیدؒ)

پیری مریدی کیوں ضروری ہے :م

ولانا عبدالماجد دریابادی ؒکےنام پیری مریدی کے حوالےسے ایک ارادت مند کا بہت طویل مراسلہ آیا ہے؛جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

”مدت سے ایک ضمیری الجھن میں مبتلا ہوں اورکوئی روحانی طبیب مجھے ملتا نہیں۔ بحیثیت مسلمان، پیری مریدی سے متعلق آپ کے حقیقت آگیں خیالات سے مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔ خوش نصیبی یا بدنصیبی سے میرے خاندان میں دونوں شغل ہوتے ہیں۔ مجھے کسی الله والے سے نسبت ارادت حاصل نہیں،  بہت گناہ گار ہوں،  مگر قلب وضمیر کی حالت بحمدالله بہت کچھ قابل اطمینان ہے…“

مولانا دریابادی کا چشم کشا جواب :

مادی علوم میں آج کون سا علم اور دست کاری کے پیشوں میں آج کون سا پیشہ ایسا ہے،  جس میں استاد کی مدد لازمی نہیں ؟ پھر روحانیت کا علم،  جو ان تمام علوم سے زیادہ لطیف،  تزکیہ نفس کافن، جوان تمام فنون سے زیادہ دشوار، الله کی معرفت،  جوہر شے سے زیادہ نازک ہے،  ممکن ہے کہ اسی میں ” استاد“ کی ضرورت نہ پڑے ؟ اس سفر میں تو قدم قدم پر راہ نماناگزیر ہے۔ اسی راہ نما یا ایسے استاد کااصطلاحی نام پیر ومرشد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علماء کے ہوتے ہوئے،  پیروں کی ضرورت کیا ہے ؟ لیکن یہ ” مولیوں “ اور”پیروں “ کی موجودہ تفریق بھی تو ہماری آپ کی قائم کی ہوئی ہے، اسلام اس کا ذمہ دار کب ہے ؟ اسلام تو ”صادقین“ ”متقین“ ”مومنین“”صالحین“” محسنین“ کی جو جماعت پیدا کرنا چاہتا ہے،  اس میں اس تفریق کا گزرہی نہیں۔ وہ ہستیاں تو علم وعمل،  قول وفعل، فقہ وفقر، دونوں کی جامع ہوتی تھیں۔ یہ تفریق تو سینکڑوں دوسری تفریقوں کی طرح، دور انحطاط او رامت کی بدبختی وبداقبالی نے پیدا کر رکھی ہے اور وہی اس کی ذمے دار ہے۔

مریدی کا اصلی راز، پیر کی صحبت ہے۔ چناں چہ لفظ”صحابی“ بھی ”صحبت“ ہی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے او رپیر کے مفہوم کی جانب بھی اشارہ ہو چکا ہے،  یعنی وہ شخص جس کے نفس کا تزکیہ اس حدتک ہو چکا ہے کہ وہ اپنی رفاقت سے دوسرے کے نفس کا بھی تزکیہ کر دے،  وہ کامل جو دوسروں کو بھی کامل بنا سکے،  مصلح جس کی ہم نشینی دوسروں کی فطری صلاحیتوں کو ابھار دے۔ پس مرید ہونے کے معنی،  اس سے زائد کچھ نہیں کہ جس کے پاک وصالح ہونے پر بھروسا ہو،  جس کے تزکیہ نفس پر اعتماد ہو،  یا بہ اصطلاح صوفیہ اس سے قلب کو ارادت ہو،  اس کی خدمت میں اطاعت ونیاز مندی کے ساتھ حضوری کی جائے اور یہ مریدی، کلام مجید کے حکم ﴿وکونوا مع الصادقین﴾ کی عین تعمیل ہے … آیت کے الفاظ یہ ہیں ﴿یا ایھا الذین آمنوا، اتقوا الله وکونوا مع الصادقین) محض ایمان کافی نہیں، ایمان والوں سے ہی تو خطاب ہے۔ ایمان تو پہلے ہی قائم ہو چکا ہے۔ اب اس کے بعد حکم ہوتا ہے کہ الله سے تقوی اختیار کرو، صدق دل سے نمازیں پڑھو، روزے رکھو، ادائے حقوق کرو،  وغیرہ۔ لیکن یہ سارے اعمال بھی کافی نہیں،  بلکہ دوسرا حکم یہ ملتا ہے کہ صادقوں کی معیت اختیار کرو، راست بازوں کی صحبت میں رہو،  پاکوں کی پیروی کرتے رہو اور یہ مریدی ہے۔

اخیر میں حضرت مولانا اعجاز اعظمی  نوراللہ مرقدہ کی تحریر سے یہ چشم کشا اقتباس  بھی ملاحظہ فرمائیں !

"تصوف ہمارا بہت قیمتی سرمایہ ہے، لازوال دولت ہے، اس راہ سے بندہ اپنے رب سے واصل ہوتاہے، تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، وہ شریعت کے آدمی میں رچ بس جانے کا ایک بے بدل ذریعہ ہے۔

اس کے بنیادی ارکان پانچ ہیں : صحبت شیخ، علم شریعت، ذکر کی کثرت، فکر کا التزام اور امراض نفسانی کا علاج۔ (منکرین تصوف) بتلائیں کہ ان میں سے کون سی چیز قابل اعتراض اور کون سی بات شریعت سے باہر ہے ؟ "(حدیث درد دل)

3 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    تمدن,تصوف,شریعت,کلام
    بتانِ عجم کےپجاری تمام

  2. عبدالرشید کہتے ہیں

    یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے
    جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
    دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
    سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
    دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
    عجب چیز ہے لذت آشنائی

  3. آصف علی کہتے ہیں

    تصوف، دہریت کی طرح ہی مشاہدہ حق کا طالب ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ دہریت حسی مشاہدہ چاہتی ہے اور اور تصوف باطنی مشاہدہ۔ دونوں خدا کی آزمائش کی اسکیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ خدا کی سکیم ایمان بالغیب کا طلب ہے، جس کا تسلیم کرنا عقل کی راہ سے طے کیا گیا ہے، اس میں حتمیت سرے سے ہے ہی نہیں، مگر تصوف، دہریت کی طرح حتمیت جانے بنا ماننے کو تیار نہیں۔ دہریت تو اس مشاہدہ حق سے مایوس ہے، لیکن تصوف اپنے دام خیال میں اس حتمیت کو پا لینے کی مدعی ہے۔ اس کی حتمیت کی حقیقت سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حقیقت کے بارے میں یہ آج بھی مختلف الآرا ہے۔ مثلا اہل تشیع کو اماموں اور اہل تسنن کو اپنے صوفیا سے الہامات وصول ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نہیں ہوتا۔ صوفیا آج تک طے نہ کر سکے کہ وحدت الوجود حقیقت ہے یا وحدت الشہود۔ حق و باطل کی پہچان کی جس عقلی آزمائش میں انسان ڈالے گئےہیں تصوف اس عقلی آزمائش سے بچ کر حتمی سچائی جاننے کے طریقے کے طور پر اپنایا گیا تھا۔ مگر دیکھا جا سکتا ہے کہ حق و باطل کی پہچان اس راہ سے بھی حتمی طور پر حاصل نہ ہو سکی۔ خدا کی اس عقلی آزمائش کو ختم کرنا ممکن نہیں۔اسے امکانات کے دائرے سے نکالنا ممکن نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔