حسنین اشرف راجپوت
کل ایک دوست نے Whatsapp پر 2 وڈیوز بھیجیں، ایک وڈیو میں ہندوستان میں منعقدہ ’’متحدہ ہندوستان کانفرنس‘‘ کے اندر ایک ہندو سکالر سوامی لکشمی شنکر اچاریہ نے اسلام، قرآن، انسانیت اور متحدہ ہندوستان کا وہ نقشہ کھینچا کہ دل خوش ہو گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے، انسانیت کا مذہب ہے اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام ہمیشہ انسانیت، مساوات، انصاف اور رواداری کا درس دیتا ہے۔
دوسری ویڈیو میں آر، ایس، ایس (RSS) کی ایک خاتون رکن نے آر، ایس، ایس کی ایک تقریب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ زہر اُگلا کہ الامان و الحفیظ، جو سراسر اس کی لاعلمی اور جہالیت کی گواہی دیتا ہے، (یہ ویڈیو آجکل شوشل میڈیا پر بہت وائرل ہے) اسی طرح کی سوچ کی وجہ سے بدقسمتی سے آج تک متحدہ ہندوستان، سیکولر ہندوستان، اور مہاتما گاندھی کے ’’ہندو-مسلم اتحاد‘‘ کا خواب آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
میرے اس کالم کا موضوع قطعاً آر، ایس، ایس کی اس خاتون کے الزامات کا جواب دینا نہیں، (آئندہ کسی کالم میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کروں گا) جو بھی اس ویڈیو کو دیکھے وہ خود تحقیق کر کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دیانتداری سے اپنی رائے قائم کر سکتا ہے۔
ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جو صدیوں سے مختلف ثقافتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہندوستان میں ایک ہزار (1000) سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر بہت سی اقلیتیں صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہی ہیں، یہی ہندوستان کی خوبصورتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہونے کے علاوہ دنیا کے چند بڑے جمہوری ملکوں میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ حال ہی میں اس نے فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ پوزیشن حاصل کی ہے۔ زندگی کے کئی شعبوں، جیسے میڈیکل اور انفاریشن ٹیکنالوجی میں بھارت اس وقت دنیا کے بہترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اور دنیا کی ایک بہت بڑی افرادی قوت ہونے کی وجہ سے دنیا کی ایک بہت بڑی معاشی منڈی بھی ہے۔
ہندوستان پر مختلف ادوار میں مختلف قبائل اور اقوام کا غلبہ رہا، ہندوستان پر آخری دو ادوار میں مغلوں نے ایک ہزار سال اور برطانیہ نے تقریباً دو سو (200) سال تک بھارت پر حکمرانی کی، اس تمام عرصے میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، جین، اور دیگر اقلییتیں ایک ہی معاشرے میں ساتھ ساتھ رہیں اس طرح کئی نئی ثقافتوں نے جنم لیا۔
اگرچہ انگریزوں سے آزادی میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتوں نے ملکر جدوجہد کی لیکن انگریز کی ریشہ دوانیوں اور تقسیم سے پہلے سیاسی رہنماؤں کی ناعاقبت اندیشی، ذاتی انا اور شاید تاریخی غلطیوں کی وجہ سے ہندوستانیوں میں نفرت کے بیج بو دیئے گئے، جس کے اثرات تقسیم ہندوستان کے وقت لاکھوں لوگوں کی اموات اور کروڑوں لوگوں کے بےگھر ہو جانے اور عظیم انسانی المیے کی صورت میں ظاہر ہوئے، جس کے نتیجے میں ہندوستان کئی ٹکروں میں تقسیم ہو گیا اور مسلمانوں، ہندؤوں اور سکھوں کے درمیان، خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک مسلسل اور نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہو گیا، جو بدقسمتی سے 70 سال سے لیکر آج تک جاری ہے۔
ہم اس وقت 21 ویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ حقائق کو مسخ کر نا اور سچ کو چھپانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ لہٰذا ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کی سب زیادہ آبادی ہندوستان میں ہے (پاکستان سے بھی ذیادہ)، ہندوستان کی مسلمان آبادی نے ہندوستان کی ترقی میں ہمیشہ بہت بڑا کردار ادا کیا ہے جس کو جھٹلانا ناممکن ہے۔
دوسری بڑی حقیقت پاکستان اور بنگلہ دیش کا وجود ہے، آج ہندوستان کے اندر اکھنڈ بھارت کی ایک سوچ پائی جاتی ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا کہ ہندوستانیوں نے تقسیم ہندوستان اور آزادی ہندوستان کی جو قیمت ادا کی ہے اکھنڈ بھارت کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں اس سے بھی بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ تقسیم ہندوستان کو قبول کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ کشمیر، بھارتی پنجاب اور بھارت کی دیگر کئی ریاستوں میں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، اگر ان آوازوں پر توجہ نہ دی گئی اور لوگوں کے بنیادی حقوق، مساوات، انصاف اور ترقی پر تو جہ نہ دی گئی تو شاید متحدہ ہندوستان کا خواب کبھی بھی پورا نہ ہو سکے۔
آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہندو، مسلم، اسلام، ہندوتہ اور ہندو پاکستان جیسے سیاسی نعروں کا سیاسی کھیل کھیلنے کی بجائے، ہندوستانی قومیت، ہندو-مسلم اتحاد، امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔
ہندوستان اور پاکستان گزشتہ ستر سال سے اپنے بجٹ کا ایک کثیر حصہ دفاعی بجٹ پر لگا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی بجائے دونوں ممالک کو ملکر افہام وتفہیم سے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے دیرینہ مسائل کا حل نکالنا چاہئے، دونوں ممالک اپنا جو بجٹ دفاع اور اسلحہ کی دوڑ پر لگا رہے ہیں اگر یہی پیسہ دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود پر لگایا جائے تو دونوں ممالک کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ دونوں ممالک میں عوام کی معاشی حالت ابتر ہے، دہشت گردی اور باہمی نفرت کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا یا اسکا کوئی اختتام بھی ہے؟
آئیں ہم اپنے ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر کے نفرتوں کو ختم کریں ایک نئے، پُرامن اور محبت کے دور کا آغاز کریں اسی میں پاکستان اور ہندوستان کے عوام کی بھلائی اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے، یہی انسانیت کا پیغام ہے۔
اپنے آج کے کالم کا اختتام شاعر مشرق کے اس شعر پر کر رہا ہوں۔
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
۔۔۔۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔