محرم الحرام کے خرافات سے بچ کر اللہ کے احکام کے پابند بنیں
محفوظ الرحمن انصاری
ممبئی کے کچھ علماء نے محرم کی تقاریر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ اور بھیونڈی کے کچھ علماء نے عاشورہ کے دن ہونے والی خرافات اور عرس کے نام پر ہونے والے شور شرابے اور غیر شرعی رسومات کے خلاف مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔جو بہت ہی اچھا قدم ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علماء اور معاشرے کے ذمہ دار کسی بھی برائی کے خلاف اس وقت مہم شروع کرتے ہیں جب وہ برائی پوری طرح سے مسلم معاشرے کو جکڑ لیتی ہے ۔
اس کی سب سے بڑی مثال ڈی جے کی ہے جلسے جلوس اور عرس میں نوجوان عقیدت کے نام پر ڈی جے بجا بجا کر بیماروں اور سبھی لوگوں کی نیند حرام کئے رہے۔شروع میں جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی انہیں مسلک کا طعنہ مار مار کر اس شور شرابے اور فضول خرچی کو بڑھاوا دیا گیا۔اور اب جو اصلاح کی کوشش ہو رہی ہے تو نوجوان باز آنے کو تیار نہیں ۔جتنا نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ۔
یہی حال محرم کی تقاریر و مجالس کا ہے ۔کچھ جگہوں پر تو ساٹھ ستر سال سالوں سے تقاریر ہو رہی ہیں ۔مگر گندگی،راستوں پرغیر قانونی قبضہ،گالی گلوچ اور ذرا سا دھکا لگنے پر ہاتھا پائی آج بھی اسی محلے میں جاری ہے ۔کیا ان تقاریر و مجالس کا اہتمام کرنے والوں نے غور کیا کہ لوگوں میں حسینی کردار کیوں نہیں پیدا ہو رہا ہے ۔رمضان المبارک میں مسجدیں بھرتی ہیں مگر محرم میں چار سو جگہ سے زائد ذکر حسین رات بھر سننے کے بعد بھی مسجد یں فجر میں خالی کیوں رہتی ہیں ؟
اس کا سبب یہ ہے کہ یہ سب صرف رسم کے طور پر ہی ہو رہا ہے ۔اسلام میں عشاء کی نماز کے بعد جلد سونے اور صبح اٹھ کر فجر پڑھنے کو کہا گیا اور اللہ کے رسول ﷺ سے عشاء کے بعد وعظ و نصیحت کی کوئی روایت نہیں ملے گی ۔ممبئی میں شاید مولانائوں کی شدید قلت ہے اس لئے باہر سے خطیب آتے ہیں اور صرف مسلک بازی پر جوشیلی تقریریں کرکے مسلمانوں کو مزید انتشار میں ڈال کر اپنا پیسہ لے کر چلے جاتے ہیں۔
محرم کی تقاریر کا اہتمام کرنے والی کمیٹی کے لوگوں اور مقررین کو سوچنا چاہئے کہ ان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو آخرت میں جواب دہی بھی سخت ہو گی ۔اب اگر اصلاح کرنی ہے تو محرم کے مقررین کو چاہئے کہ مقصد شہادت اور فلسفہ شہادت سے آج کے مسلمانوں کو کیا سبق لینا چاہئے اس پر بات کریں ۔تقریر کے اختتام پر مسلک فلاں زندہ آباد کے نعرے لگوانے کی جگہ روزانہ عہد کروائیں کہ سارا مجمع صبح اٹھ کر فجر کی نماز، اور پورا دن تمام نمازیں ضرور پڑھے گا ۔خاص طور پر عورتوں کو بھی تاکید کریں کہ نماز ان پر بھی فرض ہے ،خود پڑھیں اور بچوں کو بھی اہتمام کرائیں ۔رات کو گھنٹوں تقریر سن کر فجر کی اور دن کی نمازیں چھوڑ دینا گناہ کبیرہ اور عذاب کا سبب ہے ۔اور سبھی لوگوں کو صبر کی تلقین بھی کی جائے کہ ایک حسینی کا بات بات پر آپے سے باہر ہونا ،گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا تو بہت ہی برا ہے ۔صبر حسین رضی اللہ عنہ سے کچھ تو سبق حاصل کریں۔
ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ محرم کی تقاریر کا اہتمام اگر مسجدوں میں کیا جائے تو اسٹیج ٹیبل کرسیوں لائوڈ اسپیکر پر ہونے والا ہزاروں اور لاکھوں کا خرچ نہ صرف بچ جائے گا بلکہ اس رقم کو غریب مسلم طلباء کی تعلیم اور غریب بیمار مسلمانوں کے علاج پر خرچ کریں ۔اور عاشورہ کے دن ہونے والی خرافات و رسومات سے روکنے کے لئے علماء و مقررین کو چاہئے کہ تمام مسلمانوں کو ہدایت کریں کہ وہ اپنے نبی ﷺ کا حکم مانیں ۔اللہ کے رسول ﷺ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اپنی امت کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔لہٰذا اگر لوگ نو اور دس محرم کو اطاعت رسول ﷺ میں روزہ رکھیں گے تو انشاء اللہ دیگر خرافات و رسم و رواج سے خودبخود بچ جائیں گے ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔