خزانہ

شیما نظیر

اس دن عبد اللہ اپنے دوست  سائیلو کے گھر گیا
سائیلو کی بیوی چائے لائی عبداللہ نے کہا
بھابی:  نمستے
نمستے بھیا
کیسے ہیں؟ اور عارفہ کیسی ہے؟
ٹھیک ہے بھابی …
آپ تو جانتی ہیں سلمٰی کے بعد میرا کل اثاثہ بس میری بیٹی عارفہ ہی ہے…
میری بیماری کی وجہ سے میں اب بہت فکر مند ہوں میرے بچنے کی امید بہت کم ہے بھابی
ایسا مت کہئے بھیا ہم لوگ ہیں نا
بیچ سے بات کاٹ کر……
نہیں بھابی آج مجھے بولنے دیجئے آپ جانتی ہیں کہ میرا اس دنیا میں کوئی رشتہ دار بھی نہی ہے
میں جانتا ہوں کہ آپکے بھی کوئی بیٹی نہیں صرف دو بیٹے ہیں
آپ میری بیٹی کو اپنی بیٹی بنالیجئے
جس دن.میں مروں بس آپ عارفہ کو اپنے ساتھ لالینا
وچن دو بھابی ….سائیلو بول یار ورنہ میں چین سے مر بھی نہ سکونگا
سائیلو نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں موند کر سر کو اثبات میں ہلایا
ادھر اسکی بیوی نے کہا
بھیا ہم عارفہ کو اپنی بیٹی کی طرح پالیں گے اچھے گھر میں اسکی شادی بھی کرینگے
رمیش ‘ جگو اسے اپنی بہن کی طرح ہی رکھیں گے
آپ فکر نہ کریں………
پھر کچھ دن بعد ایک دن اچانک رات میں عبداللہ کا انتقال ہوگیا
تو سائیلو اور رکمنی نے عارفہ کو اپنے گھر لے آئے
وہ لوگ بھی غریب ہی تھے عبداللہ کی طرح
دونوں پیشہ سے دھوبی تھے گھاٹ پر ملاقات ہوئی ملاقات دوستی میں تبدیل ہوئی اور پھر اب یہ حالات
بہر حال سائیلو کسی ریڈی کی بہت بڑی زمین کی رکھوالی بھی کرتا تھا اسی احاطے میں اسے دو کمرے بناکر دیئے گئے تھے رہنے کیلئے
زندگی کی گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی
عارفہ گھر کے کام کاج سنبھال چکی تھی دونوں بھائی رمیش اور جگو بھی اسے اپنی بہن کی طرح ہی پیار کرتے تھے
…………ایک صبح سائیلو نیند سے جاگا تو بہت گھبرایا گھبرایا سا تھا رکمنی نے پوچھا تو اسنے اسے رازداری میں کچھ بتایا جسے سنکروہ بھی فکر مند ہوگئی
شام میں دونوں بیٹوں کے آنے پر انھوں نے انھیں بھی بتایا سب فکر مند ہوگئے
لیکن یقین کسی کو نہی آیا انھوں نے سائیلو کو اس بات کو خواب سمجھ کر بھول جانے کو کہا ……لیکن کچھ دن بعد دوبارہ سائیلو کی وہی کیفیت ہوئی
پھر سب پریشان تھے
ماں باپ اور دو بیٹے ہی جانتے تھے اس بات کو جس سے وہ عارفہ کو بےخبر رکھنا چاہ رہے تھے
اس بار بھی ان سب کو یقین نہی آیا
لیکن پھر کچھ دن بعد  ایک رات سائیلو کے کمرے سے چیخنے کی آوازیں آئیں تو گھر کے سب افراد وہاں جمع ہوگئے
اب سب نے دیکھا کہ ایک بڑا سا ناگ سانپ سائیلو کے سینے سے اتر کر کمرے کے کسی کونے میں چلاگیا
اب سائیلو نے کہا
……دیکھا …..دیکھا…تم سب نے میں جھوٹ نہی بول رہا ہوں
یہ ….یہ….یہ وہی  خزانہ والا سانپ ہے جو آم کے پیڑ کے نیچے دفن ہے یہ کہہ رہا ھیکہ ایک انسانی جان اسے دوں تو وہ سارا خزانہ مجھے دیدیگا
ورنہ ہم میں سے کسی کو وہ ماردیگا

سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے
پھر عارفہ نے کہا بابا آپ مجھے دیدو اور خزانہ لیلو
سائیلو اور رمیش تو مان گئے
لیکن رکمنی اور جگو نہی مانے
عارفہ اصرار کرتی رہی باپ کے بھی بار بار اصرار پر ……….
آخرکار جگو نے اپنی بلی دینے کا فیصلہ کرلیا اور پھر حتمی انداز میں کہہ دیا کہ آپ اس سے پوچھ لیجئے کس دن میں تیار رہونگا
اور پھر وہ دن آگیا انھوں نے جگدیش عرف جگو کی بلی دیکر واقعی میں خزانہ کی دیگ حاصل کرلی
عارفہ کی کہیں متمول گھرانے میں شافی کردی گئی
رمیش اپنے ماں باپ سمیت صنعت نگر کے کسی علاقہ میں بڑا گھر خرید کر شفٹ ہوگیا
ادھر کسی کو نہی معلوم آگے کیا ہوا وہ لوگ بستی سے چلے گئے لیکن ایک بیٹا کھوکر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ ایک سچا واقعہ ہے اسے کوئی مبالغہ آرائی یا من گھڑت نہ سمجھے
جگو میرے بڑے بھائی کا ہم عمر اور انکا ساتھی تھا ہمارے پڑوس میں سرور نگر ایل بی نگر سے قریب ہمارے گھر کے پڑوس میں عہ رہتے تھے
اس واقعہ کے بعد جگو کا اچانک غائب ہوجا ناکسی کو سمجھ نہی آیا لیکن بیس سال بعد ایک مرتبہ آفس سے آتے ہوئے بھائی کی بس میں رمیش سے ملاقات ہوئی
وہیں رمیش نے یہ واقعہ بھائی کو سنایا
انھوں نے مجھے سنایا
اور رمیش نے کہا کہ وہ پیسا جیسا آیا تھا ویسا ہی خرچ ہوگیا ماں تو جگو کی یاد میں تھوڑے دنوں میں ہی مرگئی سائیلو بھی کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہوکر چل بسا میں نے باقی کا پیسا جوئے میں اڑا دیا اب کسی پرائیویٹ فرم میں ملازم ہوں

تبصرے بند ہیں۔