مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا شبلی نعمانی

تحریر: شہاب الدین دسنوی… ترتیب: عبدالعزیز

مولانا ابوالکلام آزاد کے نام مولانا شبلی نعمانی کے خطوط میں کچھ لوگ ’’راز و نیاز‘‘ کے مضامین اور ’’عالم السرائر‘‘ میں ایسی باتیں تلاش کرتے ہیں جو خود ان کی بیمار ذہنیت کا پتہ دیتی ہے۔ انھیں فرائڈ کی طرح ماں کی چھاتی سوچتے ہوئے بچے میں جنسیت کا پہلو نظر آتا ہے اور اسی کو وہ نفسیاتی تجزیہ کا نام دیتے ہیں۔ ابوالکلام آزاد بلا کے ذہین اور طباع تھے۔ ان کی قبل از وقت ذہنی بلوغیت نے ان کی فطرت کو روایتی دینی اور سیاسی ماحول سے سرکشی پر اکسایا، جس کا اعتراف انھوں نے خود کیا ہے۔ معصیت کا کوئی ایسا پہلو نہ تھا، جس سے انھوں نے اپنے دامن کو آلودہ نہ کیا ہو۔ دوسری طرف ’’الہلال‘‘ کے مضامین اور ان کی معرکۃ الآراء تقریریں پڑھنے کے بعد اس وقت ان سے بڑا کوئی دوسرا عالم نظر نہیں آتا ہے۔ قرآن، حدیث، تاریخ، فلسفہ اور ادب سب پر یکساں قدرت! آزاد کی زندگی کا دوسرا نام تضاد تھا۔ کیا ایسا شخص بے حجابانہ اس رشتے سے منسلک ہوسکتا تھا، جس کا کھلے اور چھپے لفظوں میں وحید قریشی، شیخ محمد اکرام اشارہ کرتے ہیں؟
شیخ محمد اکرام، شبلی کی حیات کو رنگین دکھانے کی کوشش میں کتنی معصومیت سے فرماتے ہیں۔ مراد عطیہ بیگم سے ہے (90):
’’حقیقت یہ ہے کہ ان مراسم کی تہہ میں فقط ایک شاعر کے مشتعل جذبات نہ تھے بلکہ دوسرے عوامل کے علاوہ شبلی کے ان خیالات کو بھی دخل تھا جو وہ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے متعلق رکھتے تھے۔ عطیہ سے شبلی کا لگاؤ کا کامل تجزیہ تو ایک عالم نفسیات کا کام ہے لیکن شبلی کے خطوط سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ عطیہ کی قابلیت اور قوتِ تقریر و تحریر سے بیحد متاثر تھے اور ان کی مسلسل کوشش تھی کہ یہ ذہین، لائق اور اولوالعزم لڑکی(؟) اپنی قابلیت اور قوت تحریر و تقریر سے ان کے خوابوں کو حقیقت بنا دے جو عورتوں کی مناسب تعلیم اور مناسب آزادی کے متعلق ان کے دل میں تھے۔ شبلی اس جذبہ کو گناہ نہیں سمجھتے تھے… ان کے دل میں کوئی چور نہ تھا‘‘۔
وہ یہ بھی لکھتے ہیں(91): ’’شبلی نے عطیہ کی نسبت اپنی رائے کو گناہ نہیں سمجھا اور فی الحقیقت ایسا سمجھنے کی کوئی وجہ بھی نہ تھی اور نہ ہی اس پر پردہ ڈالنے کی بڑی کوشش کی۔ عطیہ کے جو خطوط آتے تھے انھیں چھپانے کی وہ بہت کوشش نہ کرتے تھے‘‘۔
ان دونوں اقتباسات میں خط کشیدہ الفاظ غور کرنے کے قابل ہیں۔ شبلی عطیہ سے لگاؤ کو گناہ بھی سمجھتے تھے لیکن اس لگاؤ کا تجزیہ ایک ماہر نفسیات کرسکتا ہے! اپنے تعلقات پر پردہ ڈالنے کی ’’بڑی‘‘ کوشش نہیں کی، گویا ’’کم‘‘ کوشش ضرور کی۔ اسی طرح عطیہ کے خطوط کو انھوں نے چھپانے کی ’’بہت‘‘ کوشش نہیں کی جبکہ خود انھوں نے عطیہ کو لکھا تھا ’’اب تمہارے خطوط ایسے ہوتے ہیں کہ احباب کو مزے لے کر سناتا ہوں‘‘۔
اور تو اور اپنی بیٹی کو بھی خطوط پڑھنے کیلئے دیتے ہیں اور اس کی اطلاع عطیہ کو دیتے ہیں۔ پروفیسر عبدالقادر سرفراز کو بھی لکھتے ہیں کہ انھیں موقع ملنے پر عطیہ کے خطوط دکھائیں گے۔ پھر شبلی کی کون سی رائے کو گناہ یا ثواب سمجھنے کا معاملہ اٹھتا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی بات شیخ صاحب کرتے ہیں؟ شاید انھوں نے شبلی جیسے عالم دین کیلئے ادبی شوخیاں ناروا سمجھیں مگر شبلی ’’نرے خشک مولوی نہ تھے‘‘۔ ان کے قلم سے ایسی غزلیں بھی نکلیں جن کے بارے میں خود انھیں اعتراف تھا کہ وہ زیادہ شوخ تھیں۔ ایم مہدی حسن کو لکھتے ہیں (92):
’’بعض غزلیں زیادہ شوخ ہوگئیں جو شاید ایک پنجاہ سالہ مصنف کے چہرے پر نہ کھلیں لیکن حافظ تو کہتے ہیں ع ہر گہ کہ یاد روئے تو کردم جواں شدم
اور ایک پرانا تجربہ کار کا کہنا ہے ع عشق در ہنگام پیری چوں بہ سر ما آتش است
’’کیا یہ فلسفہ صحیح ہے؟ ابھی نہیں 15 برس کے بعد جواب دیجئے گا‘‘ ۔
شبلی کی فطرت میں خوش طبعی، لطافت اور مزاحی حس کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کا اظہار خوب صورت الفاظ اور فقروں میں اس وقت زیادہ ہوتا تھا جب بے تکلف ہوجاتے۔ ایک خط میں مہدی حسن کو لکھا (93):
’’کچھ دنوں آپ اور جوان رہئے‘۔ سبحان اللہ! تو گویا اب جوان ہوں اور اگر اب ہوں تو قسم لیجئے جو مرتے دم تک بوڑھا ہوں ع
آں قدر عشق بورزم کہ جواں گردم باز‘‘
ایم۔ مہدی حسن بھی شبلی کی طرح خوش مذاق تھے اس لئے شبلی ان سے ذرا زیادہ بے تکلفی برتتے تھے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: ایک خط میں انھیں اس طرح داد دیتے ہیں (94):
’’کاش شعر العجم کے مصنف کو ایسے دو فقرے لکھنے بھی نصیب ہوتے، ’’دائرہ ادبیہ‘‘ کا لکھنے والا شبلی کا معتقد ہو! یقین کرنے کی بات نہیں‘‘۔
25نومبر 1912ء کو عطیہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ اس کے صرف دو ہفتے بعد اپنے دوست مہدی حسن کو شبلی اطلاع دیتے ہیں (95):
’’قرآن مجید میں ہے کہ یہودی ذلیل و خوار بنا دیئے گئے، لیکن کیا 5 دسمبر 1912ء کے بعد بھی جس دن … ایک یہودی کو ہاتھ آئی، مشہور کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا، اس لئے تو نہیں کہ ع میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا؟
خیر ع سبحہ را زنّار کر دست و کند‘‘
پھر اسی خط کے آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں: ’’حرم سے گو اب تک نامحرم ہوں لیکن ایمان بالغیب کا سلام کہئے‘‘۔
یہ خط اس حالت میں لکھا گیا جبکہ شبلی ضعف بصر سے مجبور ہوتے جارہے تھے۔ ایک آنکھ میں پانی اتر آیا، دوسری بھی ضعیف ہوگئی۔ اب تمنا یہ رہ گئی تھی کہ ’’سیرت پر خاتمہ ہوجائے تو یہ حسن خاتمہ‘‘ ہو مگر ان سب کے باوجود شوخیِ طبع اپنی جگہ قائم رہی۔
بمبئی میں اپنے لیکچر کے بارے میں لکھا (96):
’’لطف یہ کہ سامعین سب بنئے اور تاجر جو ہماری اردو سمجھ نہیں سکتے ہیں، ان میں ہماری پیری کیا چل سکتی ہے‘‘۔
ایک غزل کے ساتھ مہدی حسن کو لکھتے ہیں (97):
’’کل ایک غزل قلم سے نکلی، میر اکبر حسین کو بھیجی۔ وہ بہت ریجھے، ان کا خط بھیجتا ہوں لیکن اس پر یقین نہ کرلیجئے گا، ورنہ غزل پھیکی نظر آئے گی‘‘۔
شبلی نے کسی کے حسن و جمال کی تعریف لکھ بھیجی تھی۔ مہدی حسن کو اس کی نقلی تصویر مل گئی جو انھوں نے شبلی کو بھیج دی۔ اس پر شبلی اپنی جھلاہٹ، کتنے خوبصورت طریقے سے اتارتے ہیں (98):
’’استغفراللہ! وہ تو کسی بیجا یا لولو کی تصویر ہے۔ آپ کے حسن ظن کی داد دیتا ہوں۔ اس مذاق کا آدمی شعر العجم لکھ چکا!‘‘
ادبی شوخی کے ایسے نمونے شبلی کے دوسروں کے نام خطوں میں بھی ملتے ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ان کے گزند پا کے واقعے کے بعد لکھنؤ میں دارالعلوم کی بالائی منزل میں قیام کرنے کی تجویز پیش کی تو انھوں نے لکھا (99):
’’میں لکھنؤ میں اگر کوٹھے پر چڑھوں تو حضرت ادریسؑ کی طرح پھر کبھی اترنا نصیب نہ ہوگا۔
مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کی فرمائش پر اپنی غزل بھیجی جس کا مصرع تھا ع ساقی مست چو سوئے من مدہوش می آید
اس کے بعد آخر میں لکھا (100): ’’افسوس یہ ہے کہ نہ صرف پارسائی میں بلکہ رندی میں بھی عالم بے عمل رہے‘‘۔
مولانا شیروانی کو بمبئی سے ایک شوخ فقرہ لکھا (101): ’’اپالو کی اب ضرورت نہیں؛ جس ہوٹل میں آگیا ہوں خود کوہ قاف ہے‘‘۔
شبلی پر ایک مضمون مہدی حسن نے رسالہ ’’مشرق‘‘ میں شائع کرایا۔ اس کے متعلق شبلی کا حسن بیان ملاحظہ ہو (102):
’’میری نسبت جو کچھ ’’مشرق‘‘ میں نکلا، نظر سے گزرا لیکن وہی شکایت تو آپ سے بھی ہے۔ دونوں میری تصویر غلط کھینچتے ہیں۔ ایک فرشتہ بناتا ہے، ایک دیو؛ لیکن ابھی تو میں انسان ہوں‘‘۔
مولوی محمد سمیع کو ایک خط میں لکھا (103): ’’اگر تم کشمیر تک چلو تو ضرور آؤ… میری ہمرہی و ہمدردی کے ساتھ کشمیر کا دیکھنا کچھ کم نعمت نہیں۔ یہاں نہ دیکھا تو قیامت میں اگر چہ جنت میں اس کا نمونہ دیکھنے میں آئے گا مگر اصل و نقل میں پھر فرق ہے‘‘۔
ایک دوسرے خط میں انھیں لکھا (104): ’’مجھ کو نارنگیاں بہت پسند ہیں … میں آدمی تو ہوں مگر انا الناس پسند نہیں کرتا‘‘۔
لطف بیان کا ایک اور ٹکڑا دیکھئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو لکھتے ہیں (105):
’’کیا آپ حیدر آباد چلتے ہیں ، میں افریقہ ہوکر کعبہ کو جاسکتا ہوں۔ ترکستان واپسی میں آجائے گا۔ جزیرہ تو ہر گز جانے کا ارادہ نہیں۔ البتہ چمنستان بمبئی کو چھوڑنا فردوس کو چھوڑنا ہے جو ایک زاہد سے ممکن نہیں‘‘۔
ہم نے شبلی کی طبیعت کا یہ پہلو ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے تاکہ ناظرین ہمارے اقتباسات سے اندازہ لگا سکیں کہ شبلی کی افتاد طبع اس دور کے ’’خشک مولوی‘‘ اور ثقہ قسم کے علماء کرام سے کس قدر مختلف تھی۔ خوش طبعی شبلی کے مزاج کا جز بن گئی تھی۔ انھیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ بعض فقرے ان کے خطوں میں ایسے بھی آگئے جو ایک عالم دین کیلئے شاید زیبا نہ تھے۔ یہی چیز عطیہ بیگم کے نام کے خطوط میں ملتی ہے لیکن ان کے منتقدین غلط قسم کی عینک آنکھوں پرچڑھا کر دیکھتے ہیں، اس لئے جن نتیجوں پر وہ پہنچتے ہیں وہ حقیقت نہیں صرف قیاس و گمان تک پہنچتے ہیں۔ اپنی تخیل پردازی سے جو تاویلیں کرتے ہیں ان سے کبھی تو ان کی بدمذاقی اور کبھی بدنیتی ٹپکتی ہے جس کی ایک مثال ملاحظہ ہو؛ شبلی اپنے بے تکلف دوست مہدی حسن کو لکھتے ہیں (106):
’’سرا تو آتا ہے لیکن آپ یا بھاوج صاحب ہر دفعہ دامن بچا جاتے ہیں۔ ہم جیسے نفوس قدسیہ سے بھی پردہ! اور وہ بھی ساٹھ برس کے بعد!‘‘
اس کی تاویل ڈاکٹر وحید قریشی اس طرح کرتے ہیں (107):
’’مہدی حسن سے انھو ں نے لاکھ کہا کہ وہ انھیں گھر بلائیں اور اپنی نئی بیوی سے متعارف کرائیں لیکن وہ کچھ بدک گئے تھے، اس لئے کہ عطیہ والے معاملے میں راز دار وہی تھے۔ مہدی حسن صاحب ایسے ’’نفوس قدسیہ‘‘ کے ساٹھ سال کی عمر میں‘‘ بیوی کو پردہ کرانے پر مصر رہے، عطیہ بھی بیزار رہیں‘‘۔
نجی خطوط کی بنیاد پر کاتب و مکتوب کی شخصیت، ان کے خیالات و جذبات، کردار و افکار کے بارے میں رائے قائم کرنے میں یقینا بڑی مدد ملتی ہے لیکن یہ رائے اسی صورت میں معتبر ہوسکتی ہے جبکہ دونوں جانب کے سارے خطوط سامنے ہوں، اگر یہ شرط پوری نہیں اترتی ہے تو جو نتیجہ اخذ کیا جائے گا یا رائے قائم کی جائے گی وہ ناقص بھی ہوگی اور غیر منصفانہ بھی۔ سوانح نگاری میں ان کی اہمیت زیادہ سے زیادہ امدادی مواد کی ہوسکتی ہے۔ کسی خط کے ایک ٹکڑے کو لے کر (جو ممکن ہے بے تکلفی یا اضطراری حالت میں تحریر کیا گیا ہو) اپنا مطلب برآری کرلینا نہ صرف تحقیق کا منہ چڑھانا ہوگا بلکہ اسے بددیانتی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ وحید قریشی کی گمراہ کن تاویلوں کے بارے میں بہ قول ابن فرید (108):
’’شکوک و شبہات زیادہ خطرناک شکل نہ اختیار کرتے اگر جدید تنقید کے بعض اصولوں کو کور ذوقی کے ساتھ منطبق کرنے کی کوشش نہ کی جاتی اور شبلی کی زندگی کے تاریک گوشوں کو نمایاں کرکے پیش کرنا اور نفسیات کے بعض اصولوں کا بے اصولی کے ساتھ استحصال کرنے کی سعی نہ جاتی‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔