محمد ابواللیث تمنا صدیقی
دوستو!مولاناابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے جومسلمانوں کو مشورہ دیا تھالوگ اس کے آدھے حصے کو پیش کرتے ہیں اورآدھے حصے کو چھوڑ دیتے ہیں ہمارے دوست لوگ بھی عجیب ہیں جنہیں سیاست میں ناکامی کے بعد فوراًمولانا کی یادآجاتی ہے مگر مولانا نے جومشورہ دیاتھا اس وقت کے حالات اوراب کے حالات میں زمین وآسمان کا فرق ہوچکا ہے پہلی بات تویہ کہ مولانا نے بلاشبہ مسلمانوں کو سیاسی جماعت قائم کرنے سے منع کیاتھا اوراس وقت کی مضبوط ترین سیاسی پارٹی کانگریس کے ساتھ مل کرکام کرنے کو کہا تھا اسی بنیاد پر مسلمان کانگریس سے مارکھاتے رہے جان ومال کا نقصان اٹھاتے رہے یہاں تک کہ ہندستان میں مسلمان شودر سے بھی بدتر ہوگئے !
جب مولانا نے مسلمانوں کو کوئی اپنی پارٹی نہ بنانے اورکانگریس کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا مشورہ دے رہے تھے کیا اس وقت مولانا کے ذہن میں یہ بات بھی رہی ہوگی کہ یہ کانگریس مسلمانوں کو قسطوں میں کٹواتی رہے گی اورآرایس ایس کو زندہ کھے گی اورتقویت پہونچاکر مسلمانوں کوڈراتی رہے گی اوربلاشرکت غیرے مسلمانوں کا ووٹ بٹورتی رہے گی اورٹھاٹ سے حکومت کرتی رہے گی یقیناًمولانا کے ذہن میں یہ بات نہیں رہی ہوگی ورنہ مولانا اتنے ناعاقبت اندیش نہ تھے کہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے کہ جوپارٹی تم کو کٹواتی رہے کسی حال میں اس کا ساتھ نہ چھوڑنا!
کیا مولانا کویہ بھی پتہ تھا کہ کانگریس کے مدمقابل بھاجپا سپا بسپا راجد جدیو اورنہ جانے کتنی پارٹیاں اور مودی لالونتیش ممتا مایا ملائم اورکیجری کے جیسے سیکڑوں نیتا پیدا ہوجائیں گے اورکانگریس کی چولیں ہلاڈالیں گے اورکانگریس ان پارٹیوں سے چندسیٹیں بھیک مانگنے پر مجبورہوجائے گی!
طرفہ تماشا یہ کہ کفارومشرکین کی اولاد کو توmim اوراویسی سے تکلیف اورخطرہ ہے ہی یہ ہمارے نام نہاد مسلم جماعت کے ٹھیکیداروں کو بھی حسد اورتکلیف ہورہی ہے کہ کہیں ہماری دکان پر اویسی کے بے باکانہ طرز عمل کا اثر نہ پڑجائے !
مسلمان مولانا ابوالکلام آزاد کے مشورہ کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو پھر انڈین مسلم لیگ کشمیرمیں محبوبہ اورعمرفاروق کی نیشنل کانفرنس وپی ڈی پی جمیعت العلماکی سیاسی بازو یوڈی ایف جماعت اسلامی کی سیاسی بازو ویلفیرپارٹی کی کیا ضرورت تھی ؟وہ جوکہتے ہیں کہ گڑکھاتے ہیں اورگلگلا سے پرہیز !یہی حال ہے مسلمانوں کا !
آزادی کے بعد سے جوسیاسی حالات پڑھتاآیاہوں اورگزشتہ تیس سالوں سے جودیکھتاآیاہوں اس کی بنیاد پر مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مسلمانوں کی سیاسی پارٹی ہومگرملکی سطح پرایک ہی ہو کیا یہ اپنی اپنی ڈفلی اوراپنا اپنا راگ الاپنے والے لوگ ایک ہی ڈفلی اورایک ہی راگ الاپنے کہ لئے تیار ہیں ؟
اب آئیے دوسرے شق کی طرف مولانا علیہ الرحمہ نے یہ بھی کہاتھا کہ مسلمان اپنی سیاسی پارٹی قائم کرنے کہ بہ جائے مضبوط ملی تنظیم قائم کرے اے میرے بھائیواوردوستو!کیا ہمارے ارباب حل وعقد مسلمانوں کو ایک بھی مضبوط ملی تنظیم دے سکے جیسا کہ ہندوارباب فکر نے ہندو ہندی ہندستان کے لئے مضبوط تنظیم آرایس ایس ہندو قوم کو دے دیا؟
سیاسی اعتبارسے مسلمانوں میں چارطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں پہلا وہ جونام نہاد سیکولر پارٹی کا چوردروازے سے مال کھائے بیٹھے ہیں وہ اپنی وفاداری کبھی نہیں بدلیں گے گرچہ ان کا جان مال اور ان کی عزت وآبرو ہی کیوں نہ لْٹ جائے !
دوسرے وہ لوگ جو پڑھے لکھے تو ہیں لیکن سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے جوسیاسی میدان میں آتے توہیں بڑے جوش وخروش اورطمطراق سے مگر مخالف کے ایک ہی وارمیں اپنے کمانڈر کو میدان کارزارمیں تنہا چھوڑ کو بھاگ پڑتے ہیں !
تیسرے وہ جوغیرجانب دار ہوکر بیباک وبے لاگ اور دوراندیشانہ فکر پیش کرتے ہیں اورعمل کی راہ بنانے میں رات ودن مصروف ہیں ۔
چوتھے وہ عوام الناس جوتذبذب کے شکار رہتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ ہمارے علماء ودانش وران ولیڈران کیا کہتے ہیں یہ عوام کا سب سے بڑا طبقہ اپنے بڑوں کے چکر میں اپنا ووٹ منتشر کربیٹھتے ہیں ۔
مذکورہ تمام تر کوتاہیوں اور کم زوریوں اور کم فہمیوں سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ ورسول کا خوف کرتے ہوئے ملی مفاد کے لئے ذات برادری،مسلک ومشرب اورجماعتی تعصب سے بالاترہوکر دیرپا اورمضبوط اتحاد فکروعمل اپنے اندر پیدا کریں ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔