دیش میں مودی اور اتر پردیش میں یوگی!

عبدالعزیز

  نریندر مودی ، امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ نے جو ماحول اتر پردیش میں پیدا کیا اور جس کی وجہ سے فرقہ پرستی کو بڑھاوا ملا اور فرقہ پرستی کی جیت ہوئی اسی کے نتیجہ میں انتہا پسند اور ہندوتو کے چہرہ کے طور پر یوگی ادتیہ ناتھ جیسی متنازعہ شخصیت کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا جارہا ہے تاکہ 2019ء تک یوپی میں فرقہ پرستانہ ماحول اور پولرائزیشن قائم و دائم رہے۔ یوگی نام کے تو یوگی ہیں مگر دماغی لحاظ سے روگی (مریض) ہیں ۔ وہ اتر کھنڈ کے ایک علاقہ میں 1972ء میں پیدا ہوئے۔ گھر بار چھوڑ کر گورکھپور آگئے اور اپنے گرو مہنت اوید ناتھ ایم پی کے چھتر چھایہ میں رہنے لگے۔ گرو نے 1994ء میں اعلان کیا کہ یوگی ان کے جانشین ہوں گے۔

اس وقت یوگی کی عمر 22سال تھی۔ گرو نے اپنی لوک سبھا کی سیٹ خالی کرکے یوگی کو لوک سبھا کا امیدوار بنایا اور وہ کامیاب ہوگئے۔ متواتر پانچ بار لوک سبھا کے الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ ان کے گرو رام مندر کی ابتدائی تحریک میں شامل تھے۔ ان کی بھی ذہنیت مودی کی ذہنیت سے بہت ملتی جلتی ہے۔ جس طرح نریندر مودی نے اپنے گرو ایڈوانی جی کو انتہا پسندی میں پیچھے چھوڑ دیا اسی طرح یہ بھی فرقہ پرستی اور انتہا پسندی میں اپنے گرو سے بہت آگے ہوگئے۔ مہنت وزیر اعلیٰ تو نہیں بن سکے مگر یہ وزیر اعلیٰ بھی بن گئے۔ جس طرح ایڈوانی جی وزیر اعظم بننے کی کوشش کے باوجود نہ بن سکے مگر ان کے شاگرد نریندر مودی وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ یوگی اتر پردیش کو گجرات بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وہ شعلہ بیانی اور زہر افشانی کیلئے مشہور ہیں ۔ گورکھپور میں ان کے چیلوں کا نعرہ ہے ’’گورکھپور میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہے‘‘۔ اب یہ نعرہ بدل کر کچھ اس طرح ہوگیا ہے کہ ’’دیش میں مودی، اتر پردیش میں یوگی‘‘۔

 یوگی کے بیانات مودی سے بھی کہیں زیادہ اشتعال انگیز ہوتے ہیں ۔ نریندر مودی آر ایس ایس اور بی جے پی کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یوگی جی آر ایس ایس اور بی جے پی سے بھی دو قدم آگے رہتے ہیں ۔ غالباً یہی ادا آر ایس ایس کو پسند آگئی۔ مودی اور امیت شاہ نے بھی یوگی کی اس ادا کو بیحد پسند کیا۔ بی جے پی کے ایک ایم پی نے کہا ہے کہ امیت شاہ الیکشن سے پہلے ہی یوگی کو اوپر لانے کی فکر میں تھے۔  ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بی جے پی کو ان کی ضرورت ہے۔ اس لئے وہ اپنی انتہا پسندانہ روش میں بی جے پی سے بھی بے نیاز رہتے ہیں ۔

یوگی جی اپنے علاقہ میں مشہور ضرور ہیں مگر ان کی تصویر اتر پردیش میں اچھی نہیں سمجھی جاتی ہے۔ وہ گورکھپور کے ایک فساد میں اشتعال انگیزی اور حکم امتناعی کو توڑنے کی وجہ سے 14دنوں تک جیل میں بھی رہ چکے ہیں ان پر قاتلانہ حملہ (Attempt to Murder) کا ایک کیس بھی ہے۔ سیاست میں ایک داغ دار شخصیت کانام یوگی ہے۔ سارا ملک جانتا ہے کہ ان کے بیانات کبھی معتدل اور متوازن نہیں ہوتے۔ وہ خبروں میں رہنے کیلئے یا اپنی ہندوتو تصویر کو اجاگر کرنے کیلئے ہمیشہ شعلہ بیانی سے کام لیتے ہیں ۔ فروری 2015ء کا ان کا بیان ہے کہ ’’گوری اور گنیش کی مورتی دنیا کی کسی مسجد میں رکھی جاسکتی ہے جب بھی کوئی ہندو وشوا ناتھ مندر میں حاضری دیتا ہے تو گنپتی میں مسجد اسے چڑھاتی ہے۔ اگر بھگوان نے مجھے موقع دیا تو میں دیوی، گوری اور گنیش کو ملک کی ہر مسجد میں نصب کردوں گا‘‘۔ ( دی ٹیلیگراف، فروری 2015ء)۔

2014ء کے ایک ویڈیو کی تقریر کا یہ حصہ ہے کہ ’’جو مسلمان اپنے آپ کو ہندو بنانا چاہتے ہیں ان کو ہم پاک کرنے کیلئے ہی نہیں بلکہ ان کیلئے ہندوؤں میں ایک نئی ذات (Cast) بھی بنانے کیلئے تیار ہیں ‘‘۔ انھوں نے شاہ رخ خان کو ان کے ایک بیان پر پاکستان کا حافظ سعید کہا تھا۔ اتر پردیش کیلئے ان کا ایک بیان جو 14 اگست 2014ء میں دیا تھا کافی اشتعال انگیز بیان تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے پانچ سالہ دور میں 450 فسادات ہوئے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ مشرقی اتر پردیش میں فسادات کیوں نہیں ہوئے؟ جس سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں اقلیت کی آبادی 10 سے 20 فیصد ہے، جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 تا 35 فیصد ہے وہاں سنگین قسم کے فسادات ہوتے ہیں اور جہاں مسلمانوں کی آبادی 35 فیصد ہے وہاں ہندوؤں کے رہنے کیلئے کوئی گجائش نہیں ہے‘‘۔

یوگی جی کے اس طرح کے بیانات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان سب کے باوجود نریندر مودی اور امیت شاہ نے یوگی ادتیہ ناتھ کو محض اس لئے وزیر اعلیٰ کیلئے چنا ہے کہ 2017ء اور 2014ء کے موقع پر جو پولرائزیشن اتر پردیش میں ہوا ہے وہ کسی طرح ختم نہ ہو۔ اسے 2019ء تک باقی رکھنا ہے۔ یہ کام ایک ہی شخص یوپی میں کرسکتا ہے جس کا نام یوگی ادتیہ ناتھ ہے۔ گزشتہ روز بی جے پی اور آر ایس ایس کے خیموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب بہت جلد اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہوسکتی ہے کیونکہ یوگی جی کی حکومت ہوگی اور یہ کام یا اس طرح کا ہر کام آسان ہوجائے گا جس سے مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا جاسکتا ہے۔  کیشب پرساد موریہ اور دنیش شرما کو نائب وزیر اعلیٰ کا حلف وفاداری دلایا جائے گا۔ کیشب پرساد پر مجرمانہ قسم کے دس مقدمات میں ملوث ہیں ۔ ان کی بھی تصویر داغ دار ہے۔

دنیش شرما کی تصویر داغ دار نہیں ہے۔ وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکے ہیں اور لکھنؤ شہر کے میئر ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بی جے پی میں ہونے کے باوجود مسلمانوں سے ان کے تعلقات اچھے ہیں ۔ موریہ نے گزشتہ روز بیان دیا ہے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کیونکہ بی جے پی سب کے ساتھ ہے اور سب کا وکاس کرنا چاہتی ہے۔ موریہ پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وشو ہندو پریشد سے بی جے پی میں آئے ہیں ۔ ان سے بھی کوئی اچھی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔

پروفیسر دنیش شرما سے اچھی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ کچھ بہتر معلوم ہوتے ہیں اور اعتدال سے کام لینے کے قائل ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان ان سے ربطہ و تعلق رکھیں اور اتر پردیش کے ماحول کو صاف ذہن ہندو بھائیوں سے مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کا ماحول پیدا کریں ۔

 بی جے پی نے مدھیہ پردیش میں سادھوی اوما بھارتی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا مگر وہ ناکام رہی۔ وہ بھی جوگن ہیں ۔ ادتیہ ناتھ جوگی ہیں ۔ ان کوبھی کامیابی شاید ہی ملے۔ اوما بھارتی کی طرح شعلہ بیانی ان کی بھی پہچان ہے۔ حکمرانی کا انھیں پہلے سے کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دونوں نائبین وزیر اعلیٰ ان کو سنبھالنے کا کام کریں گے۔ مودی اور امیت شاہ نے یوپی میں یوگی کا تجربہ کرنا چاہا ہے۔ امید ہے کہ ان دونون کا تجربہ ناکام ہوگا اور 2019ء تک حکومت مخالف ماحول (Incumbancy) پیدا ہوسکتا ہے جو اپوزیشن پارٹیوں کیلئے مدد گار ثابت ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیاں اس کا کتنا فائدہ اٹھا سکتی ہیں وقت ہی بتائے گا۔

 یوگی اور موریہ دونوں ایم پی ہیں ۔ ان کی جگہیں بہت جلد خالی ہوں گی۔ ان پر ضمنی انتخاب ہوگا۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں مل جل کر دونوں سیٹوں کیلئے لڑتی ہیں تو اپوزیشن کی جیت ہوسکتی ہے اور یہ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن کیلئے ایک اچھی شروعات ہوگی۔ اتر پردیش میں مایا وتی کو بھی دیر یا سویر کانگریس اور سپا کے اتحاد میں شامل ہونا پڑے گا جب ہی ان کی پارٹی کا احیا ممکن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔