اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فرازدہر!

حفیظ نعمانی
جس مضمون کا عنوان ہی یہ ہو کہ ’’خدارا اسے ضرور پڑھئے‘‘ تو اسے ہر اس آدمی کو پڑھنا چاہیے جو اردو پڑھ لیتا ہے۔ اور ہم جیسوں پر تو اس لیے اس کا پڑھنا فرض ہوجاتا ہے کہ ہم خودلکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے سب پڑھیں ۔ مضمون نگار ڈاکٹر غلام زرقانی صاحب شاید ہفتہ میں ایک مضمون ضرور لکھتے ہیں جو انقلاب میں چھپتا ہے۔ اور ہمیشہ بہت سنجیدہ مضمون ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اترپردیش کے الیکشن اور نتیجہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ہر مخلص کی طرح فرمایا ہے کہ اگر بہار کے طرز پر اترپردیش میں بھی تینوں پارٹیاں متحد ہوجاتیں تو بہار جیسے نتائج یوپی کے بھی ہوتے۔ ڈ اکٹر صاحب نے بڑی محنت سے ہر حلقہ کے ووٹ جمع کیے ہیں ۔اور لکھا ہے کہ اگر بہوجن اور سماج وادی مل کر لڑلیتے تو کیا ہوتا؟ ڈاکٹر صا حب نے جو عرق ریزی کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنے والے 2019ء کے پارلیمانی الیکشن میں ان تینوں پارٹیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر زرقانی صاحب جیسی محنت شاید نہ اکھلیش نے کی ہوگی اور نہ مایاوتی نے۔ ڈاکٹر صاحب کے مقابلہ میں بہت کم محنت ہم نے 2014کے الیکشن کے بعد کی تھی اور صرف ملائم سنگھ اور مایاوتی کے ووٹوں اور سیٹوں کا جائزہ لیا تھا تو ہم بھی اسی نتیجہ پر پہنچے تھے جس پر ڈاکٹر صاحب اب پہنچے ہیں ۔

بات مونچھ کی اس لیے نہیں کہی جائے گی کہ مایاوتی کی مونچھ کیا چوٹی بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ’’میں رہوں تم نہیں ‘‘ کانشی رام کی محنت سے لگایا ہوا باغ تو مایاوتی کو مل گیا لیکن وہ شعور اور وہ فکر نہیں ملی جس نے اترپردیش کے دلتوں کو ایک لڑی میں پرودیا ہے؟ مہاراشٹر اور پنجاب دونوں صوبے ایسے ہیں جہاں دلتوں کی تعداد اترپردیش سے زیادہ ہے لیکن وہاں نہ کانشی رام نے باغ لگائے نہ کسی کو مایاوتی بنایا۔ مایاوتی کے سامنے صرف ووٹ ا ور حکومت نہیں ہے بلکہ وہ 22 فیصدی دلت ہیں جن کے بارے میں وہ یہ سوچتی ہیں کہ اگر ایک بار بھی وہ کسی پارٹی کے ساتھ چلے گئے تو ان کی واپسی مشکل ہوجائے گی۔ اور دلت جتنے بھی اترپردیش میں ہیں وہ مایاوتی کا بینک ہیں ۔ ان کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ روپے لے کر ٹکٹ دیتی ہیں اس کا وہ انکار نہیں کرتیں بلکہ یہ کہتی ہیں کہ میں صرف ٹکٹ نہیں دیتی بلکہ 22 فیصدی دلت ووٹ بھی دیتی ہوں ۔ اس بار بھی اگر یہ مان لیا جائے کہ دلت سب کے سب مایاوتی کے ہیں تو مایاوتی نے جو سو مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے ان کے اپنے اور ان کے خاندان کے ووٹ کہاں گئے؟ اس لیے کہ مایاوتی کو 22 فیصدی سے کچھ زیادہ ووٹ ملے ہیں ؟

مایاوتی کے دلت ووٹ اب بی جے پی کے حصہ میں جارہے ہیں ۔2014میں ہی نہیں 2017میں بھی دلت ووٹ بی جے پی کو ملے۔ نریندر مودی خود نہ برہمن ہیں نہ ٹھاکر اس لیے انھوں نے اترپردیش کا صدر دلت موریہ کو بنایا اور جو دوسرا بڑا موریہ مایاوتی کو چھوڑ کر گیا اسے اور اس کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر ثابت کردیا کہ وہ اتنے دلت نواز ہیں کہ انھوں نے اگر وزیر اعلیٰ نہیں تو نائب وزیر اعلیٰ ایک دلت کو بنادیا۔

مایاوتی کے ایک بیان کی شہرت ہوئی تھی کہ انھوں نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑکر مشینوں کے ذریعہ ووٹ دینے پر پابندی لگائیں گی۔اس لیے کہ مشینوں سے ان کے ووٹ اپنی مشینوں میں منتقل کرائے گئے۔ اور انھوں نے قوم سے خرچ کے لیے پیسے مانگے تھے۔ ان کا ہر قدم پر پیسے مانگنا اور بی جے پی کا انہیں ٹکٹ اور پیسے دینا اب مایاوتی کو کنگال کردے گا۔ انھوں نے دلتوں سے لیا بہت ہے اور دیا کم ہے۔

ڈاکٹر زرقانی صاحب کو بھی اندازہ ہوگا کہ وہ جو کشمیری پنڈت نہرو خاندان کا زمانہ تھا اس میں چھوٹے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔انتہا یہ ہے کہ جب 1977میں جنتا پارٹی کا دور آیا تو بابو جگ جیون رام کو یقین تھا کہ اب کی بار ان کو وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ لیکن جے پرکاش نارائن اور آچاریہ کرپلانی نے بھی وہی کیا کہ مرارجی ڈیسائی کو وزیر اعظم بنادیا۔ اسی دن شام کو یونس سلیم صاحب بابوجی سے ملنے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ فرنیچر پر ٹھوکریں مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اس ملک میں ہم جیسوں کا نمبر کبھی نہیں آئے گا۔ سلیم صاحب نے یہ واقعہ خود مجھے سنایا تھا اور آج بھی سیوک سنگھ اس حق میں ہے کہ اونچی ذات کو ہی اوپر رکھو۔ یہ جو کچھ ہوا ہے یہ صرف مودی جی کی ضد ہے اور اس وقت تک کے لیے ہے جب تک پورے ملک سے سیکولرازم وہ صاف نہیں کرلیتے۔ یہ سیکولرازم کی بدنصیبی ہے کہ مایاوتی جیسی اس کا ایک ستون بنی ہوئی ہیں ۔ اور اس وقت تک ہیں جب تک گجرات میں پولیس کے ایک بہت بڑے افسر کے بال بھی ان کے گائوں کا نائی نہیں کاٹتا۔اس لیے نہیں کہ وہ انہیں چھوٹا سمجھتا ہے بلکہ اس لیے کہ پھر ان ہی اوزاروں سے وہ گائوں کے ٹھاکروں اور برہمنوں کے بال کیسے کاٹے گا؟

کسی کو اس خوش فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ اگر بہار میں لالو یادو پر چھ سال کی پابندی نہ ہوتی تب بھی نتیش اور وہ ایک تھالی میں کھالیتے۔ بات صرف وہ پابندی ہے جس نے لالو کے ہاتھ باندھ دئے ہیں اور جنگل راج کے راجہ کہے جانے والے ا تحاد اور اتفاق کی ایک نظیر بن گئے ہیں ۔ اب مسئلہ 2014کی صف بندی کا ہے۔ تمل ناڈو بدترین اختلاف اور سو کھے کی مار جھیل رہا ہے۔ ایک شاطر خاتون جیل میں ہے اور کرونا ندھی سے ان کا بھی مقابلہ ا یسا ہی ہے جیسا ملائم سنگھ اور مایاوتی کا۔ اور یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ صف بندی کو منتشر کرنے والے بھی زمین آسمان ایک کردیں گے اور شاید یہ آخری معرکہ ہوگا اس لیے اس نسخہ کو آزما لینا اچھا ہے جس کی طرف ڈاکٹر زرقانی نے اشارہ کیا ہے۔ اور میر جعفروں اور میرصا دقوں پر لعنت بھی ضرور بھیجنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔