نئی حکومت: امیدیں، اندیشے اور امکانات

احساس نایاب

2019 میں جمہوری ہندوستان میں دوبارہ نئی حکومت کی تشکیل کی گئی ہے یا یوں کہیں کہ پرانی دلہن کو نیا سنگھار کیا گیا ہے جس سے وہ اور اُن کے کارندوں کا حوصلہ اور بھی زیادہ قوی اور خطرناک نظر آرہا ہے, یعنی 2014 کی بھاجپا سرکار نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے بی جے پی کا شرادھ کر نئے ورجن نئے اوتار کے ساتھ مودی سرکار کو عروج بخشا ہے.

اپوزیشن کی مانیں تو 2019 عام انتخابات میں مودی کو دوبارہ اقتدار میں لایا گیا ہے چند وعدوں, جملوں, دعوؤں اور ارادوں کے ساتھ اپنے پرانے جملوں میں ایک آدھ نئے الفاظ کو جوڑ کر عوام کو ایک مرتبہ پھر سے مذہب کے نام پہ تقسیم کرنے کے خاطر تمام فرقہ پرست جماعتیں کمربستہ ہوچکی ہیں .

تبھی اس مرتبہ بی جے پی یعنی مودی سرکار نے پرگیہ سنگھ ٹھاکور جیسی سنگین  دہشتگردی کی ملزمہ کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے جس سے فرقہ پرست طاقتوں کی نیتوں کا صاف اظہار ہورہا ہے, وہ لاکھ اقلیتوں کے لئے ہمدردی جتانے کا ڈرامہ کریں لیکن اُن کی اور اُن کے کارندوں کی حرکتوں سے اُن کی منشا صاف جھلکتی ہے جس کا واضح ثبوت مغربی بنگال کے حالیہ واقعات ہیں,  سیکولر عوام کا کہنا ہے کہ دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد جہاں بھاجپائیوں کے حوصلے اور زیادہ بلند ہوچکے ہیں وہیں سنگھی ذہنیت کے سرکاری اہلکاروں کو بھی کھُلی چھوٹ مل چکی ہے جس سے وہ دوبارہ اقلیتوں پہ نشانہ سادھ رہے ہیں.

ایک طرف تو وزیراعظم اپنے بیان میں سب کا ساتھ, سب کا وکاس, سب کا وشواس جیسے جملے ادا کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کے ماننے والوں نے ملک بھر میں انتشار برپہ کرنا پھر سے شروع کردیا ہے اور دن بدن ظلم و جبر میں اضافہ کررہے ہیں دوسری میعاد کو ابھی مہینہ بھی نہیں گذرا ہے کہ نابالغ بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال اور قتل کے واقعات پیش آگئے, پورے ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کی فضا گرم کی جارہی ہے جگہ جگہ فساد کروانے کی جی توڑ کوشش کی جارہی ہے۔

اشتعال انگیز بیانات دے کر ماحول بگاڑا جارہا ہے اور اس طرح کی زہرافشانی کرنے والوں کی تائید میں بھگتوں کا ایک پورا گروہ تیار کھڑا ہے جو آئے دن اپنے آقاؤں کے اشاروں پہ جگہ جگہ نہتے نوجوانوں , عورتوں,بزرگوں یہاں تک کہ بچوں کی لنچینگ کرتے نظر آتے ہیں محض گائے اور وندے ماترم کے نام پہ سارے ملک میں آتنک کا راج ہے جس میں گذرتے وقت کے ساتھ اور بھی اضافہ ہورہا ہے رہی سہی کثر جو بچی تھی وہ ہماری مہان پولس پوری ایمانداری سے نبھارہی ہے جیسے  فرضی اینکاؤنٹرس, بےقصور گرفتاریاں , پولس کسٹڈی میں تھرڈ ڈگری ٹارچر کرنا اور یہ سب کچھ کم تھا کہ ابھی حال ہی میں چند پولس اہلکاروں نے ایک صحافی جرنلسٹ کی بڑی بےرحمی سے پٹائی کر کے اُس کے منہ پہ پیشاب کرنے کی کوشش کی,  صحافیوں و مصنفوں سے لکھنے کی آزادی چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے حال ہی میں اترپردیش کی پولس نے یوگی آدتیہ ناتھ کے اشاروں پہ صحافی پرشانت کنوجیا کو گرفتار کرلیا محض اس وجہ سے کہ انہونے سوشیل میڈیا پہ یوگی آدیتہ ناتھ کے خلاف ٹوئیٹ کیا تھا یہ اور بات ہے کہ سپریم کورٹ نے صحافی کو فورا رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اترپردیش کی پولس کو اس حرکت پہ پھٹکار لگائی اور کہا کہ ایک ٹوئیٹ کرنے کی وجہ سے کسی کی آزادی سلب نہیں کی جاسکتی لیکن اس طرح کے واقعات میں ہورہا اضافہ مستقبل کے لئے بیحد خوفناک ثابت ہوسکتا ہے ایسے میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی زبان سے  وشواس, وکاس اور سب کا ساتھ جیسے جملوں میں سچائی دم توڑتی نظر آتی ہے ویسے بھی پہلے کونسی سچائ تھی خیر ابھی تو اس طرح کے جملے بھدا سا مذاق لگتے ہیں کیونکہ آج اُن ہی کے منتری سنتریوں کی اتنی جرات ہوگئی ہے کہ وہ قانوں کو اپنی جاگیر ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی کی ایم پی چراغ پا نے پولس کانسٹیبل کو تھپڑ مارا وجہ بس اتنی سی تھی کہ اس کانسٹیبل نے حکم کی تعمیل پر دیری کردی تھی.

اور اس طرح کے حالات ہر ہندوستانی کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جس حکمران کا اپنے وزیروں پہ کنٹرول نہیں ہے جو اپنے ماتحتوں پہ لگام لگانے سے قاصر ہو ایسے حکمران کے ذریعے ملک کو نقصان ہی پہنچے گا اسلئے مودی مہان سے کسی بھی قسم کی امیدیں جوڑنا بیوقوفی ہے. ان تمام حالات کے مدنظر مسلمانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی جملے بازیوں پہ یقین نہ کریں نہ ہی مودی سرکار سے کسی قسم کی امیدیں جوڑیں بلکہ اپنے لئے کوئی رائے عامہ تیار کریں جس سے مستقبل میں آنے والے حالات کا سامنا کرسکیں ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں..

ویسے بھی بھاجپا کی منشا 2022 سے 2023 تک ہندوستان کو ہندوراشٹرا بنانا ہے جس کو انجام دینے کے لئے وہ سام , دام,  ڈنڈ, بھید جیسے تمام پینترے آزمائینگے اور دوسری بڑی اکثریت ہونے کی وجہ سے  مسلمان ان کے پہلے نشانے پر ہیں کیونکہ فی الحال ہم اُن کے اس گندے مقصد میں رکاوٹ ہیں جس کو پار کرنے کی خاطر بھاجپائی ہمیں اندرونی طور پہ کھوکھلا کرنے کی کوشش کرے گی ہمارے ہی اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھائگی چند منافق قسم کے مرد و خواتین کو ہمارے خلاف استعمال کرے گی جس کی شروعات 2014 سے ہی ہوچکی ہے عشرت جہاں جیسی خواتین اور نقوی جیسے منافقوں سے اب دوبارہ وہ شریعت میں جبراً مداخلت کر مسلم خواتین کو بہلانے میں لگی ہے کبھی شادیوں کے لئے 50 ہزار روپیہ دینے کی لالچ دلاکر تو کبھی طلاق ثلاثہ کہ معملے میں جھوٹی ہمدردی دکھاکر , کبھی بنا محرم کے حج پہ جانے کی آزادی دلواکر تو کبھی حقوق نسواں کے نام پہ وہ بارہا مسلم خواتین کو بہکانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے جس کو وقت رہتے ناکام کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ ہندوتوا کا کارڈ کھیلتے ہوئے  مودی سرکار دلت اور دیگر اقلیتوں کے اندر  بھی مسلمانوں کے لئے نفرت کا زہر گھولنے میں کامیاب ہوجائے اور مسلمان و دلت کے بیچ اختلاف پیدا کردے,  ہمیں مستقل آنے والے ان تمام  اندیشوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ نئے اوتار میں پرانی حکومت نے ہی پھر سے کروٹ بدلی ہے ……

ویسے بھی 2014 میں مودی کی جیت کے ساتھ ہوا میٹرو کا سانحہ اور 2019 میں ہوا آتش زدگی کا حادثہ جس میں درجن سے زائد جانیں گئی ہیں ساتھ ہی ہندوستان بھر میں اٹھا آہاکار عقل رکھنے والوں کے لئے قدرت کی اور سے اشارہ ہے کہ اب مسلمانوں کو سنبھل جانا چاہئیے اوروں پہ آنکھ موندھ کر یقین کرنے کے بجائے ہمیں خود کو اس قابل بنانا ہے کہ دوسرے ہم سے امیدیں جوڑیں اور موجودہ حالات کے مدنظر وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم پہلے سے کئی گنا زیادہ چاق و چوبند ہوجائیں,  ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور آنے والے دنوں میں خود کو مظبوط کرنے کی جدوجہد کریں بنا کسی شوروغل مچائے, ماتم منانے کے بجائے حکمت عملی کو اختیار کر اندرونی طور پہ خود کو ہر لحاظ ہر میدان میں مظبوط کرنا ہوگا تاکہ اپنے وجود کھوئے ہوئے وقار اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بچا سکیں اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے اپنے ذاتی اختلافات کو پشت بالا ڈال کر متحد ہونا ہوگا پھر ایک دوسرے کے بازو بن کر ایک دوسرے کی طاقت بڑھاتے ہوئے قوم کو مظبوط منانا ہوگا اور یہاں پہ ہمارا مقصد اپنی ذات سے آگے صرف اور صرف قوم کی فلاح وبہودی ہونا چاہئیے کیونکہ کسی بھی انسان کا وجود اُس کی قوم سے ہے اور جدوجہد بھکے انفرادی طور پہ ہو یا اجتماعی طور پہ جس بھی حال میں ہو مقصد قوم کی فلاح ہو  , جس کے لئے ہمیں اپنی معیشت کو بہتر بنانا ہوگا اپنی نوجوان نسلوں کو جو قوم کا کُل سرمایہ ہیں انہیں بہتر تعلیم و تربیت فراہم کرنی ہوگی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اُن کی راہیں ہموار کرنی ہوں گی تاکہ وہ علم کے ہتھیار سے ہر میدان ہر شعبے میں اپنا لوہا منواسکیں چاہے وہ وکالت, صحافت ہو یا پولس, آئ اے ایس , آئی پی ایس , کلیکٹر جیسے عہدے ہوں یا  سیاست کا میدان ہو ہر شعبہ میں ہمیں اپنے نوجوانوں کو پہنچانا ہوگا اور اپنے مستقبل کے لئے اپنی ایک مظبوط سیاسی جماعت کی تشکیل کرنی ہوگی اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم اپنے اختلافات کو بھول کر ایک جٹ ہوکر ایک پلاٹ فارم میں جمع ہوجائیں اور فی الوقت جتنی بھی چھوٹی بڑی جماعتیں ہیں انہیں ایک جٹ کر اُن میں سے اُس جماعت کو مظبوط کریں جو پہلے ہی سے مظبوط ہے آج وقت انگلیوں کی شکل میں بٹ کر کمزور ہونے کا نہیں ہے بلکہ انہیں انگلیوں کو مٹھی کی شکل میں مظبوط و طاقتور بنا کر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا ہے, بھلے ہماری سوچ الگ ہو ہمارے کام کرنے کے طریقے الگ ہوں لیکن ہمارا مقصد ایک ہونا چاہئیے , جیسے دو,  چار فرد سے شروع ہوئی آر ایس ایس آج پورے ہندوستان پہ غلبہ حاصل کرچکی ہے .اور اس کی سب سے بڑی وجہ اُن کا اتحاد ہے اور ہماری سب سے بڑی کمزوری ہمارے آپسی اختلافات ہیں ایک جسم ہوکر ہم تنکوں میں بکھرے ہوئے ہیں اصل مقصد سے ہٹ کر بیکار بےبنیادی مدعوں میں بھٹکے ہوئے ہیں جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلینگے اپنے اندر بدلاؤ نہیں لائینگے اُس وقت تک ہم مظلوم  بن کر ظلم و جبر سہتے رہینگے .

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔