کیا اب بدلے گی کانگریس؟ 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کانگریس اس وقت عام انتخابات میں ملی کراری ہار سے کافی بے چین ہے۔ وہ نہیں سمجھ پا رہی کہ حکومت کے فرنٹ پر ناکام رہنے والی بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی کیسے ملی۔ اس بار نہ تو ملک میں 2014 جیسی مودی لہر تھی اور نہ ہی کانگریس کے خلاف ماحول۔ پھر اپوزیشن خاص طور پر کانگریس تنکے کی طرح کیسے اڑ گئی۔ جبکہ کانگریس صدر نے تابڑ توڑ ریلیاں کرکے بھیڑ جٹائی، بے روزگاری، کسانوں کی قرض معافی، مہنگائی، غریبی، رافیل ڈیل میں ہوئی گڑ بڑی، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، آئینی اداروں میں حکومت کی مداخلت وغیرہ جیسے ملک کے بنیادی مسائل کو پوری شدت کے ساتھ اٹھایا۔ لیکن ان کی محنت ووٹ میں نہیں بدل سکی، اس غیر متوقع ناکامی کے طوفان نے کانگریس کے حوصلہ کی نیو کو ڈگمگا دیا اور ریاستی سطح پر پارٹی کے اندر انتشار کی کیفیت پیدا کر دی۔ ریاستوں میں خاص طور پر راجستھان، مدھیہ پردیش اور پنجاب میں کانگریس کو داخلی ناراضگیوں سے نمٹنا ہے۔ تو کرناٹک، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر، ہریانہ اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کو اپنی کمزور کارکردگی اور مقامی قائدین کی بے اطمنانی کا جائزہ لے کر دور کرنا ہے۔

اپنی شکست کی وجوہات پر کانگریس غور و فکر کر رہی ہے۔ لیکن ابھی تک اس کی سینئر لیڈر شپ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پائی کہ آخر اس سے کہاں غلطی ہوئی اور آئندہ اسے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ اوپر سے اس کے رہنما آپس میں ہی دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے ہیں۔ ہار کی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ کی پیش کش کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پارٹی کے صدر راہل گاندھی نے ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے استعفیٰ پیشکش کی جسے کانگریس ورکنگ کمیٹی نے مسترد کردیا۔ راہل گاندھی کے استعفیٰ پر سیاسی حلقوں میں کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اس وقت راہل گاندھی کو استعفیٰ دے کر  فرار نہیں ہونا چاہئے اس سے کانگریس پر مزید دباؤ بڑھے گا، اس نازک صورتحال سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات میں صرف کانگریس نے ناکامی کا سامنا نہیں کیا بلکہ ان تمام علاقائی پارٹیوں کو دھکا لگا ہے جو مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف انتخابی مہم میں سرگرم تھیں۔ وہ میدان چھوڑ کر فرار ہونے کے بجائے اپنی سیاست کو سنبھالنے اور مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نہ صرف بی جے پی کے تیزی سے بڑھتے قدموں کو روکنے میں ناکام رہیں بلکہ انتہائی سخت حالات سے دوچار ہیں، اس کے باوجود وہ پارٹی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنے کے عزم کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ الیکشن میں ہار جیت تو وقت وقت کی بات ہے، اس سے قبل بھی کانگریس ناکامی کا سامنا کر  اور مضبوط ہو کر ابھر چکی ہے۔

موجودہ پارلیمانی انتخابات میں 303 سیٹیں حاصل کرنے والی بی جے پی 30 سال قبل صفر لیول پر تھی۔ 1984 کے الیکشن میں اس کے صرف دو امیدوار جیت کر پارلیمنٹ پہنچے تھے۔ آج یہی پارٹی عوامی رابطہ کاری اور اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی کے دم پر یہاں تک پہنچی ہے۔ اس نے تمام سیاسی جماعتوں کے ناراض، بے توجہی کے شکار ممبران، زمینی سطح پر کام کر رہی علاقائی و چھوٹی پارٹیوں، محروم پسماندہ طبقات اور دلتوں کو جوڑ کر اپنے کنبہ کو وسیع کیا۔ 2019 کے الیکشن میں بی جے پی کو 41 پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے اپنے ناراض ساتھیوں کو ان کی شرطیں مان کر ساتھ رکھا۔ شیو سینا اور جے ڈی یو کی مثال سامنے ہے۔ الیکشن سے قبل شیو سینا بی جے پی  کے ہر فیصلہ پر کھل کر تنقید کر رہی تھی۔ اب وہ بی جے پی کے خلاف جانے کی سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر وہ بی جے پی کی مخالفت کرتی ہے تو اسے بی ایم سی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ بی جے پی کو 2014 کے الیکشن میں بہار سے 22 سیٹیں ملی تھیں مگر اس نے جے ڈی یو کے ساتھ مل کر 17-17 سیٹوں پر الیکشن لڑنا منظور کیا۔

اس کے برعکس کانگریس اپنے زمینی رہنماؤں کو بھی ساتھ نہیں رکھ سکی۔ شردپوار، اجیت جوگی، ممتا بنرجی اور جگن موہن ریڈی اس کی مثال ہیں۔ وہ اپنی حلیف جماعتوں یا متوقع ساتھیوں کو سادھنے میں بھی ناکام رہی۔ یوپی میں اپنی زد کے چلتے کانگریس مہا گٹھ بندھن کا حصہ نہیں بن سکی۔ اگر وہ اس میں شامل ہو جاتی تو اس کا فائدہ اسے مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں بھی مل سکتا تھا۔ آسام میں جان بوجھ کر کانگریس نے یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد نہیں کیا۔ بہار میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کرنے میں اتنی تاخیر کر دی کہ الیکشن کی تیاری کا وقت نکل گیا۔ مہاراشٹر اور کرناٹک میں بھی کم و بیش یہی حال رہا۔ اس وقت بھی پارٹی صدر کو لے کر کانگریس پش و پیش کا شکار ہے۔ جبکہ بی جے پی نے اگلے آٹھ ماہ میں ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے۔

حد تو تب ہو گئی جب کانگریس کے ریاستی قائدین کو اپنی پارٹی کے صدر سے ملنے کے لئے کئی کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑا۔ جبکہ انہیں بی جے پی کے صدر اور وزیراعظم نریندرمودی سے ملنے میں کوئی وقت نہیں لگا۔ اگر کسی کی کانگریس ہائی کمان سے ملاقات ہو بھی گئی تو اس کی بات پر نہ توجہ دی گئی اور نہ ہی اسے مطمئن کیا گیا۔ آسام اور شمال مشرقی ریاستوں سے اسی کے چلتے کانگریس کی حکومت ختم ہوئی۔ پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ غیر تجربہ کار صلاح کاروں اور چاپلوسوں سے گھری ہوئی ہے۔ ان درباری لوگوں کی وجہ سے ہی 134 سال پرانی پارٹی کی سیاست عوام سے کٹ کر ڈرائنگ روم تک محدود ہو گئی۔ اس کی تمام اچھی اسکیمیں، خیال اور پالیسیاں اس طرح عام آدمی تک نہیں پہنچ پائیں، جس سے وہ کانگریس کو اپنی پارٹی سمجھتا۔ نتیجہ کے طور پر کانگریس لوک سبھا میں 52 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ انچ انچ لڑنے کے عزم کا اظہار کرنے والے راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی حکومت کی من مانی پالیسیوں پر کس طرح احتجاج کرتی ہے۔

کانگریس میں ابھی بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو انگریزی میں سوچتے اور ہندی میں بولتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اکثر پارٹی کو آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسے کبھی صفائی تو کبھی ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ اور بی جے پی کو بیٹھے بٹھائے کانگریس کو گھیرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ انہیں حضرات نے پارٹی کی ذیلی تنظیموں سیوادل، این ایس یو آئی کو کمزور کر دیا۔ جبکہ یہ دونوں تنظیمیں زمینی سطح پر کانگریس کی پکڑ مضبوط بنانے کا کام کرتی تھیں۔ سرمایہ داروں، صنعت کاروں سے رابطہ کا ذریعہ اور بوتھ کی سطح تک کام کرنے لئے کارکنان مہیا کراتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بیوروکریٹ بھی ان کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ کانگریس کی اس لائف لائن کے بوسیدہ ہونے کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا۔ عوام پر اس کی پکڑ کمزور ہو گئی۔ کانگریس کی طاقت اس کے سیکولرزم اور سماجی انصاف کے نظریہ میں ہے۔ اسی نظریہ نے ملک کو جوڑا اور مضبوط بنایا ہے۔ کانگریس کے نرم ہندتوو نے سیکولر ووٹروں کی امید پر پانی پھیرا۔ وہ کانگریس سے ہٹ کر بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔ 2019 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد بی جے پی اپنی سیکولر شبیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے یعنی وہ کانگریس کی طاقت کو چھیننا چاہتی ہے۔

اس صورتحال میں کانگریس کو پارٹی اور اس کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اسے بڑے پیمانے پر ممبر سازی کرکے بوتھ لیول کی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئے۔ بوتھ، بلاک، اسمبلی، ضلع کی سطح کے ذمہ داروں کا انتخاب کرا کر ان کی تربیت کرنی چاہئے۔ اسے اپنی سیاسی لڑائی ڈرائنگ روم سے نکل کر سڑک پر عوام کے درمیان لڑنی ہوگی۔ مہنگائی، بھک مری، ٹھیکیداروں کی من مانی، سب کے لئے یکساں تعلیم، یکساں روزگار اور صحت ایسے سوال ہیں جن کو عوام کے بیچ لے جانے کی ضرورت ہے۔ چاپلوسوں کو کنارے کر زمین سے جڑے، عام لوگوں کی نفسیات کی سمجھ رکھنے والوں کو آگے لانا ہوگا۔ ساتھ ہی کانگریس سے الگ ہو کر اپنی پارٹی بنانے والے شردپوار، ممتا بنرجی اور جگن موہن ریڈی کی پارٹیوں کو کانگریس میں ضم کراکر انہیں کارگزار صدر بنانے پر غور کرنا چاہئے۔ اس سے ایک طرف کانگریس کی ریاستی سرکاروں میں اضافہ ہوگا تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں پارٹی کو اپوزیشن کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ اس کی آواز میں دم پیدا ہو جائے گا اور کانگریس کی بات سنی جائے گی۔ وہ اپوزیشن ہونے کا اپنا فرض بھی اچھی طرح ادا کر پائے گی۔ ایک مضبوط اپوزیشن کی ملک کو ضرورت ہے اور یہ صرف کانگریس ہی دے سکتی ہے۔ اس کے لئے پارٹی کو اپنی دشا اور دشا کو بدلنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔